راکاپوشی:خوبصورتی میں بے مثال

راکاپوشی:خوبصورتی میں بے مثال

نگر قرار کے سینے میں آباد پاکستان کا وہ علاقہ جسے قدرت نے عجائبات و مناظر کا ایک اچھوتاامتزاج عطا کیا ہے۔بلند و بالا برف پوش چوٹیاں، شفاف پانی کی ندیاں، اپنی نوعیت کے منفرد ترین گلیشیئر، گھنے جنگلات، سبزہ زار اور آبشاریں، یہ تمام اجزاء جو کسی بھی خواب ناک خوب صورتی کی عکاسی کر سکتے ہیں نگر کو عطا ہوئے ہیں۔ انہی علامات حسن میں اپنی خوبصورتی میں بے مثال پہاڑی چوٹی جسے دنیا کی خوب صورت ترین چوٹیوں میں شمار کیا جاتا ہے''راکاپوشی‘‘ ہے۔راکا پوشی کی بلندی سات ہزار سات سو اٹھاسی میٹر (25550فٹ) ہے اور یہ پاکستان میں واقع بلند ترین چوٹیوں میں گیارہویں نمبر پر ہے۔ گو دنیا میں اس سے بلند چوٹیوں کی تعداد چھبیس ہے لیکن اسے یہ انفرادیت حاصل ہے کہ گلمت(شاہراہ) قراقرم، نگر) کے مقام سے اسے دیکھا جائے تو یہ دنیاکی سب سے بلند غیر منقطع شدہ ڈھلوان ہے۔ اس مقام پر آب کی سطح سے لے کر راکاپوشی کی چوٹی تک ایک متواتر چڑھائی ہے جس کی اونچائی پانچ ہزار آٹھ سو اڑتیس میٹر ہے، جبکہ گلمت ہی سے اس کی چوٹی تک کا فاصلہ گیارہ کلو میٹر ہے۔ یہ وہ خصوصیت ہے جو دنیا کے کسی اور مقام کو حاصل نہیں۔ راکاپوشی پہاڑ کی چوڑائی بھی غیر معمولی ہے اور مشرقی سمت سے لے کر مغربی سمت تک اس کا عرض 20کلو میٹر تک ہے۔راکاپوشی تک جانے کے لئے گلگت پہلی منزل ہے۔ جو پاکستان کے شمالی علاقہ جات کا صدر مقام ہے اور شمالی علاقہ جات کے اکثر علاقوں تک پہنچنے کیلئے نقطہ آغاز بھی۔ گلگت کا رقبہ 38021مربع کلو میٹر ہے۔ اور دنیا کے مشہور مقامات مثلاً شندور، یاسین، غذر، اشکومن، نلتر، استور، ہنزہ اور نگر وغیرہ کے مشہور علاقے گلگت میں ہی واقع ہیں۔ گلگت کے شمالی مغرب میں داخان جو کہ افغانستان کی ایک باریک پٹی ہے جس کی دوسری طرف تاجکستان واقع ہے۔ شمال اور شمال مشرقی اطراف میں چین کا صوبہ سنکیانگ ، شمالی مشرق میں مقبوضہ کشمیر اور شمال میں آزاد کشمیر واقع ہیں۔ گلگت میں زیادہ بولی جانے والی زبان شنیا ہے جبکہ بروشسکی زبان ہنزہ، نگر، واخی اور خواڑی زبانیں بھی گلگت کے اکثر علاقوں میں بھی بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ دنیا کی خوبصورت ترین چوٹیوں میں شمار کی جانے والی راکا پوشی کی بلندی 7ہزار788میٹر ہےگلگت سے مختلف گاڑیاں نگر اور ہنزہ کیلئے ہر وقت دستیاب ہیں اور علی آباد تک پہنچاتی ہیں۔ علی آباد ہنزہ اور نگر دونوں علاقوں کیلئے آسان اور عین شاہراہ قراقرم پر واقع مقام ہے لیکن راکاپوشی تک پہنچنے کا راستہ علی آباد سے پہلے ہی ایک گائوں پسن سے ہے۔ اگرچہ راکاپوشی جو کہ پہاڑی چوٹیوں کا ایک سلسلہ بھی ہے، کئی راستوں سے سیاحوں کی پہنچ میں ہے لیکن سب سے مشہور اور خوبصورت راستہ پسن اور مناپن گائوں سے ہی گزرتا ہے۔ سیاحت کا موسم دیگر شمالی علاقہ جات کی طرح یہاں بھی مئی سے شروع ہو کر ستمبر کے آخر میں ختم ہو جاتا ہے لیکن جون سے پہلے زیادہ بلند علاقوں میں برف مکمل طور پر نہیں پگھلی ہوتی اور بعض جگہوں پر سفر میں مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔خوراک اور دیگر ضروری سامان گلگت، ہنزہ اور نگر کے بازاروں میں عام طور پر دستیاب ہے جبکہ پسنداور مناپن وغیرہ سے آٹا، دال، چاول اور بنیادی خوراک کا بندوبست کیا جا سکتا ہے۔ مناسب ترین طریقہ مکمل تیاری اور منصوبہ بندی کے ساتھ تمام ضروری سامان اپنے ساتھ لانا ہی ہے جو کہ دوران سفر غیر ضروری وزن، وقت اور اخراجات میں معاون ثابت ہوگا۔ اس سفر میں تیز رفتار و پرشور دریائے مناپن ماخذ مناپن گلیشیئر تک چلتا ہے۔ دریائے مناپن میں برف کے چھوٹے بڑے ٹکڑے بھی گلیشیئر سے پانی کے ساتھ آتے ہیں اور گائوں کے بچے تواضع کے طور پر سیاحوں کو پیش کرتے ہیں۔دو سے تین گھنٹے کی مسافت کے بعد راستے میں پتھروں سے بنے چھوٹے چھوٹے مکانات نظر آتے ہیں جہاں مناپن گائوں سے گرمیوں کا موسم گزارنے والے چند خاندان آباد ہیں۔ یہ لوگ گرمیوں کے موسم میں گائوں کے پالتو جانوروں کی افزائش، خوراک اور ان سے حاصل کردہ دودھ سے مکھن، پنیر، گھی اور لسی وغیرہ تیار کرتے ہیں اور ٹھنڈی ندیوں کے ساتھ زمین میں گڑھے بنا کر محفوظ کرتے رہتے ہیں۔تمام سفر میں نہایت حسین اور دلچسپ مناظر ایک لمحہ کے لئے بھی سیاحوں کی توجہ کسی اور جانب منتقل نہیں ہونے دیتے۔ اسی راستے پر نہایت دل فریب مناظر آپ کو اپنے پاس بہت دیر تک رکنے پر مجبور کرتے ہیں اور طبیعت میں آسودگی و لطافت کا باعث بنتے ہیں۔ چند منٹ بعد ایک تنگ اور مشکل راستے سے گزرتے ہوئے سیاح اچانک ایک تاحد نگاہ وسیع عریض جنت نظیر سبزہ زار میں داخل ہو جاتے ہیں اورسکون کا احساس ماحول کی پرکیف فضا میں ڈھل کر آپ کے تمام وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ وسیع و عریض ڈھلوانی سبزہ زار جو کہ اپنی اونچائی کی سمت ایک گھنے جنگل سے شروع ہو کر گھاس اور پھولوں سے مزین، شفاف پانی کے ٹھنڈے چشموں سے آراستہ ایک بڑے رقبے کا احاطہ کرتے ہوئے گہرائی میں مناپن گلیشیئر کی سلیٹی مائل سطح پر ختم ہوتاہے۔ سیاح عموماً اس مقام پر جو کہ ہپاکن کہلاتا ہے کم از کم ایک دن ضرور قیام کرتے ہیں۔سیاحت کا موسم دیگر شمالی علاقہ جات کی طرح یہاں بھی مئی سے شروع ہو کر ستمبر کے آخر میں ختم ہو جاتا ہے 

