یہ تو کبھی سوچا ہی نہ تھا اور نہ یہ بات ہمارے خیال میں آئی تھی کہ پنجاب کے جنوب میں آخری ضلع‘ جس کی وجۂ شہرت ماضی میں کچھ دیگر حوالوں سے رہی ہے‘ فطری اور ثقافتی لوک ورثے سے اس پر ایک بہت بڑی کانفرنس کا انعقاد ایسے مشکل دور میں ممکن ہو سکے گا۔ یہ ہمارے پنجاب کے ممتاز شاعر‘ ادیب‘ کالم نگار جناب شفقت اللہ مشتاق صاحب کی عوام سے محبت‘ فنونِ لطیفہ سے دلی لگائو اور علاقائی ادب میں گہری دلچسپی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے راجن پور میں پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں سے ماہرین‘ اساتذہ‘ فنکار‘ شاعر اور ادیب جن میں سرائیکی وسیب کے دانشور بھی نمایاں تھے‘ مشتاق صاحب کی دعوت پر تاریخ میں پہلی بار اکٹھے ہوئے۔ یہاں حسبِ روایت مشاعروں‘ ثقافتی میلوں‘ مزاروں پر عرس یا مقامی کھیلوں کا انعقاد تو ہم دیکھتے رہے ہیں لیکن قومی اور بین الاقوامی سطح کی ایسی علمی مجلس‘ جو کانفرنس کی صورت دو دن صبح سے شام تک جاری رہی‘ کا خیال ہمارے علاقائی اکابرین کے ذہنوں میں کبھی نہ آیا تھا۔ گزشتہ سال جب وہ ڈپٹی کمشنر بن کے آئے تو مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ ہمارے قائداعظم یونیورسٹی کے اچھے زمانوں کے سابق طالب علم اپنے انتظامی عہدوں کے سفر میں راجن پور میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔ اس جامعہ کی تاریخ اب تو 60 سال پرانی ہے اور اس کا معیار جو ایک زمانے میں تھا‘ اب بھی ہے‘ اس کی بدولت فارغ التحصیل نوجوان قومی زندگی کے ہر شعبے میں پہنچے ہیں۔ ان میں ایک مرتضیٰ نور صاحب بھی ہیں جو سب پرانے دوستوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ ان کی زبانی معلوم ہوا تھا کہ ہمارے ''قائدین‘‘ ہمارے آبائی ضلع کا اقتدار اعلیٰ سنبھالے ہوئے ہیں۔
نومبر میں ملاقات میں ذکر کیا تھا کہ وہ اس علاقے کے کئی ثقافتی رنگوں کی بہار کو قومی افق پر نکھارنے کے لیے کئی اقدامات کر رہے ہیں جن میں ایک بڑی کانفرنس بھی شامل ہے جس کی وہ میزبانی کریں گے۔ اور یہ بھی کہ ہمیں بھی دعوت نامہ ملے گا۔ آپ میں سے جو لوگ اس درویش کو جانتے ہیں‘ انہیں معلوم ہو گا کہ سیمیناروں اور کانفرنسوں میں ہماری زندگی‘ بلکہ نصف صدی گزری ہے‘ تو راجن پور کی کانفرنس کے لیے دل میں تحریک اور تڑپ کیوں پیدا نہ ہوگی۔ حوادثِ زمانہ سمجھیں یا شومیٔ قسمت کہ اپنے سرائیکی وسیب یا جنوبی پنجاب کی کسی بھی جامعہ یا کالج کی کانفرنس میں شرکت نہیں کر سکا۔ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان اور خواجہ فرید کالج رحیم یار خان دو ایسے ادارے ہیں جہاں مجھے طالب علموں سے خطاب کرنے کا موقع ملا اور بے حد عزت ملی۔وہ لمحے میری یادوں میں ابھی تک تازہ ہیں۔ راجن پور کی کانفرنس کے لیے جس جذبۂ محبت سے مشتاق صاحب نے دعوت دی اس کے سامنے گہری دھند دیوار نہ بن سکی۔ گرتے پڑتے‘ لہراتے اور چلتے دو دن پہلے ہی تقریر لکھ کرجنگل کے کونے میں سستانے لگا۔ اگلے ہی روز معلوم ہوا کہ دھند کے خطرے کے پیش نظر کانفرنس چھ سات فروری تک ملتوی کر دی گئی ہے۔ دل میں حسرت لیے واپس لوٹنا پڑا کہ انہی تاریخوں میں برطانیہ کا سفر طے ہو چکا تھا۔ بہرحال یہاں آ کر بھی ہمارا دل کانفرنس میں اٹکا رہا۔ ایک دو دوستوں سے تازہ رپورٹ کی درخواست بھی کی اور بہت کچھ سوشل میڈیا اور قومی اخباروں کو کھنگالنے کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ وہاں حاضر ہوں۔ یہ صرف دل کو تسلی دینے کے لیے ہے کہ شرکت کرنے کی خواہش نے احساسِ محرومی کو بڑھا دیا ہے۔
