لاپتہ افراد کیس میں پیش رفت بے سود، ہم جہاں سے شروع وہیں کھڑے:اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد(رضوان قاضی)اسلام آباد ہائیکورٹ کے تین رکنی لارجر بینچ نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے دائر درخواستوں میں اٹارنی جنرل کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا،بینچ کے سربراہ جسٹس محسن اخترکیانی نے ریمارکس دیئے کہ آج 25 ویں سماعت ہے ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں پہلے تھے ۔
اس طرح کے کیسز پاکستان جیسے ملک کے لیے خطرناک رائے قائم کرتے ہیں،ان باتوں کو ہم نے دیکھنا ہے یہ ملک کا نقصان ہے ،ہم سراہتے ہیں سکیورٹی ادارے جو کام کر رہے ہیں لیکن جو کام بھی کرنا ہے قانون کے اندر رہ کر ہی کرنا ہے ۔دوران سماعت وکیل درخواست گزار ایمان مزاری اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل پیش ہوئے ،جسٹس محسن اخترکیانی نے کہا میرا موقف تھا کہ خفیہ ایجنسیز کی کمیٹی ممبران کو اِن کیمرہ بریفنگ کیلئے طلب کیا جائے ،میرے ساتھی ججز کا موقف تھا کہ پہلے وفاقی حکومت کو ایک موقع دینا چاہیے ،جبری گمشدہ افراد انکوائری کمیشن کے سربراہ ہمارے جج تھے انتقال کر گئے ،جبری گمشدہ افراد کمیشن کام نہیں کر رہا، وفاقی حکومت کچھ نہیں کر رہی پھر کسی نہ کسی نے تو دیکھنا ہے ،جبری گمشدہ افراد کمیشن اگر کام نہیں کر رہا تو میرا خیال ہے اسے بند کر دیا جائے ،کابینہ کی جو سب کمیٹی بنائی گئی اُس میں خفیہ اداروں کے لوگوں کو شامل ہی نہیں کیا گیا،میرے ساتھی ججوں کا موقف تھا کہ وفاقی کابینہ خفیہ ایجنسیز کو بلا کر خود پوچھے ،یہ سب کام وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کر سکتے ہیں جو ہمارے سامنے نہیں ہیں،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا سب کمیٹی کی ایک میٹنگ ہو چکی ہے دوسری بھی جلد ہو گی، جوائنٹ کمیٹی جن 13 مختلف نمائندہ افراد کو ملی ہے اس کی تفصیل جمع کرائی ہے ،کمیٹی کی رپورٹ پرلاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ تبدیل ہوئے ،وائس آف بلوچستان کے نمائندہ سے بھی کمیٹی ملی ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتہ افراد کیسز میں تمام پیش رفت کو بے سود قرار دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ میری عدالت میں جتنی فیملیز بیٹھی ہیں میں نے انکو جواب دینا ہے ،ریاست لوگوں کو بازیاب کرنے میں ناکام رہی ہے ،ہم جہاں سے شروع ہوئے تھے وہیں پر کھڑے ہیں،یہ کیس تب ختم ہوگا جب تمام بندے بازیاب ہو جائیں گے ،یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا کیس ہے ،یہ ملک کے لیے بدنامی کا باعث بنتے ہیں،مجھے خوشی ہے ہماری خفیہ ادارے اپنا کام کر رہے ہیں،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کمیٹی معاوضے کی ادائیگیوں کو بھی دیکھے گی، وفاقی حکومت ذمہ داری قبول کر چکی،استدعا ہے اسے وقت دیاجائے ،جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ذمہ داری قبول کرنے کے بعد نتائج بھی بھگتنا پڑتا ہے ، ہمارے جوان بھی شہید ہوتے ہیں ، ابھی ایک میجر صاحب شہید ہوئے ، اگر وہ نہ ہوں تو یہ ملک نہ ہو، دوسری طرف سے بھی لوگ مرے ہیں کیا انکی پرفائلنگ ہوئی ؟، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا عدالت اتنی بھی اندھی نہیں ہونی چاہیے نہ ہی اُسے اندھا کریں،میرا بڑا واضح موقف ہے کہ جو دہشت گرد ہو گا اس کو دہشت گرد کہوں گا، جو دہشت گرد نہیں اسے پھر رہا کرنا ہو گا، سی ٹی ڈی کو قانون میں تحفظ ہے تو آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کیوں نہیں؟،جب ان اداروں کے پاس اختیار ہو گا تو پھر یہ مسنگ پرسنز والا ایشو حل ہو گا،عدالت نے ہر 15 دن کی کارکردگی رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت6مارچ تک ملتوی کردی۔فاضل عدالت کے جسٹس ارباب محمد طاہر نے تین سال سے لاپتہ گھریلو ملازمہ شہناز بی بی کی بازیابی سے متعلق کیس میں پولیس کی اندراج مقدمہ کی درخواست نمٹانے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے پولیس کو ہرپہلو سے تفتیش کرنے کی ہدایت کردی،مزیدسماعت 11 فروری کوہوگی۔