’’AI‘‘ کا انقلاب اور غلط معلومات کا سیلاب

’’AI‘‘ کا انقلاب اور غلط معلومات کا سیلاب

مصنوعی ذہانت یعنی ''آرٹیفیشل انٹیلی جنس‘‘ (AI) کے فوائد کا کوئی شمار نہیں۔یہ کہنا غلط نہیں کہ اس ٹیکنالوجی نے دنیا کے سوچنے اور کام کرنے کے طریقوں کو تبدیل کر دیا ہے۔ AIہمارے سوشل میڈیا سے لے کر تعلیم حاصل کرنے اور پیشہ ورانہ امور میں اہم خدمات انجام دے رہی ہے۔ تاہم اس دنیا میں جہاں ہر تکنیک کے فوائد ہیں وہ کچھ منفی صورتیں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ AIبھی اس سے محفوظ نہیں۔ورلڈ اکنامک فورم نے اپنے سالانہ رسک سروے میں بتایا ہے کہ AI سے پھیلنے والی غلط معلومات کو آئندہ دو سالوں میں سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔اس سروے میں کہا گیا ہے کہ جب بھارت اور امریکہ کے انتخابات میں تقریباً دو ارب ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے لگیں گے(یہ سروے بھارت میں رواں سال ہونے والے انتخابات سے پہلے آیا تھا) تو اس وقت اے آئی کے ذریعے پھیلنے والی جھوٹی معلومات اور سماجی بدامنی کے مابین ایک ربط قائم ہو جائے گا۔ آئی ایم ایف نے بھی خبردار کیا ہے کہ ٹیکنالوجی کا یہ انقلاب عالمی سطح پر تقریباً 40 فیصد ملازمتوں کو متاثر کرے گا جبکہ ترقی یافتہ معیشتوں میں یہ تخمینہ 60 فیصد تک لگایا گیا ہے۔اگرچہ مصنوئی ذہانت سے ترقی پذیر معیشتوں کو فوری طور پر کم رکاوٹوں کا سامنا ہوگا، تاہم آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ ایسے ممالک کو بنیادی ڈھانچے اور ہنر مند افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے مصنوعی ذہانت کے فوائد سے محروم رہنے کا خدشہ ہے۔آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹالینا جارجیوا نے ورلڈ اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس کے آغاز میں کہا تھا کہ مصنوعی ذہانت ممکنہ طور پر مجموعی عدم مساوات کو مزید بگاڑ دے گا۔ یہ ایک پریشان کن رجحان ہے اور انہوں نے پالیسی سازوں کو خبردار کیا ہے کہ ٹیکنالوجی سے پیدا ہونے والے سماجی تناؤ کو مزید بڑھنے سے روکنے کیلئے فعال طور پر کردار ادا کرنا چاہیے۔AI سے جڑے بڑے خدشات میں سے ایک اس ٹیکنالوجی سے نسبتاً کم قیمت پر اعلیٰ معیار کے ڈیپ فیک تیار کرنا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی کمپنیاں اپنے ڈیٹا کے بارے میں شفاف نہیں جو کہ ان کے لینگوئج ماڈلز جیسا کہ چیٹ جی پی ٹی کو چلانے میں کام آتا ہے۔سٹینفورڈ یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کے پروفیسر جیمز لینڈے کے مطابق یہ ابھی تک واضح نہیں کہAI کیلئے استعمال کیا جانے والا سارا ڈیٹا کس کمپیوٹر پروگرامنگ لینگویج سے لیا گیا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی میں ڈیٹا بنیادی طور پر مغربی نقطہ نظر سے استعمال ہو رہا ہے۔ اس سارے ڈیٹا میں شامل ثقافتی اقدار دیگر ثقافتوں کیلئے مناسب نہیں ہیں اور یہ سامراجیت کی ایک نئی شکل ہے۔پروفیسر لینڈے کے مطابق اے آئی ماڈلز سے غلط معلومات، ڈیپ فیک اور امتیازی سلوک جیسے خطرات لاحق ہیں۔AI کی ان خامیوں کے باوجود یہ ٹیکنالوجی کی صنعت کیلئے ایک بڑی گیم چینجر ہے۔ فرانس کی ایک کمپنی کے سربراہ نائجل واز کا کہناہے کہ مصنوعی ذہانت کی بدولت سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ میں 30 سے 40 فیصد تک بہتری آئی ہے۔ماہرین مصنوعی ذہانت کے ایجوکیشن سیکٹر میں ممکنہ فوائد کو بھی اہم قرار دیتے ہیں۔ اس سے بالخصوص سکولوں تک محدود رسائی رکھنے والے بچوں کو ایک دن ذاتی اساتذہ کی دستیابی اور صحت کی دیکھ بھال تک رسائی بھی حاصل ہو سکتی ہے۔ گلوبل پارٹنرشپ فار ایجوکیشن کی سی ای او لورا فریجنٹی کا کہنا ہے اس وقت تقریباً 220 ملین بچے سکولوں سے باہر ہیں اور ترقی یافتہ ممالک میں چوتھی جماعت کے ہر دس میں سے سات بچے ایک سادہ جملہ نہیں پڑھ سکتے اور نہ ہی ایک سادہ پیراگراف لکھ سکتے ہیں۔تاہم AI نے اساتذہ کو مستقبل کیلئے سیکھنے والوں کو تیار کرنے کیلئے ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔جنوبی کوریا کی وزارت تعلیم 2025ء سے شروع ہونے والے پرائمری اور سیکنڈری سکولوں میں AI سے چلنے والی ڈیجیٹل نصابی کتابیں متعارف کرانے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ یہ تعلیمی عدم مساوات کے ساتھ ساتھ نجی تعلیم پر انحصار اور ملک کے انتہائی مسابقتی تعلیمی کلچر کو دور کرنے کی کوشش ہے کیونکہ AI میں انفرادی طلباکی صلاحیت کا اندازہ لگانے اور پھر ان کے سیکھنے کیلئے مواد کو اپنی مرضی کے مطابق بنانے کی صلاحیت ہے۔مساوی تعلیمی ماحول کی تشکیل متحدہ عرب امارات کی وزارت تعلیم کا بھی مطمح نظر ہے۔متحدہ عرب امارات میں ایک پراجیکٹ جو اس سال کے آخر میں شروع ہونے والا ہے، کا مقصد طلباکی تعلیمی کارکردگی کو بڑھانا اور AI سے چلنے والی ذاتی نوعیت کی تعلیم کے ذریعے سوچنے کی تنقیدی صلاحیتوں کو بڑھانا ہے۔ اس پراجیکٹ میں ایک AI ٹیوٹر اسباق کو انفرادی طلبا کی ضروریات اور سیکھنے کے انداز کے مطابق تیار کرے گا، جس کی انہیں ضرورت کی سطح پر مدد ملے گی۔ایک امریکی یونیورسٹی میں ڈیجیٹل تبدیلی کے ماہر رامایا کرشنن کا کہنا ہے کہ مقامی لیبر مارکیٹوں کی نگرانی کے ذریعے ملازمتوں میں کمی کے خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے تاکہ مارکیٹ کی بدلتی ہوئی ضروریات کو تیزی سے شناخت کیا جا سکے۔ان کا ماننا ہے کہ غلط معلومات سے متعلق کمپنیاں صارفین کو بہتر طریقے سے مطلع کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر گوگل کی جانب سےAI سے بنائی گئی تصاویر کی شناخت کیلئے SynthID نامی ایک ٹول تیار کیا گیا ہے جس سے تصویر پر واٹر مارک آ جاتا ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ تصویر AI کی مدد سے تخلیق کی گئی ہے۔

آج کا دن

آج کا دن

چین میں تباہ کن زلزلہچین کے صوبہ سیچوان میں 12 مئی 2008ء کو چین کے معیاری وقت کے مطابق ایک بجکر 28منٹ پر ایک زلزلہ آیا۔ 8 شدت کے اس زلزلے سے 69ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ زلزلے کے جھٹکے بیجنگ اور شنگھائی (1500 اور 1700 کلومیٹر دور) تک محسوس کئے گئے۔ زلزلے کا مرکز صوبائی دارالحکومت چینگدو سے 80 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع تھا، جس کی گہرائی 19 کلومیٹر تھی۔ زلزلے نے فالٹ لائن کو 240 کلومیٹر سے زیادہ تک پھاڑ دیا، جس کی سطح کئی میٹر تک پھیل گئی۔ شدید آفٹر شاکس کئی مہینوں تک علاقے کو ہلاتے رہے۔لیبیا فضائی حادثہ افریقہ ایئر ویز کی فلائٹ 771 ایک طے شدہ بین الاقوامی مسافر پرواز تھی جو 12 مئی 2010ء کو طرابلس بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب گر کر تباہ ہو گئی۔ جہاز میں سوار 104 مسافروں اور عملے کے اراکین میں سے 103 افراد ہلاک ہو گئے۔ زندہ بچ جانے والا واحد 9 سالہ ڈچ لڑکا تھا۔ تحقیقاتی ٹیم کے مطابق حادثے کی وجوہات کا علم نہیں ہو سکا کیونکہ کسی تکنیکی خرابی کا کوئی ثبوت ملا تھا نہ ہی ایندھن کی کوئی کمی تھی۔ عملے کی طرف سے کسی تکنیکی یا طبی مسائل کی اطلاع نہیں دی گئی تھی اور انہوں نے کسی مدد کی درخواست بھی نہیں کی تھی۔فلورنس نائٹ اینگیل کا یوم پیدائشبرطانوی سماجی کارکن، شماریات دان اور جدید نرسنگ کی بانی فلورنس نائٹ اینگیل 12 مئی 1820ء کو پیدا ہوئیں۔ کریمیا کی جنگ کے دوران زخمی برطانوی فوجیوں کو استنبول کے سلیمیہ چھاونی میں لایا گیا تو ان کی دیکھ بھال کرنے کی وجہ سے انہیں ''نائٹ اینگیل‘‘ کا خطاب دیا گیا۔کریمین جنگ کے دوران نرسوں کی مینیجر اور ٹرینر کے طور پر خدمات انجام دیں۔انہوں نے حفظان صحت اور معیار زندگی کو بہتر بنا کر اموات کی شرح میں نمایاں کمی کی۔ جارج ششم اور ملکہ الزبتھ کی تاج پوشی12 مئی 1937ء کو برطانیہ کے بادشاہ اور ملکہ کی حیثیت سے جارج ششم اور ان کی اہلیہ الزبتھ کی تاجپوشی ہوئی۔ جارج ششم اپنی 41ویں سالگرہ سے تین دن پہلے 11 دسمبر 1936ء کو اپنے بھائی ایڈورڈ ہشتم کے دستبردار ہونے پر تخت نشین ہوئے تھے۔ وہ اپنی وفات یعنی 6فروری 1952ء تک برطانیہ کے بادشاہ رہے۔ وہ 1936ء سے ہندوستان کے آخری شہنشاہ بھی رہے۔ برطانوی راج اگست 1947ء میں تحلیل ہو گیا تھا اور 1949ء کے لندن ڈیکلریشن کے بعد دولت مشترکہ کے پہلے سربراہ بھی تھے۔

گیت، پانی اور سرمستی (تھائی لینڈ کا منفرد تہوار)

گیت، پانی اور سرمستی (تھائی لینڈ کا منفرد تہوار)

