ہم ٹرک کی بتی کے پیچھے لگے ہیں، اب سوموٹو نہیں لے سکتے: جسٹس منصور
لاہور(کورٹ رپورٹر،دنیا نیوز)سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہاہم ٹرک کی بتی کے پیچھے لگے ہیں، اب سوموٹو نہیں لے سکتے، 26 آئینی ترمیم کے بعد ازخودنوٹس کا اختیار واپس لے لیا گیا،یہ بھی کلائمیٹ جتنا بڑا ایشو ہے۔۔۔
لاہور کی یونیورسٹی سے ماحولیاتی تبدیلوں سے متعلق کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کلائمیٹ فنانس ہی کلائمیٹ جسٹس ہے، موسمیاتی ایمرجنسی کا پاکستان کو سامنا ہے پاکستان دنیا کا آٹھواں بڑا ملک ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہے عدالتوں نے ہمیشہ موسمیاتی ایمرجنسی کے کیسز کو سنجیدہ لیا ہے، 90 کی دہائی میں انڈسٹریوں کو بند کرنے سے لے کر دیگر عوامل پر بات کی گئی، عمل درآمد کون کرے گا اس پر بات نہیں ہوئی ، کلائمیٹ فنانس پر بات ہی نہیں ہوئی نیچر فنانس کے بغیر موسمیاتی ایمرجنسی سے لڑا نہیں جاسکتا ، فوڈ سکیورٹی، ڈیزاسٹر مینجمنٹ، واٹر سکیورٹی سمیت دیگر عوامل پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ اربن پلاننگ ، ایگریکلچرل پلاننگ پر بات کرنا ہوگی گزشتہ 7 سال میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کوئی کام نہیں ہوا، کیسز میں عدالتوں نے ہدایات جاری کیں لیکن گراؤنڈ پر کچھ نہیں ہوا، یہ دیکھا نہیں گیا کہ ریسورس ہے کہ نہیں، حکومت نے بھی اس کو فوکس نہیں کیا،پاکستان میں کلائمیٹ فنانس امید کی ایک کرن ہوگا یہ لوگوں کو سکیورٹی دے گا، کلائمیٹ فنانس ہی کلائمیٹ جسٹس دے سکے گا یہ بنیادی طور پر انسانی حق ہے آئینی اعتبار سے بھی انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے کلائمیٹ فنانس کی طرف جانا ہوگا، چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد سوموٹو کی پاور واپس لے لی گئی ہے ، یہ بھی کلائمیٹ چینج جتنا ہی بڑا ایشو ہے ، ہمارے ہاں ایڈمنسٹریشن کے مسائل ہیں باکو میں حکومت نے اچھی کوشش کی، کلائمیٹ ڈپلومیسی پر جلدی کام کرنے کی ضرورت ہے حکومت کے پاس ابھی لگتا ہے اتنے پیسے نہیں ہیں، 2017 میں قانون بنا لیکن ابھی تک اتھارٹی نہیں بنی ،ہوسکتا ہے جلد بن جائے 2017 کے ایکٹ کے مطابق فنڈ بننا تھا،بجٹ میں بھی اس کا ذکر نہیں کیا گیا عدالتیں سمجھتی ہیں کہ کلائمیٹ فنانس کو بنیادی حق سمجھنا ہوگا۔