پاکستان کے کرپٹ ایلیٹ مافیا نے 77 سال سے تین بیانیے گھڑ رکھے ہیں جن کو پیڈ کانٹینٹ والے کاریگر ہمیشہ بڑی کاریگری سے بوقتِ ضرورت آگے بڑھاتے ہیں۔ ان میں سے اولین بیاناتی ہتھیار آزاد ججز اور آزاد عدلیہ کے خلاف استعمال ہوتا آیا ہے۔ پاکٹ ججز‘ کینگرو کورٹس اور وہ قاضی جو اپنا قلم صرف سویلین اور نان سویلین مقتدرہ کے حق میں استعمال کرنے کے لیے سنبھال کر رکھے‘ ایسے اثاثوں کو بچانے کے لیے بھی یہی بیاناتی ہتھیار استعمال ہوتا آیا ہے۔ آج کل سپریم کورٹ کے سب سے سینئر جج جناب جسٹس منصور علی شاہ کے تاریخ ساز خط کے بعد اسی بیانیے کی بین پھر سے سنائی دینے لگی ہے۔
پاکستان کی جوڈیشل ہسٹری میں سینئر ججز نے اندرونی عدالتی ورکنگ کے بارے میں متعدد بار آن ریکارڈ اپنی رائے کا اظہارکیا لیکن اس تاریخ میں پہلی بار برادر ججز‘ سینئر پیونی جج، سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بینچ اور چیف جسٹس آف پاکستان کو بار بار اعتراضی خط لکھنے کا اعزاز صرف گزرے ہوئے قاضی کی تقدیر میں کاتبِ تقدیر نے لکھ رکھا تھا۔ اگر غالب کے خطوط کی طرح قاضی کے ان خطوط کا مجموعہ یعنی 'مکتوباتِ قاضی‘ شائع کیا جائے تو صرف ایک ثابت شدہ حقیقت کھل کر سامنے آئے گی۔ یہی کہ موصوف دنیائے انصاف کے وہ واحد چیف جسٹس ہو گزرے جنہیں صرف اپنی آواز انتہا سے زیادہ سننے کا شوق تھا۔ اسی شوق کو پورا کرنے کے لیے موصوف نے عدالتی تاریخ میں یہ ریکارڈ بھی قائم کر دکھایا کہ ملک کی جس سب سے بڑی عدالت کے وہ حاضر نوکری جج تھے عین اُسی سپیریئر کورٹ میں اپنے ذاتی مقدمے کی بغیر جج شپ سے استعفیٰ دیے وکالت بھی کر دکھائی۔ اس دورِ سیاہ پوش کے چند رپورٹ شدہ حقائق کی طرف جانا ضروری ہو گا تاکہ جسٹس منصور علی شاہ صاحب کے خط کا درست تناظر قارئین وکالت نامہ کے سامنے رکھا جا سکے۔ ساتھ ساتھ قاضی کے حق میں بجائی گئی بین کے سب سے پہلے راگ کو ایکسپوز کیا جا سکے۔ یاد رہے اس بیانیے کے بینی فشری اور بینی فشری کے بینی فشری راگی کا خیالِ خام ہے کہ لوگ پچھلے 13 ماہ میں رول آف لاء کی اُڑائی گئی اَن گنت دھجیاں بھول جائیں گے۔ وہ تاریک تاریخ جو 25 کروڑ لوگوں کے خرچے پر اُنہی کے حقوق پامال کرنے کے لیے بنائی گئی اُسے پاکستانی کبھی نہیں بھولیں گے۔ کرپٹ ایلیٹ مافیا کے اس مستقل بیانیے کی ایک اور خاص نشانی یہ ہے کہ ہمیشہ سے جب بھی بینی فشری اپنے کرتوتوں پر پکڑا جائے تو اُس کے بین بجانے والے راگی میثاقِ جمہوریت یا میثاقِ معیشت کا راگ چھیڑ دیتے ہیں تاکہ لوگوں کو بتایا جا سکے کہ اُس نے جو بھی کھایا پیا‘ اندر سے لُوٹا اور باہر پہنچایا یہ جمہوریت کی بالادستی اور معیشت کی بالاتردستی کے محافظ کا فرض اور وطن کی مٹی پر قرض تھا۔ مغرب میں انصاف کی دیویوں کے مجسمے اندھے ہیں اس کے باوجود وہاں منصف آنکھیں کھول کر انصاف کرتے ہیں۔ یہ ہیں مکتوباتِ قاضی کے نتیجے میں ہونے والے انصاف کے تین بڑے لینڈ مارک جن کی وجہ سے پاکستان میں نظامِ عدل اور آئین‘ دونوں بے آبرو ہوئے۔
مکتوباتِ قاضی کا پہلا باب: میں نہیں جانتا آئین میں کوئی ترمیم ہوئی ہے۔ اس دعوے پر بلاول صاحب تڑپ کر بولے: قاضی فائز عیسیٰ نہ ہوتے تو 26ویں آئینی ترمیم کرنا ممکن نہیں تھا‘ اُن کی وجہ سے ہم نے جمہوریت محفوظ بنائی۔ جس ملک میں مالی اور فوجداری جرائم کے نامزد ملزم بار بار اقتدار میں بٹھائے جاتے ہوں وہاں چیف جسٹس لگانے کا اختیار ایگزیکٹو کو دینا واقعی قاضی فائز عیسیٰ صاحب کا ایسا کارنامہ ہے جسے عدالت و وکالت کی دنیا آنے والے سارے زمانوں میں اپنی اپنی علاقائی زبانوں میں یاد کرتی رہے گی۔ شاید اسی لیے مجھے بھی کئی دن سے پوٹھوہاری‘ پنجابی‘ پشتو اور بدّوئوں والی عربی بولنے کا جی چاہ رہا ہے۔