تھائی لینڈ کی سرزمین ایک ایسی جادو کی نگری ہے جو اپنی ثقافت، تہذیب اور خوبصورتی میں قدرت کی فیاضی سے مالا مال ہے۔ ندیوں، دریائوں اور سمندر میں گھرا یہ ملک اپنے اندر جنگلوں کی صورت میں سبزے کے کئی قطعات رکھتا ہے، جہاں ہر نسل کے جنگلی حیوانات پائے جاتے ہیں۔ اپنی روایات کے حوالے سے بھی تھائی لینڈ منفرد ہے، یہاں کے لوگ زندہ دل اور ہنس مکھ ہیں۔ وہ اپنے سال نو کا آغاز اپریل، مئی کے درمیان کرتے ہیں اور اس کو ایک انوکھے انداز سے مناتے ہیں۔ تمام لوگ نئے کپڑے پہنے مقامی مندروں کا رخ کرتے ہیں اور مذہبی رسومات کی ادائیگی کے بعد اپنے بڑوں سے مل کر ان کی دعائیں حاصل کرتے ہیں۔ اس کے بعدتمام نوجوان اپنا رخ گلیوں اور سڑکوں کی جانب موڑتے ہیں، جہاں وہ دنیا کی سب سے بڑی پانی کی لڑائی میں حصہ لیتے ہیں۔ اس رسم کو ''سونگ کران‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان دنوں میں لوگ گاڑیوں پر سوار یا پیدل چلتے ہوئے بھی ایک دوسرے پر پانی کی برسات کرتے نظر آتے ہیں۔ اس دن کوئی شخص گیلا ہوئے بغیر گھر واپس نہیں آ سکتا۔ بڑوں پر پانی پھینکنے کیلئے ان سے پہلے اجازت طلب کی جاتی ہے اور پھر ان کو بھی پانی میں نہلا دیا جاتا ہے۔چھوٹے بچے اپنی رنگ برنگی پانی کی بندوقیں پکڑے ہوئے ایک دوسرے پر پانی برساتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کئی جگہ پر ہاتھی بھی اپنی سونڈ کے ذریعے پانی کی بوچھاڑ سے گزرنے والوں کو گیلا کر رہے ہوتے ہیں۔ہر طرف خوشی اور شادمانی کی ایک کیفیت ہوتی ہے جو ہر بشر کے چہرے پر نظر آتی ہے، ایک طمانیت اور سرخوشی کے عالم میں منایا جانے والا یہ میلہ لوگوں کو ان کی روز مرہ زندگی کے مسائل سے دور لے جاتا ہے اور ایک دوسرے کے قریب لا کر برداشت اور محبت کا مادہ پیدا کرتا ہے۔ برف ملا پانی جب کسی پر پھینکا جاتا ہے تو ساتھ ہی اس کے چہرے پر سفید رنگ کا ایک پائوڈر بھی مل دیا جاتا ہے، نعروں اور چیخوں کے ساتھ سال نو کی مبارک باد دی جاتی ہے۔ گلیوں اور چوکوں پر کھانے پینے کا وافر انتظام ہوتا ہے جبکہ رات ہوتے ہی مشعل بردار جلوس گلیوں کا رخ کرتا ہے، جس کے ساتھ لوگوں کی ایک بڑی تعداد گانے بجاتے شامل ہوتی چلی جاتی ہے۔ ہر برس سیاحوں کی ایک بڑی تعداد یہ میلہ دیکھنے کیلئے تھائی لینڈ کا رخ کرتی ہے اور خوشی و شادمانی کے اس تہوار سے لطف اندوز ہوتی ہے۔ 

روشنی کی کہکشاں اور موسیقی (گلاسٹون بری فیسٹیول)

روشنی کی کہکشاں اور موسیقی (گلاسٹون بری فیسٹیول)

''گلاسٹون بری فیسٹیول‘‘ برطانیہ کا ایک اہم پرفارمنگ آرٹس میلہ ہے جس میں پیش کئے جانے والے گانے، رقص، کامیڈی، تھیڑاور سرکس اس کی مقبولیت کا باعث ہیں۔ ہر برس جون کے آخری ویک اینڈ پر پانچ روز کیلئے منعقد ہونے والا یہ میلہ برطانیہ کی معیشت کو سالانہ سوملین پائونڈ کا فائدہ پہنچاتا ہے۔ گزشتہ برس پیش کئے جانے والے اس میلے میں ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ اسی ہزار افراد کا اجتماع دیکھنے میں آیا جس میں پرفارمنگ آرٹس سے متعلق365ایونٹس پیش کئے گئے۔ اس میلے میں80اسٹیج تیار کئے گئے تھے تاکہ لوگوں کی ایک کثیر تعداد بیک وقت منعقد ہونے والے پروگرامز کا مزا اٹھا سکے۔ اس میلے میں سب سے زیادہ انتظار میوزک کنسرٹس کا ہوتا ہے اور گزشتہ برس یوٹو، کولڈ، پلے، بیونسے اور بی بی کنگ جیسے سپر اسٹارز کی پرفارمنس موسیقی کے شعبے میں رکھی گئی تھیں۔ خوبصورتی سے سجائے گئے اسٹیج پر روشنیوں کی کہکشاں میں جب موسیقاروں نے اپنے ساز چھیڑے اور گلوکاروں نے اپنے فن کا سحر بکھیرا تو شائقین فرط مسرت سے ان کے ساتھ جھومنے اور ناچنے لگے۔ میڈیا نے ان کنسرٹس کو ٹی وی چینلز پر براہ راست پیش کیا، جن کو گھر بیٹھے کروڑوں شائقین نے بھی دیکھا۔موسیقی کے علاوہ گلاسٹون بری فیسٹول میں رقص بھی شامل تھا جو لوگوں کی بھرپور توجہ کا مرکز بنا۔ اس میلہ میں باقاعدہ مقابلوں کا انعقاد کیا گیا، جن میں پروفیشنل ڈانسرز کے علاوہ عام لوگوں نے بھی حصہ لیا۔ اس میلے کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب گزشتہ برس اس کی ایک لاکھ اسی ہزار ٹکٹوں کی فروخت انٹرنیٹ کے ذریعے شروع کی گئی تو محض تین گھنٹوں کے اندر یہ تمام ٹکٹس بک ہو چکی تھیں۔ پانچ دہائیوں سے منعقد ہونے والے اس میلے نے جس خوبی سے آرٹ کی خدمت کی ہے، اس کے معترف اقوام متحدہ کے علاوہ دنیا بھر میں پرفارمنگ آرٹ کے شائقین بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ گلاسٹون بری فیسٹیول کو دنیا کے مختلف ممالک میں بھی منعقد کیا جائے تاکہ اس سے زیادہ وہ لوگ فیض یاب ہو سکیں۔ 