مشتاق صاحب اور ہمارے جیسے لوگ دیہات‘ لوک ثقافت اور مقامی ورثے کی اہمیت اور تاریخی حیثیت سے کچھ آگاہی رکھتے ہیں۔ ہمارے ملک کے ہر صوبے اور ہر ضلع سے لے کر مقامی آبادیوں تک تنوع اور یکسانیت کے دھارے قوسِ قزح کے رنگوں کی طرح پھیلے ہوئے ہیں۔ اپنی آنکھ اور دل کی آنکھیں کھول کر اپنے ملک کی کسی بھی حصے میں اور کسی بھی موسم میں صبح شام نیلے آسمان پر رات کے اندھیرے میں چاند اور ستاروں کی روشنی دیکھنا نصیب ہو تو شاید اَن گنت محرومیاں‘ جو ہم نے اپنے اوپر طاری کی ہوئی ہیں‘ ہمارا دامن چھوڑ دیں۔ اور ہمارے دل ہمارے اپنے فطری ماحول کی خوشبو سے بھر جائیں۔ لوک شاعری‘ لوک موسیقی‘ لوک کہانیاں جن میں ہزار وں سال کی بصیرت اور دانشمندی شامل ہے‘ سے مردہ دل بھی زندہ ہو جاتے ہیں۔ ظلم کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں سے لے کر عام آدمی تک میں اپنے ورثے سے کوئی ربط اور خود آگہی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ جہاں آج کل برطانیہ کے دور دراز کے دیہات میں قیام ہے‘ اس علاقے کا ثقافتی ورثہ اس صنعتی ملک کے ہر گائوں میں محفوظ ہے اور ہر گاؤں اور علاقہ اپنی انفرادیت پر فخر کرتا ہے۔ ہمارے اپنے ملک میں ہر کام میں گنگا الٹی بہتی ہے۔ ہم انفرادیت کے بجائے یکسانیت پر زور دیتے ہیں۔ یہ سب لسانی تحریکوں کا المیہ ہے۔ اور وہ اس لیے کہ مقامی سطح پر اپنے ثقافتی ورثے کی انفرادی خوبصورتی‘ جو ہر وقت ارد گرد موجود ہے‘ پر نظر نہیں پڑتی۔ ذہن میں تصورات مثالیت پسندی کے اور خواب دیگرعلاقوں کو یا باہر کے ملکوں کی تشہیر کردہ جگہوں کو دیکھنے کے ہم عادی ہو چکے ہیں۔
راجن پور کا سُن کر مجھے نہیں معلوم کہ جو لوگ ادھر کبھی نہیں آئے‘ کیا کیا خیال اُن کے ذہن میں پیدا ہوتے ہوں گے۔ اتنا ضرور معلوم ہوا ہے کہ لاہور اور پنجاب کے دیگر بڑے شہروں میں سے کسی کا تبادلہ راجن پور ہو جائے تو دل پر بھاری پتھر رکھ کر اُدھرکا رخ کرتا ہے۔ مشتاق صاحب جیسے لوگوں کی بات اور ہے کہ وہ تو ہر علاقے کے منفرد مزاج‘ ثقافت اور مقامی روایات کے طالب علم بھی ہوتے ہیں اور ان کے بارے میں آگاہی‘ ترقی اور ترتیب کا بیڑا بھی اٹھاتے ہیں۔
راجن پور ملک کا واحد ضلع ہے جو تین صوبوں کے سنگم پر واقع ہے: سندھ‘ بلوچستان اور ظاہر ہے پنجاب۔ بلوچستان کے ساتھ کوہِ سلیمان اور دریائے سندھ تک کے علاقے کا ایک بڑا حصہ روہی کہلاتا ہے‘ جس کا مطلب صحرا ہے۔ یہاں خلیج کی ریاستوں کے امیر ہر سال اپنے ڈیرے ڈالتے ہیں۔ کاش میرے پاس الفاظ ہوتے تو اس خطے کی تصویر کشی کر سکتا۔ پھر کبھی سہی! اگر آپ دریائے سندھ کے کناروں‘ اس کے اندر ریت کے ٹیلوں‘ جزیروں اور چھوٹی چھوٹی جھیلوں کے آس پاس وقت نہیں گزار سکے تو آپ کو یہاں کے فطری نظاروں کے بارے میں کچھ بتانا مشکل ہو گا۔ یہاں کے تین لسانی اور ثقافتی دھارے ایک دوسرے کے ساتھ گندھے ہوئے ہیں۔سرائیکی‘ بلوچی اور پنجابی سرفہرست ہیں۔ لیکن سندھ کے ساتھ سندھی اور اب پشتونوں کی آبادی بھی آپ دیکھ سکتے ہیں۔ خواجہ غلام فرید کا مزار اور دیگر خواجگان کے مزارات بھی‘ آپ کو سمرقند اور بخارا کے تاریخی مدرسوں اور مزاروں کا ایک تسلسل دکھائی دے گا جو ملتان اور زیریں سندھ تک پھیلا ہوا ہے۔ ایک زمانے میں راجن پور آموں کے باغوں کا شہر تھا لیکن یہ باغوں کی روایت اس ضلع میں ہرسُوپھیلی ہوئی ہے۔ سینکڑوں بڑے بڑے باغات ہیں۔ کاش ہم یہاں بھی آموں کی نمائش کا بندوبست آئندہ کبھی کر سکیں۔ ہڑند کا تاریخی قلعہ ہو یا پہاڑی مقامات اور بلوچ قبائل کا طرزِ زندگی‘ کوئی زیادہ دور نہیں۔ راجن پور لوک ورثہ کی پہلی کانفرنس نے ایک مثال قائم کر دی ہے جو جنوبی پنجاب کے دیگر اضلاع کے لیے قابلِ تقلید ہے۔ لسانیت اور تعصب کے غبار سے نکل کر ہم مقامی ثقافتوں کو ان کی تاریخی انفرادیت میں دیکھیں تو ان کی فطری سچائی کی روشنی خود آگاہی کی منزل کی طرف سب راستوں کو منور کر دے گی۔