مکتوباتِ قاضی کا دوسرا باب: اس باب میں سپریم کورٹ کے فاضل جج جسٹس حسن رضوی صاحب نے اپنے اضافی نوٹ میں یہ کہہ کر اسے آنے والے ہر دور میں ہمیشہ کے لیے محفوظ بنا دیا ''عدالتی وقار کا تقاضا ہے کہ اختلاف تہذیب کے دائرے میں رہ کر کیا جائے۔ تنقید کا محور فیصلے کے قانونی اصول ہوں نہ کہ فیصلہ لکھنے والے ججز کی تضحیک‘‘۔ جسٹس رضوی قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے آٹھ برادر ججز کے خلاف ہرزہ سرائی کی جانب اشارہ کر رہے تھے۔
مکتوباتِ قاضی کا تیسرا باب: اس باب میں تحقیق کی ضرورت ہے کہ مبینہ طور پر 12 کروڑ روپے میں سپریم کورٹ کی مین بلڈنگ کے لان میں بینچ نما اور سپریم کورٹ رپورٹرز کے مطابق 'قبرستان‘ نما یادگار کے لیے ٹینڈر کب آیا‘ بڈنگ کب ہوئی اور ٹھیکیدار کون تھا؟ انویسٹی گیٹو رپورٹر اس بابت کھل کر بول رہے ہیں۔
اب آئیے جسٹس منصور علی شاہ صاحب کے بے لاگ خط کی جانب‘ جو اُنہوں نے قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس میں شرکت سے انکار پر لکھا۔ یہ خط جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے کیس کی روشنی میں آرٹیکل 209 کے نیچے ایک مکمل چارج شیٹ ہے جس پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔ جسٹس سید منصور علی شاہ لکھتے ہیں:
چیف جسٹس کا مناسب کردار تمام لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔ عدلیہ کی آزادی کا دفاع اور سب کے لیے انصاف کا تحفظ کرنا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر رکھ کر مطمئن اور لاتعلق رہے۔ عدلیہ پر بیرونی اثرات اور دبائو کے لیے انہوں نے عدلیہ کا دفاع کرنے کی نہ جرأت دکھائی اور نہ ہی اخلاقی قوت کا مظاہرہ کیا بلکہ اپنے مفاد کے لیے عدالتوں کو کمزور کرنے کی کوشش کرنے والوں کے حوالے کر دیا اور اس طرح قانون کی حکمرانی کی بنیاد پر سمجھوتا کرتے رہے۔
ریفرنس میں نہ جانے کی دوسری وجہ جسٹس منصور علی شاہ نے یوں بتائی: قاضی فائز عیسیٰ راست بازی کے ذریعے مکالمے میں شامل ہونے میں مسلسل ناکام رہے اور اتفاق رائے کے ساتھ قیادت کرنے سے انکار کر دیا‘ جو عدالتی قیادت کی پہچان ہے۔ ان کو اس عدالت کے فیصلوں کا بہت کم خیال ہے اور انہوں نے توہین آمیز تجویز دی ہے کہ ان پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے عدالت کے اندر ساتھیوں کے درمیان تلخ تقسیم اور ٹوٹے ہوئے تعلقات کو فروغ دیا ہے جس سے عدلیہ پر داغ ہیں جو دیرپا موجود رہیں گے۔
خط کے پیراگراف نمبر 5 میں جسٹس منصور علی شاہ نے ریفرنس کی تجویز مسترد کرتے ہوئے کہا: اس طرح کی مدت کا جشن منانے سے پیغام جائے گا کہ ایک چیف جسٹس اپنے ادارے سے غداری کر سکتا ہے‘ اس کی طاقت کو ختم کر سکتا ہے‘ معمولی اور گھٹیا کام کر سکتا ہے۔ پھر بھی اُسے انصاف کے معزز خادم کے طور پر مانا جائے۔ میں نیک نیتی سے معذرت خواہ ہوں‘ میں ایسے چیف جسٹس کے لیے ریفرنس میں شریک نہیں ہو سکتا۔
اختر عباس نے تاریخ کے جھروکے سے آواز دی:
یوں تو فائز تھا وہ مسند پہ قضاوت کی مگر
جاتے جاتے بھی عدالت کا بھرم توڑ گیا