قابلِ تجدید توانائی   عالمی مستقبل کی ضامن

قابلِ تجدید توانائی عالمی مستقبل کی ضامن

قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع ہم مستقبل کو محفوظ بنا سکتے ہیں، توانائی کی کمی کو دور کر سکتے ہیں ، توانائی کی قیمتیں مستحکم رکھ سکتے ہیں اور توانائی کا تحفظ یقینی بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔قابل تجدید توانائی کا سب سے اہم فائدہ ماحولیات پر اُن منفی اثرات سے بچاؤ ہے جو توانائی کے دیگر وسائل خاص طور پر فوسل فیول سے توانائی کی پیداوار سے ماحول پر مرتب ہوتے ہیں۔ تاہم توانائی کے قابل تجدید وسائل کیلئے حکومتوں اور سوسائٹی کا تعاون بے حد اہم ہے، جیسا کہ قابل تجدید توانائی کیلئے بین الاقوامی ادارے (IRENA) کے ڈائریکٹر جنرل فرانسسکو نے کہا ہے کہ اگر حکومتوں کا تعاون حاصل ہو تو قابل تجدید توانائی کے سستے اور ماحول دوست ذرائع تک عام اور مساوی رسائی یقینی بنائی جا سکتی ہے۔ قابل تجدید توانائی سے مراد ایسی توانائی ہے جس کو استعمال کرنے سے اس میں ہونے والی کمی متواتر پوری ہوتی رہے۔ مثال کے طور پر شمسی، ہوائی اور پن بجلی۔یہ سستی، قابل بھروسا، پائیدار اور توانائی کے جدید وسائل تمام لوگوں کیلئے رسائی یقینی بناتے ہیں اور اقوام متحدہ کا پائیدار ترقی کا ساتواں ہدف بھی ہے۔ قابل تجدید توانائی کے بین الاقوامی ادارے (IRENA) کے مطابق حکومتوں کو توانائی کے قابل تجدید ذرائع کی جانب منتقلی کی جانب راغب کرنے میں کوئی مشکلات پیش نہیں آئیں لیکن حکومتیں اس معاملے میں عزائم اور دعوؤں کو عملی جامہ پہنانے میں ابھی بہت پیچھے ہیں۔اس کیلئے ضروری ہے کہ بین الاقوامی تعاون کا کوئی طریقہ کار اختیار کیا جائے۔ گزشتہ سال COP28میں شریک ممالک نے اس حوالے سے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا تھا جس کا توانائی تک رسائی، اس کے تحفظ اور توانائی کے ماحول دوست ذرائع کی ترقی کے لیے سٹریٹیجک حل ڈھونڈنا تھا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اس حوالے سے منظرنامہ تبدیل کرنے کی خواہش پائی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں بہت سے ممالک خود منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور دیگر ممالک کو بھی قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو تیزی سے ترقی دینے کے منصوبوں کی تیاری میں مدد فراہم کر رہے ہیں‘ اس طرح باہم مل کر قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کو حقیقت کا روپ دینے کیلئے بین الاقوامی تعاون کا ایک نیا طریقہ کار اختیار کر رہے ہیں۔ قابل تجدید توانائی کیلئے بین الاقوامی ادارے (IRENA) کے ڈائریکٹر جنرل فرانسسکو لا کیمیرا کے مطابق ترقی یافتہ دنیا کو نظام تبدیل کرنا ہو گا تاہم ترقی پذیر ممالک بھی اس معاملے میں بڑا قدم اٹھا سکتے ہیں اور توانائی کے نئے نظام کی جانب پیشرفت کر سکتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے پاس توانائی کے شعبے میں تبدیلیاں لانے کیلئے درکار ذرائع اور مالی وسائل موجود ہیں لیکن ترقی پذیر دنیا کو کئی طرح سے مدد کی ضرورت ہے۔ ان ممالک کو اپنے تجربات، مالی وسائل اور ٹیکنالوجی کے تبادلے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں تبدیلی کی رفتار تیز کرنے میں حائل رکاوٹوں پر بھی قابو پانا ہو گا۔ ماہرین کے مطابق افریقہ غالباً دنیا میں قابل تجدید توانائی اور ماحول دوست ہائیڈروجن (صاف اور قابل تجدید توانائی کی حامل) کی پیداوار کے اعتبار سے اہم ترین خطہ ہے تاہم اس کے پاس اپنی اس صلاحیت سے اپنے لوگوں اور دنیا بھر کو فائدہ پہنچانے کیلئے درکار بنیادی ڈھانچے کا فقدان ہے جبکہ بندرگاہوں، پائپ لائنوں اور شہری بنیادی ڈھانچے کا اس میں فیصلہ کن اور اہم کردار ہوتا ہے۔ ایشیائی ممالک بھی اس میں قابل ذکر ہیں جہاں سورج کی روشنی اور دریاؤں کا پانی ایسے وسائل ہیں کہ جو بہت سے ممالک کیلئے ضرورت کی توانائی پیدا کرنے کیلئے کافی ہیں، تاہم وسائل تک رسائی میں رکاوٹوں کی وجہ سے ان وسائل سے استفادہ نہیں کیا جارہا۔ پاکستان کی مثال ہی کافی ہونی چاہیے جہاں پچھلے کچھ سالو ں کے دوران شمسی توانائی کے وسائل تک نسبتاً آسان رسائی کی وجہ سے گھروں اور نجی و سرکاری عمارتوں میں شمسی توانائی کے حصول کا نظام نصب کرنے سے کافی بڑی تبدیلی آنا شروع ہوئی ہے۔ قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی کی رفتار تیز کرنے کیلئے ہمیں بعض بنیادی رکاوٹوں پر قابو پانا ہو گا۔ اس ضمن میں بنیادی ڈھانچے کی کمی پہلی رکاوٹ ہے۔جہاں ضرورت ہو وہاں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور پہلے سے موجود نظام کو جدت دینا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔اس حوالے سے موجودہ قانونی نظام کے معاملے میں بھی مسائل درپیش ہیں، چنانچہ ایسا نظر آنے لگا ہے کہ توانائی کی منڈی کی موجودہ شکل قابل تجدید توانائی کے لیے سازگار نہیں۔حال ہی میں پاکستان میں شمسی توانائی کے حوالے سے حکومتی سطح پر زیر بحث آنے والی نئی پالیسی اس کی ایک مثال ہے کہ اب بھی معدنی ایندھن کے منصوبوں کو بڑے پیمانے پر حمایت ملتی ہے، جس کا فوری خاتمہ ہونا چاہیے۔ علاوہ ازیں بجلی کی خریداری کے معاہدے اس طرح ترتیب دیے جاتے ہیں جس سے قابل تجدید توانائی کے شعبے میں ترقی کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، مثال کے طور پر پاکستان میں کپیسٹی پیمنٹ ، جس نے شمسی توانائی کی حوصلہ شکنی کا جواز پید اکیا ہے۔مگرتوانائی کی قیمتوں کا یہ طریقہ کار قابل تجدید توانائی کے لیے ہر گز موزوں نہیں ہے کیونکہ اسے مہیا کردہ بجلی اور اس کی قیمت کے معاملے میں استحکام اور تحفظ کے حصول کے لیے طویل مدتی معاہدے درکار ہیں۔ ہمیں قابل تجدید توانائی کو ترقی دینے کے لیے باصلاحیت پیشہ ور افراد اور ہنرمند افرادی قوت کی بھی ضرورت ہے۔اگر ہم دبئی میں ہونے والی COP28 میں کیے گئے وعدوں کے مطابق معدنی ایندھن کا استعمال واقعتاً ترک کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان تین رکاوٹوں پر قابو پانا ہو گا۔قابل تجدید توانائی کے حق میں ہمارے تمام فیصلوں کا مقصد توانائی کے معاملے میں مزید بہتر استعداد کا حصول ہونا چاہیے، لیکن اس حوالے سے ایسا قانونی ماحول سب سے زیادہ اہم ہے جہاں ہم محض اسے اخلاقی ذمہ داری قرار دے کر اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے بلکہ ضروری ہے کہ ہر کوئی یہ سمجھے کہ قابل تجدید توانائی کی جانب مراجعت اس کی ذمہ داری ہے۔

دنیا کے دو منفرد تہوار

دنیا کے دو منفرد تہوار

دنیا بھر میں عجیب و غریب تفریحی میلے اور تہواور منعقد کئے جاتے ہیں۔ ان میں عوام کی تفریح و طبع کا پہلو تو ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی ان میں بہت سے دلچسپ پہلو بھی نمایاں ہیں جو اس مقام کی تاریخ کو بھی بیان کرتے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں صدیوں سے لوگ مختلف تہواروں کا حصہ بنتے آئے ہیں۔ سنسنی خیزی اور جوش وجذبہ ان قدیم تہواروں کا بنیادی وصف ہوتا ہے۔ اکثر ان میں مذہبی تہوار بھی ہیں جو نسل در نسل منتقل ہوتے رہے۔ دنیا کے چند دلچسپ اور حیرت انگیز تہواروں میں سے دو کا تذکرہ پیش ہے جن میں لاکھوں افراد شرکت کرتے اور بھرپور طریقہ سے انہیں مناتے ہیں۔ 

آج کا دن

آج کا دن

ڈیپ بلیو کمپیوٹرڈیپ بلیو ایک شطرنج کھیلنے کا ماہر کمپیوٹر تھا جسے ایک منفرد مقصد کیلئے بنایا گیا تھا۔اس کمپیوٹر کو IBMکی جانب سے بنایا گیا تھا۔ یہ واحد کمپیوٹر تھا جسے دنیا کے بہترین پلیئر اور شطرنج کے عالمی چیمپئن کو گیم ہرانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ کارنیگی میلن یونیورسٹی میں 1985 ء کو اس کا آغازChip Testکے نام سے کیا گیااس کے بعد اسے IBMنے خرید لیا اور اسے ڈیپ تھاٹ کا نام دیا گیا۔1989ء کو اس کانام تبدیل کر کے ڈیپ بلیو رکھ دیا گیا۔ اس کمپیوٹر نے پہلی مرتبہ 1996 میں چھ گیمز کے میچ میں عالمی چیمپئن گیری کاسپاروف سے کھیلا جہاں اسے شکست ہوئی۔11مئی 1997 میں اسے اپ گریڈ کیا گیا اور، چھ گیمز کے دوبارہ میچ میں، اس نے تین گیمز جیت کر اور ایک ڈرا کر کے کاسپاروف کو شکست دی۔ ڈیپ بلیو کی فتح کو مصنوعی ذہانت کی تاریخ میں ایک سنگ میل سمجھا جاتا تھا اور کئی کتابوں اور فلموں کا موضوع رہا ہے۔کانگو میں بھگدڑ11 مئی 2014ء کو کانگو کے فٹ بال کلبوں کے درمیان میچ جاری تھا، شائقین میں ہنگامہ آرائی کی وجہ سے ریفری نے میچ کو فوری طور پر روک دیا۔پولیس نے سٹینڈز میں آنسو گیس کا استعمال کیا جس کے بعد وہاں بھگدڑ مچ گئی۔ جس کے نتیجے میں 15افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ گورنر کا کہنا تھا کہ ہنگامہ آرائی میں کم از کم25افراد زخمی بھی ہوئے ۔کچھ لوگ گیس کی وجہ سے اندھے بھی ہو گئے ۔ شائقین کی بھگدڑ کی وجہ سے سٹیڈیم کی ایک دیوار بھی گر گئی۔زیادہ تر لوگوں کی موت دم گھٹنے کی وجہ سے ہوئی۔ترکی میں کار بم دھماکے11مئی 2013ء میں ترکی میں کار بم دھماکے ہوئے۔یہ دھماکے صوبہ حاتے میں ہوئے جو شام کی سرحد کے قریب اور مصروف ترین علاقہ ہے۔ سرحدی چوکی سے5کلومیٹر دور64افراد پر مشتمل علاقے ریہانلی میںد و کار دھمکے ہوئے،اس حملے میں تقریباً52افراد ہلاک اور140زخمی ہوئے۔ترک حکومت نے الزام لگایا کہ ان حملوں میں شامی حکوت ملوث ہے۔حملے کے بعد دو ہفتوں کے اندر اندر12ترک شہریوں پر فرد جرم عائد کی گئی۔ شامی حکومت نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا۔ بم دھماکوں کے بعد، سیکڑوں شامی ریہانلی سے فرار ہو گئے۔سعادت حسن منٹواردو کے عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو 11 مئی1912ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ سعادت حسن منٹو کا تعلیمی کریئر قابل ذکر نہیں تاہم منٹو نے زمانے کے ایک نبض شناس کی حیثیت سے انسانی نفسیات کو اس خوبصورت انداز میں اپنا موضوع بنایا کہ ہر مکتبہ فکر داد دیئے بغیر نہ رہ سکا۔ سعادت حسن منٹو اردو کے واحد افسانہ نگار ہیں جن کی تلخ مگر سچی تحریریں آج بھی شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ منٹو کے افسانے، مضامین اور خاکے اردو ادب میں بے مثال حیثیت رکھتے ہیں۔ منٹو ایک معمار افسانہ نویس تھے جنہوں نے اردو افسانہ کو ایک نئی راہ دکھائی۔ ان کے مقبول افسانوں میں ''ٹوبہ ٹیک سنگھ، کھول دو، ٹھنڈا گوشت ‘‘نمایاں ہیں۔ 18جنوری 1955ء کو ان کا انتقال ہوا۔

