کراچی حیدر آباد کی بات ہو تو ہائی وے کو مو ٹروے قرار دے دیا جاتا:سندھ ہائیکورٹ
کراچی (سٹاف رپورٹر) سندھ ہائیکورٹ نے ایم نائن موٹروے پر رسائی اور سہولتوں کی فراہمی سے متعلق درخواست پر درخواست گزار کے وکیل کو آئندہ سماعت پر حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کردی۔
جسٹس ظفر احمد راجپوت کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو ایم نائن موٹروے پر رسائی اور سہولتوں کی فراہمی سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی۔ وکیل اسکور بیرسٹر عمر سومرو نے موقف دیا کہ پٹرول پمپس اور ریسٹورنٹس کو این ایچ اے نے اجازت نہیں دی، این ایچ اے کے تحت سہولتوں کی فراہمی کے لئے مختلف فرمز کام کررہی ہیں، ایم نائن موٹروے پر 52 ہزار گاڑیاں اور ہیوی ٹریفک سفر کرتی ہیں، این ایچ اے عالمی معیار کے مطابق پٹرول پمپس اور سہولتیں فراہم کرنا چاہتی ہے ، وہ خود کچھ تعمیر نہیں کرتی ، مختلف نجی اداروں کے ذریعے تعمیرات کی جاتی ہیں،کراچی ٹول کے بعد ریسٹورنٹ اور پٹرول پمپس بغیر اجازت کام کررہے ہیں۔ درخواست گزار ٹرمینل والوں کو ہمارے بس ٹرمینل پر اعتراض ہے کہ ٹرمینل گرین بیلٹ کا قائم ہے ، ان کا اپنا ٹرمینل ہی غیر قانونی ہے ۔
جسٹس ظفر احمد راجپوت نے ریمارکس دیئے کہ پنجاب میں موٹروے بنتی ہے تو جی ٹی روڈ کو قائم رکھا جاتا ہے ،سکھر ملتان کے لئے بھی نیشنل ہائی وے کو برقرار رکھا جاتا ہے ،کراچی حیدر آباد کی بات آئے تو ہائی وے کو موٹر وے قرار دے دیا جاتا ہے ، جامشورو سے سیہون روڈ تک ڈبل کرنے کی ادائیگی کے باوجود دس سال بعد بھی مکمل نہیں ہوا، اگر یہ منصوبہ کسی اور صوبے میں ہوتا تو اب تک مکمل ہوچکا ہوتا۔ بیرسٹر عمر سومرو نے موقف دیا کہ سندھ کی نمائندگی جن کے پاس ہے ان کے لئے کیا کہوں۔ عدالت کا حکم تھا کہ گرین بیلٹ یا سروس روڈ پر کام شروع نہیں ہوگا، سروس روڈ پر ابھی بھی کام جاری ہے ،سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے سروس روڈ یا گرین بیلٹ پر تجاوزات نہیں ہوسکتیں۔ ناظر کی رپورٹ ہے یہ تعمیرات سروس روڈ پر نہیں۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر درخواست گزار کے وکیل کو حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کردی۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ یہ قومی مفاد اور ترقی کا معاملہ ہے ، درخواست گزار اپنے وکیل کی حاضری یقینی بنائیں۔ عدالت نے درخواستوں کی سماعت 27 نومبر تک ملتوی کردی۔