دو متضاد جیلیں

دو متضاد جیلیں

لفظ جیل کے ساتھ ہی ذہن میںناپسندیدہ اور گھٹن والی جگہ کا تاثر ذہن میں آتا ہے۔ آج ہم جن دو متضاد جیلوں کا ذکر کرنے جا رہے ہیں ان میں سے ایک کو دنیا کی خوفناک ترین اور خطرناک ترین قراردیا جاتا ہے جبکہ دوسری ایسی جیل ہے جو ایک پرتعیش جیل کی شہرت رکھتی ہے۔ خطرناک ترین جیل ایل سلواڈور، وسطی امریکہ کا سب سے چھوٹا اور سب سے زیادہ گنجان آباد ملک ہے۔یہ بحرالکاہل کے ساحل پر گوئٹے مالا اور ہنڈوراس کے درمیان خلیج فونسیکا پر واقع ہے۔ 65لاکھ آبادی کا حامل یہ ملک ان ممالک میں شامل ہے جہاں جرائم (قتل وغارت ،منشیات سمگلنگ ، اغوا برائے تاوان اور بھتہ) کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اس کا اندازہ ان اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج سے دو عشرے پہلے یہاں قتل عمد کی شرح 41فیصد یعنی ایک لاکھ افراد تھی۔جن میں 60 فیصد قتل جرائم پیشہ گروہوں نے کئے تھے ۔چھوٹے موٹے جرائم پیشہ گروہوں کو چھوڑ کر اس ملک میں رفتہ رفتہ دو بڑے جرائم پیشہ حریف گروہوں یعنی ''مارا سلواٹروچا‘‘ (MS-13)اور '' بیریو18‘‘کو جرائم کی دنیا کے ''بے تاج بادشاہ‘‘ کہا جانے لگا ، جن کا نعرہ تھا '' دیکھو ، سنو مگر منہ بند رکھو‘‘۔ان دونوں جرائم پیشہ گروہوں کے درمیان جاری جنگ کی وجہ سے ایل سلواڈور میں گزشتہ کئی دہائیوں سے دہشتگردی اور خون ریزی کا بازار گرم تھا۔ ایل سلواڈور کے صدر بوکیلے ہیں جو حال ہی میں اس وجہ سے بھاری اکثریت سے ملک کے صدر منتخب ہوئے ہیں ،جن کا انتخابی نعرہ ہی ملک سے ان گینگز کا فوری خاتمہ تھا۔ چنانچہ صدر بوکیلے نے عنان اقتدار سنبھالتے ہی ملک میں ہنگامی حالات کا اعلان کرتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر ایک ایسی جیل تعمیر کرائی جس پر یہ محاورہ صادق آتا ہے کہ یہاں تو ''چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی‘‘۔اس جیل کی سخت سکیورٹی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ برطانیہ کے بہت بڑے ایک میڈیا گروپ کے نمائندوں کو طویل انتظار کے بعد بالآخر صدر بوکیلے کی خصوصی اجازت کے بعد کڑی نگرانی میں اس جیل کے دورے کی اجازت ان شرائط پر دی گئی کہ نہ تو وہ کسی قیدی سے ہم کلام ہوں گے اور نہ ہی کسی قیدی سے آنکھ ملانے کی کوشش کریں گے۔ عام حالات میں اس جیل کے قیدیوں کو نہ تو اپنے ساتھیوں سے بات کرنے کی اجازت ہوتی ہے اور نہ ہی نظریں اوپر اٹھانے کی۔ یہی وجہ ہے کہ اس جیل کو دنیا کی ''ظالم ترین جیل ‘‘ کی شناخت بھی حاصل ہے۔یہاں جیل کے سیل سے باہر نکالنے کے دوران قیدیوں کے پائوں میں لوہے کے کڑے ڈال دئیے جاتے ہیں جن سے وہ گھٹنوں کے بل چلنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ''سینٹر فار دی کنفائنمنٹ آف ٹیررازم‘‘ (سیکوٹ) نامی یہ میگا جیل، ایل سلوا ڈور کے دارالحکومت شان سلواڈور سے بجانب جنوب مشرق 74 کلومیٹر دور ایک ویران اور بیاباں علاقے میں واقع ہے۔گزشتہ سال جنوری میں صدر بوکیلے نے ہی اس جیل کا افتتاح کیا تھا۔ انہوں نے اپنے خطاب کے دوران کہا تھا '' یہ جیل ایل سلواڈور کے خطرناک گینگز کیخلاف جنگ کی علامت ہے‘‘۔ پہلے مرحلے میں یہاں 2ہزارخطرناک ترین قیدیوں کو منتقل کیا گیا۔ 456 کنال پر مشتمل یہ جیل 8 بلاکوں پر مشتمل ہے۔ ہر بلاک میں 32 قید خانے ہیں جہاں مجموعی طور پر 40ہزارقیدیوں کو رکھنے کی گنجائش ہے۔جنہیں 24 گھنٹے بلا تعطل جدید ترین کیمروں اور اسلحہ سے لیس تازہ دم سکیورٹی اہلکاروں کی زیر نگرانی رکھا جاتا ہے۔ جیل کے اندر داخل ہونے کیلئے جدید سکیننگ سسٹم کے علاوہ ایک وسیع سکیورٹی نیٹ ورک سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔ اس کی سخت سکیورٹی پر تبصرہ کرتے ہوئے ''تشدد کی روک تھام‘‘سے متعلق اقوم متحدہ کی ذیلی کمیٹی کے ایک سابق رکن مسٹرمیگوئل ایک ٹی وی انٹرویو میں کہہ رہے تھے کہ یہ جیل کنکریٹ اور فولاد کا ایک ایسا گڑھا ہے جو سزائے موت کے بغیر لوگوں کو مارنے کی کوشش ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ جیل کے گرد دو باڑیں بھی ہیں جن پر نصب تاروں میں ہائی وولٹیج بجلی گزرتی ہے۔اس کے علاوہ ایسے 19 واچ ٹاورز بھی اس جیل کے اردگرد پھیلے ہوئے ہیں جن پر 24 گھنٹے اسلحہ بردار محافظ اسلحہ تانے نظر آتے ہیں۔ اس قید خانے میں ہر قیدی کیلئے کتنی جگہ دی گئی ہے ؟ برطانوی میڈیا گروپ کے نمائندے کے مطابق حکام اس سوال کا جواب دینے پر خاموش تھے۔تاہم نمائندے نے جیل کے تعمیراتی نقشے سے اندازہ لگایا ہے کہ ہر قیدی کے حصے میں فقط 0.58 مربع میٹر جگہ آتی ہے جبکہ اقوام متحدہ کے معیار کے مطابق، اس طرح کے مشترکہ قید خانوں میں ہر قیدی کو کم از کم 3.4 مربع میٹر جگہ مہیا کرنا لازم ہوتا ہے۔ یہاں پر قیدیوں کو دھات کے بنے چار منزلہ بیڈ پر سلایا جاتا ہے جس پر کسی قسم کا گدا یا چادر نہیں ہوتی۔قیدیوں کے سیل فولادی جالیوں سے بنے ہوئے ہیں جن پر محافظ اسلحہ تانے چوبیس گھنٹے نظر رکھے ہوتے ہیں تاکہ کوئی قیدی ان سے جھول نہ جائے۔انہیں کھانے کیلئے چاول، دالیں ، پاستا یا ابلا انڈہ دیا جاتا ہے۔انہیں یہ سب کچھ بغیر چمچ یا کانٹا کے کھانا ہوتا ہے کیونکہ دھاتی اشیاء جان لیوا بھی ہو سکتی ہیں۔ ایل سلواڈور میں سارا سال موسم گرم اور حبس والا ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود قید خانے میں نہ تو کوئی کھڑکی اور نہ ہی کوئی پنکھا۔ہر سیل میں قیدیوں کیلئے دو بیت الخلاء بغیر کسی پردے کے مہیا کئے گئے ہیں۔پرتعیش سہولتوں والی جیل : جیلوں بارے عام طور پر سننے میں آتاہے کہ کسی گروہ نے اپنے ساتھی چھڑانے کیلئے جیل پر حملہ کر دیا۔ آپ کو یہ سن کر یقینا حیرت ہو گی کہ وینزویلا ایک ایسا ملک ہے جہاں ایک جرائم پیشہ گروہ سے جیل کا قبضہ چھڑانے کیلئے حکومت کو فوج کے 11ہزار سکیورٹی اہلکاروں کی خدمات حاصل کرنا پڑیں۔یہ صرف ایک جیل نہیں بلکہ جیل کے اندر ایک شہر تھا جہاں قیدیوں کے اہلخانہ اور عزیز و اقارب بھی رہتے تھے۔'' ٹوکورون‘‘ نامی ملک کی سب بڑی یہ جیل ، وینزویلا کے شمال میں کارکاس کے جنوب مغرب میں لگ بھگ 140 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ جس پر کئی سالوں تک وینزویلا کے سب سے طاقتور جرائم پیشہ گروہ ''ٹیرن ڈی آرگوا‘‘کا قبضہ رہا ہے۔ جرائم کی دنیا میں اس جیل کو ٹیرن ڈی آرگوا کا '' ہیڈ آفس‘‘ بھی تصور کیا جاتا تھا۔جہاں سے اس تنظیم کے سربراہ دنیا بھر میں پھیلے اپنے نیٹ ورک کے اہلکاروں کو ہدایات دیا کرتے تھے۔سچی بات تو یہ ہے کہ اس جیل کے اندر پہنچ کر یہ تصور ختم ہو جاتا ہے کہ آپ کسی جیل کے اندر ہیں۔ گزشتہ سال ستمبر میں چھ گھنٹے کے میگا آپریشن کے بعد حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے اس جیل کا قبضہ حاصل کر لیا ہے۔جو تفصیلات سامنے آئیں ان کے مطابق، اس جیل میں جرائم پیشہ گروہ ''ٹیرن ڈی آرگوا‘‘ کاسرغنہ ہیکٹر گیریرو فلورس قتل اور منشیات سمگلنگ کے جرم میں 17 سال کی قید کاٹ رہا تھا۔ ملک کی وزارت داخلہ کے ایک ترجمان کے مطابق اس جیل میں عملاً جرم کا راج تھا۔ آپریشن کے دوران جیل سے باہر نکلنے والی سرنگوں کا سراغ بھی ملا ہے۔یہ گروہ اتنا طاقتور تھا کہ جیل کے اندر باہر آزادانہ نقل و حرکت ان کیلئے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔مقامی میڈیا نے اس جیل بارے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ '' یہ وہ جگہ ہے جہاں سے یہاں قید اس گینگ کے سرغنہ ، چلی ، پیرو ،ایکواڈور اور کولمبیا میں موجود اپنے ساتھیوں کو ہدایات دیتے تھے۔ اس گینگ کے ارکان جیل کے اندر باہر ایسے گھومتے تھے جیسے ایک آزاد شخص پھرتا ہے۔ اس جیل میں کسی بھی ہوٹل کی طرح پرتعیش سہولیات موجود تھیں، جن میں سوئمنگ پول ، نائٹ کلب ، ایک چھوٹا سا چڑیا گھر اور اشیاء خور ونوش کی متعدد دکانیں شامل ہیں۔اس کامیاب آپریشن کے بعد وینیزویلا کے صدر نکولس مادورو نے سیکیورٹی اہلکاروں کو مبارک دی اور کہا کہ اب ہمیں وینیزویلا کو مکمل طور پر جرائم سے پاک ملک کی شناخت دلانا ہوگی۔

غور طلب باتیں

غور طلب باتیں

٭...اردشیر نے اپنے بیٹے سابور کو وصیت کی تھی:یا د رکھ کہ دین اور ملک دو بھائی ہیں۔ کسی بادشاہ کیلئے ان میں سے کسی کے ساتھ بے نیازی کا برتاؤ کرنا ممکن نہیں کیونکہ دین ملک کی اساس ہوتا ہے اور ملک دین کا محافظ۔ جس ملک کی اساس نہ ہو وہ منہدم ہو جاتا ہے اور جس چیز کا کوئی محافظ نہ ہو وہ ضائع ہو جاتی ہے۔٭...اگر نظریے کو انقلابی عمل سے مسلک نہ کیا جائے تو یہ بے مقصد ہو کر رہ جاتاہے۔نئے کارکنوں میں یہ خوبی ہے کہ وہ ہر نئی چیز کے بارے میں بے حد حساس واقع ہوتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے ان میں اعلیٰ درجے کا جوش و خروش اور پہل قدمی پائی جاتی ہے۔ اور یہی وہ خوبیاں ہوتی ہیں جن کی بعض پرانے کارکنوں میں کمی ہوتی ہے۔ (سٹالن)٭...کسی سربراہ حکومت کے لئے صرف ذہانت ہی ضروری نہیں بلکہ کسی سربراہ مملکت کے لئے جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے وہ طاقت، حوصلہ اور عقل مندی ہے۔ (ہنری کسنجر)٭...اگر ایک شخص سمجھتا ہے کہ وہ یہ کام نہیں کر سکتا تو وہ کبھی اس کام کو نہیں کر سکتا۔شخص فطرت کی طرح فیاض ہے وہ مر کر بھی زندہ رہتا ہے۔ (کنفیوش)٭... جس قدر کسی بادشاہ کی سلطنت وسیع ہوتی چلی جاتی ہے، وہ اسی قدر مختصر ہوتا چلا جاتا ہے۔ (سکندر اعظم)٭...جب تک انسان مصائب میں گرفتار نہیں ہوتا، اس کے جو ہر نہیں کھلتے۔ (ہمایوں)٭...جرم معاشرے میں نہیں بلکہ معاشرتی اقدار میں پرورش پاتا ہے۔ (مالتھمس) ٭...شاہی محل ، عورت کی صلاحیتوں کے قاتل ہیں۔(ملکہ جو زیفائن) ٭...میرا تو ہمیشہ سے یہ اصول ہے کہ اپنے تصورات اور خاکوں کو الفاظ کے بجائے عمل کا جامہ پہنا کر دکھاؤ۔ (جارج واشنگٹن)٭...جنگ ہو تو محکم ارادہ، شکست ہو تو آئندہ لڑنے کا عزم، فتح ہو تو فراخدلی اور امن ہو تو خیر سگالی کے مظاہرہ میں کامیابی پنہاں ہے۔ (چرچل) ٭...جنگ جیتنا اصل مرحلہ نہیں ہوتا بلکہ فاتح سپاہیوں کو قابو کرنا جنگ جیتنے سے بھی کٹھن ہے۔ (سکندر اعظم)٭...ذو الفقار علی بھٹوکوئی بھی ذہین شخص کسی ایک ہی صحیح خیال سے ہمیشہ چھٹا نہیں رہ سکتا۔تمہیں اپنے دماغ کو کھلا رکھنا چاہئے۔ لیکن تمہیں کچھ نہ کچھ اس میں ڈالتے رہنا چاہئے۔ ورنہ خیالات تمہارے دماغ سے بالکل اسی طرح نکل جائیں گے جس طرح انگلیوں میں سے ریت نکل جاتی ہے۔ (نہرو)٭...جنگ افراد سے نہیں حوصلے سے لڑی جاتی ہے۔ (جنرل رو میل) 

کھانا کیوں ہضم نہیں ہوتا؟

کھانا کیوں ہضم نہیں ہوتا؟

''کئی دنوں سے مجھے بھوک بالکل نہیں لگتی۔ کوئی بھی چیز کھالوں، ہضم نہیں ہوتی، پیٹ بھاری بھاری رہتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے پیٹ میں ہوا بھری ہوئی ہے‘‘۔جنرل پریکٹس میں اس طرح کی بدہضمی، معدہ کی گیس اور جلن وغیرہ کی تکالیف کی شکایت کے ساتھ بہت سے مریض آتے ہیں۔ تقریباً 30 فیصد سے زیادہ مریض بدہضمی کا رونا روتے ہیں اور اس کے مداوے کے لیے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں۔وجوہاتبدہضمی، معدے میں جلن یا تیزابیت اور پیٹ درد وغیرہ کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں پیٹ کی بیماریاں مثلاً معدہ کا السر، پتے میں پتھری، معدے کا کینسر، پیٹ کی کوئی دوسری بیماری وغیرہ ہو سکتی ہے۔اس کے علاوہ نفسیاتی الجھنوں، ذہنی پریشانیوں، اعصابی تنائو یا پھر سٹریس اور ڈپریشن وغیرہ کی صورت میں بھی بندے کو بھوک بالکل نہیں لگتی یا پھر کھایا پیا ہضم نہیں ہوتا اور پیٹ میں بھاری پن اور گیس محسوس ہوتی ہے۔ علاج اور بچائوبدہضمی وغیرہ کے علاج کے لیے مندرجہ ذیل باتوں کو ذہن نشین رکھیں۔(1) 50فیصد سے زیادہ بدہضمی کی شکایات ذہنی پریشانیوں کی صورت میں ہوتی ہیں۔ اس لیے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ تفکرات سے نجات حاصل کی جائے جو کوئی بھی اس طرح کے مسائل کا شکار ہے، اسے چاہیے اللہ پہ یقین رکھے۔ اپنا کام دل جمعی اور ایمانداری سے کرے اور نتائج اللہ پر چھوڑے۔ انشاء اللہ سب مسائل حل ہو جائیں گے۔ اگر ذہنی پریشانی دور ہو جائے تو پھر بدہضمی جیسے مسائل سے بھی جان چھوٹ جاتی ہے۔(2)اس صورت میں ضروری ہے کہ کسی مستند ڈاکٹر سے مشورہ کریں تاکہ آپ کے چپک اپ اور تشخیصی ٹیسٹوں سے اس کی صحیح وجہ کا پتہ چل جائے اور اس کے مطابق علاج ہو۔(3)بدہضمی سے نجات کے لیے ضروری ہے کہ ہمیشہ بھوک رکھ کر کھائیں۔ مرغن اور ثقیل غذائوں سے پرہیز کریں اور کھانے کے اوقات مقرر کر کے ان کے مطابق وقت مقررہ پر کھانا کھائیں۔ اس کے علاوہ کھانے پینے کی ایسی اشیاء جن سے پیٹ خراب ہونے کا اندیشہ ہو، ان کو اپنی خوراک سے نکال دیں۔ پیٹ خراب ہونے کی صورت میں اسپغول کا چھلکا اور دہی کا استعمال کریں۔(4)کھانے میں فروٹ اور تازہ سبزیوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔ (5)شام کے وقت زیادہ ثقیل کھانا نہ لیں۔ ہر وقت منہ مارنے سے پرہیز کریں۔ چٹ پٹی اشیاء، چکنائی، نمک مرچ کم سے کم استعمال کریں۔

آج کا دن

آج کا دن

تھیلیسیمیا کا عالمی دن پاکستان سمیت دنیا بھر میں خون کی بیماری تھیلیسیمیا کے خلاف آگاہی کا دن8 مئی کو منایا جاتاہے۔ طبی ماہرین کے مطابق خون کا مہلک مرض تھیلیسیمیا دراصل مورثی بیماری ہے جو والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہے، یہ مرض خون کے خلیوں کی غیرمعمولی حرکات کی علامت ہے جس کے باعث خون بننے یا اُس کی پیداوار کا عمل رک جاتا ہے۔نیا خون نہ بننے کی وجہ سے متاثرہ مریضوں کو بار بار خون چڑھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔روس کا امریکی سمراولمپکس کا بائیکاٹ8مئی 1984ء کو لاس اینجلس میں ہونے والی سمر اولمپکس کا روس کی جانب سے بائیکاٹ کیا گیا۔ یہ بائیکاٹ دراصل امریکہ کی جانب سے ماسکو ،روس میں 1980ء کو ہونے والی سمر اولمپکس کے بائیکاٹ کے ردعمل کے طور پر کیا گیا تھا۔ اس بائیکاٹ میں روس کے ساتھ ساتھ 14 مشرقی ممالک کا بلاک، سیٹلائٹ ریاستیں اور دیگر اتحادی ممالک بھی شامل تھے۔ان تمام ممالک نے روس کی سرپرستی میں 8مئی1984ء کو امریکہ میں ہونے والی سمر اولمپکس کا بائیکاٹ کیا۔ سوویت یونین کے بائیکاٹ کی وجہ سے اولمپک میں ہونے والے وہ مقابلے خاص طور پر متاثر ہوئے جن پر غیر حاضر ممالک کا غلبہ تھا۔ پراگ میں بغاوتپراگ کی بغاوت دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر مئی 1945 میں پراگ شہر کو جرمن قبضے سے آزاد کرانے کیلئے چیک مزاحمت کی جزوی طور پر کامیاب کوشش تھی۔ 5 مئی 1945 ء کو یورپ میں جنگ کے آخری لمحات میں چیک شہریوں نے جرمن قابضین پر حملہ کر دیا۔ روسی لبریشن آرمی، جو جرمنوں کیلئے لڑ رہی تھی، نے انحراف کیا اور باغیوں کی حمایت کی۔ 8 مئی کو، چیک اور جرمن رہنماؤں نے جنگ بندی پر دستخط کیے جس کے تحت جرمن افواج کو شہر سے نکلنے کی اجازت دی گئی۔چیچک کا خاتمہ 8مئی1980ء کو ورلڈ ہیلتھ آرگننائزیشن کی جانب سے دنیا بھر سے چیچک کے خاتمے کا اعلان کیا گیا۔چیچک ایک ایسی بیماری تھی جو ویریولا وائرس کی وجہ سے ہوتی ہے جس کا تعلق آرتھوپوکس وائرس جینس سے تھا۔ قدرتی طور پر پائے جانے والے آخری کیس کی تشخیص اکتوبر 1977ء میں ہوئی تھی، اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے 1980ء میں اس بیماری کے عالمی خاتمے کی تصدیق کی تھی۔بیماری کی ابتدائی علامات میں بخار اور قے شامل تھے۔ اس کے بعد منہ میں السر اور جلد پر دانے بن جاتے تھے ۔ اس بیماری میں موت کا خطرہ تقریباً 30 فیصد ہوتا تھا، جس کی شرح بچوں میں زیادہ ہوتی تھی۔ 

حیرت انگیز اور انوکھی تعمیرات  کے شاہکار ریستوران

حیرت انگیز اور انوکھی تعمیرات کے شاہکار ریستوران

کسی بھی ریستوران میں قیام کرنے والے شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اسے ریستوران میں ہر طرح کی سہولت میسر ہو۔ اس حوالے سے فائیو سٹار اور تھری سٹار ہوٹلوں میں قیام کرنے والوں کو بہترین اور غیری معمولی جدید سہولتیںفراہم کی جاتی ہیں۔ لیکن دنیا میں بہت سے اسے ریستوران بھی موجود ہیں جو اپنے طرز تعمیراور محل و قوع کے لحاظ سے انتہائی منفرد ۔ انوکھے اور حیرت انگیز ہیں۔ جن کو دیکھنا یا ان میں ٹھہرنا مسافروں کیلئے نہایت دلچسپ اور انوکھا تجربہ ہوتا ہے۔ آئیے سیاحوں کی دلچسپی کے مرکز دنیا کے ان شاہکار ریستورانوں میں سے چند کا جائزہ لیتے ہیں۔ریت سے بنا ہوا ریستورانبرطانیہ کے جنوبی ساحل پر ریت سے ایک حیرت انگیز ریستوران تعمیر کیا گیا ہے جس کی تعمیر میں ہزاروں ٹن ریت استعمال ہوئی ہے۔ اس حیرت انگیز ریستوران کو چار مجسمہ سازوں کی تعمیر نے روزانہ 14 گھنٹے کام کر کے 7 روز میں تعمیر کیا ہے۔ ریستوران میں تمام کمرے اور بستر ریت سے تعمیر کئے گئے ہیں۔ بارش اس ہوٹل کو چند لمحوں میں برباد کرسکتی ہے۔اس ریستوران کی چھت نہیں ہے اس وجہ سے یہاں رات کو ٹھہرنے والے لوگ ریت سے بنے بستر پر لیٹ کر آسمان پر چمکتے ستارے دیکھ کر لطف اندوز ہونے کے ساتھ مظاہر قدرت کا یکسوئی کے ساتھ مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ اس ریستوران کے مالک کا نام مارک اینڈرسن ہے جس کا دعویٰ ہے کہ یہ ریت سے بنی ہوئی برطانیہ کی سب سے بڑی عمارت ہے۔تیرنے والا ریستورانسوئیڈن میں ایک انوکھا تیرنے والا ریستوران ''سالٹ اینڈسل‘‘ واقع ہے جو سوئیڈن کے جنوب میں ''کلیڈزیبو لیمن‘‘ نامی جزیرے میں بنایا گیا ہے۔ اس کی تعمیر کا آغاز اکتوبر2008ء میں ہوا تھا۔ یہ ایک ماحول دوست ریستوران ہے جس میں لوگ کھلی فضاء میں بیٹھ کر ہوٹل کی سہولتوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ یہ ہوٹل دو منزلوں پر مشتمل ہے۔ اس ریستوران کے کمروںکے فرش پر گرینائٹ لگایا گیا ہے اور ان کمروں کو اعلیٰ ترین فرنیچر سے سجایا گیا ہے۔ اس تیرنے والے ریستوران میں مہمانوں کوSea Foodسے بنائے گئے کھانے کھلائے جاتے ہیں جبکہ ریستوران میں ایک میٹنگ روم اور کانفرنس ہال بھی بنایا گیا ہے۔برف سے بنایا گیا ریستورانکینیڈا میں واقع ''ہوٹل دی گلیس‘‘ نامی ریستوران مکمل طورپر برف سے بنایا گیا ہے۔ یہ حیرت انگیز برفانی ہوٹل کینیڈا کے شہر ''موٹریال‘‘ سے 149 میل کے فاصلے پر واقع ہے اور اس کی خاص بات یہ ہے کہ اسے برف سے بنایا گیا ہے۔ ریستوران کے تمام کمرے، ستون اور آرائشی اشیاء برف سے تراشی گئی ہیں۔ اس ریستوران کی سیر اور اس میں قیام کیلئے سب سے اچھا وقت 4 جنوری سے 4 اپریل تک ہے کیونکہ یہاں سردی کے موسم میں برفانی ریستوران کا اندرونی درجہ حرارت منفی 13 سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے، برف سے بنے ہوئے اس انوکھے اور خوب صورت ریستوران میں اکثر فلموں اور ٹی وی پروکشنز کی شوٹنگ، شادیاں ،سیمینار، آرٹ کی نمائش اور مختلف کمپنیوں کی تقریبات منعقد ہوتی رہتی ہیں۔ اس حیرت انگیز برفانی ریستوران کو دیکھنے کیلئے ہر سال دنیا بھر سے سیاح بڑی تعداد میں کینیڈا آتے ہیں۔کیپسول ریستورانجاپان میں ایک جدید طرز کا ''کیسپول ریستوران‘‘ بنایا گیا ہے جونہایت کم خرچ میں ایک شخص کو سونے کیلئے کافی ہے۔ یہ ہوٹل اپنی ساخت کے لحاظ سے نہایت ہی انوکھا اور حیرت انگیز ہے کیونکہ جس طرح مرغے، مرغیوں اور دوسرے پالتوں پرندوں کی رہائش کیلئے ڈربے بنائے جاتے ہیں بالکل اسی طرح انسانوں کیلئے یہ کیسپول نما ریستوران بنایا گیا ہے، جس میں انسانوں کیلئے ڈربے بنائے گئے ہیں جن کی ساخت ایک دراز کی طرح ہے جس میں ایک وقت میں صرف ایک ہی شخص سو سکتا ہے۔ ریستوران کے کمرے اور دروازے لکڑی یا لوہے کی بجائے شیشے سے بنائے گئے ہیں اوراس کیپسول ریسٹورنٹ میں دیگر بڑے ہوٹلوں جیسی تمام سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔ کمروں میں کھانا کھانا اور سگریٹ نوشی ممنوع ہے۔ ان کمروں کی چوڑائی ایک میٹر اور لمبائی دومیٹر ہے۔ اس طرز کے بنے ہوئے ریستوران جاپان میں بہت تیزی کے ساتھ مقبول ہو رہے ہیں اور اب کئی جگہ ایسے ہوٹل تعمیر کئے جارہے ہیں۔جنگل میں بنایا گیا ریستورانمیکسیکو کے جنگل میں پہاڑوں اور درختوں کے درمیان لوہے کے ڈھانچے پر مشتمل ایک مضبوط اور خوبصورت ہوٹل ''جنگل ہوٹل‘‘ کے نام سے بنایا گیا ہے۔ جس کے کمرے نہایت آرام دہ ہیں۔ یہ ہوٹل چھٹیاں گزارنے کیلئے ایک بہترین جگہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں چھٹیوں کے زمانے میں بہت مشکل سے کمرے کرائے پر ملتے ہیں اور کافی پہلے سے اس ہوٹل میں کمرے بک کروانے پڑتے ہیں۔ یہ ہوٹل زمین سے کافی بلندی پر بنایا گیا ہے جس کا ہر کمرہ بہت دلکش ہے۔ اس ہوٹل میں رہنے والوں کو تمام اشیاء لینے کیلئے خود نیچے آناپڑتا ہے۔ چونکہ یہ ہوٹل مسافروں اور سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے اس وجہ سے اس ہوٹل سے نیچے ایک بڑا بازارقائم ہوگیا ہے۔ جہاں ضرورت کی تمام اشیاء با آسانی خریدی جاسکتی ہیں۔ اپنی وضح قطع اور محل وقوع کے لحاظ سے یہ ایک انوکھی اور دلچسپ جگہ ہے جہاں آنے والوں کو بھر پور تفریح اور مہم جوئی کے مواقع ملتے ہیں۔غار ریستورانیہ ریسٹورنٹ ترکی میں کیپی ڈوشیا کی پہاڑیوں میں ایک غار میں بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے اسے ''غار ہوٹل‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں آنے والوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا وہ زمانہ قدیم کے کسی دور کے باسی ہیں۔ جب لوگ عام طورپر پہاڑوں میں غار کے اندررہا کرتے تھے۔ ترکی میں کیپی ڈوشیاء کے پہاڑوں کے اندر بنے ہزاروں سال پرانی قدیم غاروں کو تمام ضروری اشیاء سے مزین کر کے انہیں ایک بہت ہی خوبصورت ہوٹل کی شکل دی گئی ہے۔ 6 غاروں پر مشتمل اس ''غار ہوٹل‘‘ میں تیس کمرے ہیں جہاں سہولتوں اور آرام کا ہر ممکن اہتمام کیا گیا ہے۔ اس غار ہوٹل کے قریب ایک اوپن ایئر عجائب گھر، شاپنگ سنٹر، ریسٹورنٹ اور مذہبی مراکز بھی قائم ہیں جبکہ ہوٹل کے ہر کمرے کے ساتھ باتھ روم کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے۔ 

دلکش سیاحتی مقامات والا ملک:پانامہ

دلکش سیاحتی مقامات والا ملک:پانامہ

ابھی چند برس پہلے کی بات ہے جب ہر سو پانامہ پیپر لیکس کا چرچا تھا۔ پاکستان میں تو اس کا شور تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا لیکن وسطی امریکہ کے جس ملک نے یہ تہلکہ مچایا تھا خود اس کے بارے میں آپ کتنا جانتے ہیں؟ پانامہ صرف ٹیکس فری بزنس زون ہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی بہت سے ایسے حقائق کا مالک ہے جن کے بارے میں بہت کم لوگ علم رکھتے ہیں۔ آئیے پانامہ ملک کے حوالے سے چند اہم باتیں جانتے ہیں۔پاناما وسطی امریکہ میں ایک چھوٹا ملک ہے، جس کا دارالحکومت پانامہ سٹی ہے۔ یہاں کی کرنسی ڈالر ہے اور یہاں ہسپانوی زبان بولی جاتی ہے۔ پانامہ کے خوبصورت اور دلکش مقامات کی سیر کے لیے ہر سال 20 لاکھ سیاح اس ملک کا سفر کرتے ہیں۔ یہاں متعدد آبشاریں، پہاڑ، جھرنے اور جنگلات موجود ہیں۔ اس کے علاوہ یونیسکو کی جانب سے پانامہ کے نیشنل پارک کو عالمی ثقافتی ورثے میں بھی شامل کیا گیا ہے۔پانامہ نہرپانامہ میں واقع پانامہ نامی نہر ملکی معیشت کے حوالے سے ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ 1914ء میں بننے والی اس نہر کی تیاری انجینئرنگ کی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل تھا۔ اس نہر کی تعمیر کے دوران تقریباً 27 ہزار 500 مزدور ہلاک ہوئے۔ جس میں 1881ء سے 1889ء تک جاری رہنے والا ناکام فرانسیسی منصوبہ بھی شامل تھا جس میں 22 ہزار کے قریب مزدور ہلاک ہوئے۔ تمام تر احتیاطی اقدامات کے باوجود 1904ء سے 1914ء تک جاری رہنے والے امریکی منصوبے کے دوران بھی 5 ہزار 609 کارکن ہلاک ہوئے اس طرح نہر کی تعمیر کے دوران ہلاک ہونے والے کارکنوں کی تعداد 27 ہزار 500 کے قریب ہے۔اس کی تعمیر سے علاقے میں جہاز رانی پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوئے کیونکہ اس سے قبل جہاز براعظم جنوبی امریکہ کے گرد چکر لگا کر راس ہارن سے بحر الکاہل میں داخل ہوتے تھے۔ اس طرح نیویارک سے سان فرانسسکو کے درمیان بحری فاصلہ 9 ہزار 500 کلومیٹر ہو گیا جو راس ہارن کے گرد چکر لگانے پر 22 ہزار 500 کلومیٹر تھا۔ اور یہ سفر طے کرنے میں بحری جہازوں کو تقریباً 3 مہینے زائد سفر کرنا پڑتا تھا۔پانامہ نہر ایک صدی بعدپانامہ کی معیشت کو ترقی دینے کے لیے کئی برسوں سے پانامہ نہر کی توسیع کام کیا جا رہا ہے جس کے بعد اس راستے سے کنٹینر کی ترسیل کے لیے استعمال کیے جانے والے بحری جہاز بھی یہاں سے گزر سکیں گے۔ اس وقت پانامہ کی کُل آمدنی میں 8 فیصد کردار اس نہر کا ہے۔ آج نہر پانامہ دنیا کے اہم ترین بحری راستوں میں سے ایک ہے جہاں سے ہر سال 14 ہزار سے زائد بحری جہاز گزرتے ہیں جن پر 203 ملین ٹن سے زیادہ سامان لدا ہوتا ہے۔ اس نہر سے گزرنے کا دورانیہ تقریبا 9 گھنٹے ہے۔ڈیوٹی فری آلبروک شاپنگ مالیہ شاپنگ مال پانامہ شہر میں واقع ہے اور اسے لاطینی امریکہ کے سب سے بہترین شاپنگ مالز میں سے ایک ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس شاپنگ مال سے بغیر ڈیوٹی ادا کیے اشیاء کی خریداری ممکن ہے۔ سیاح اس شاپنگ مال میں خریداری کیلئے ضرور آتے ہیں۔بالبوآ ایونیویہ اس ملک کی نہ صرف مہنگی ترین سڑک ہے بلکہ پانامہ شہر کا مرکز بھی ہے۔ اس سڑک کو سیاحوں کی خصوصی توجہ حاصل ہے۔ اس علاقے میں امراء رہائش پذیر ہیں اور اسی وجہ سے یہاں گھر خریدنا عام افراد کے بس کی بات نہیں۔غربتاگرچہ اس ملک میں بسنے والے افراد کی اوسط آمدنی ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے لیکن پھر بھی یہاں کسی حد تک غربت موجود ہے۔ اگر آپ پانامہ ملک کے دارالحکومت پانامہ سٹی کا دورہ کریں تو آپ کو جہاں ایک جانب بلند و بالا عمارات دکھائی دیں گی وہیں ان کے درمیان کچی بستیاں بھی نظر آئیں گی۔مقبول ترین تہوارکارنیوال دنیا کا سب سے مقبول ترین تہوار ہے اور یہ تہوار پانامہ میں بھی انتہائی جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اس تہوار کے موقع پر پورے ملک میں مختلف تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں لوگوں نے علاقائی لباس زیب تن کر رکھے ہوتے ہیں۔ یہ تہوار چار روز تک منایا جاتا ہے۔٭...٭...٭

آج کا دن

آج کا دن

دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہوادوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی نے7 مئی 1945ء کو ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کیا ۔ یہ فیصلہ ایک قانونی دستاویز کے تحت کیا گیا۔ نازی جرمنی کے غیر مشروط ہتھیار ڈالنے سے دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا۔ معاہدے پر 8 مئی 1945ء کوبرلن میں تینوں مسلح افواج کے نمائندوں اور اتحادی افواج کے نمائندگان نے ایک ساتھ دستخط کیے ۔ سوویت ریڈ آرمی کی سپریم ہائی کمان کے ساتھ، مزید فرانسیسی اور امریکی نمائندوں نے بطور گواہ دستخط کیے۔ یورپ کے بیشتر حصوں میں 8 مئی ''یوم فتح ‘‘کے طور پر منایا جاتا ہے۔یورپی تاریخ کا پہلا وفاقی اجلاس دی ہیگ کانگریس یا یورپ کی کانگریس، جسے بہت سے لوگ یورپی تاریخ کا پہلا وفاقی اجلاس بھی تصور کرتے ہیں، 7 مئی 1948ء کو ہیگ میں منعقد ہوا۔ جس میں یورپ بھر سے 750 مندوبین کے ساتھ کینیڈا اور امریکہ کے مبصرین نے بھی شرکت کی۔ جوزف ریٹنگر کے زیر اہتمام کانگریس نے ایک وسیع سیاسی میدان سے نمائندوں کو اکٹھا کیا۔ انہیں یورپی سیاسی تعاون کی ترقی کے بارے میں خیالات پر تبادلہ خیال کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اس تاریخی کانفرنس نے یورپی ترقی پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ایران میں شدید زلزلہ7مئی1930ء کو ایران کے مغربی صوبہ سلماس میںخوفناک زلزلہ آیا۔ اس زلزلے کو ایران کے بدترین زلزلوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کی شدت 7.1 تھی۔ ماہرین زلزلہ اور زلزلہ پیما تنظیموں کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ شمال مغربی ایران اور جنوب مشرقی ترکی میں 3ہزار تک ہلاکتیں ہوئیں۔سلماس کے میدان اور آس پاس کے پہاڑی علاقوں میں 60 دیہات تباہ ہو گئے ۔آفٹر شاکس نے بھی بہت تباہی مچائی ۔مصر ایئر لائن حادثہ کا شکار2002ء میں آج کے روز مصر ایئر لائن کی پرواز 843 حادثہ کا شکار ہوئی۔ یہ قاہرہ کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے تیونس کی ایک معمول کی پرواز تھی جو تیونس انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب دھند اور بارش کے باعث ایک پہاڑی سے ٹکرا گئی۔ جہاز میں عملے کے 6 ارکان اور 56 مسافرموجود تھے۔ جن میں سے 14 افراد ہلاک ہو گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں 3 عملے کے ارکان اور 11 مسافرشامل تھے ۔

دنیاکی خطرناک ترین جھیلیں

دنیاکی خطرناک ترین جھیلیں

لفظ جھیل کے ساتھ ہی انسان کے ذہن میں ایک خوبصورت اور خوشگوار تاثر جنم لیتا ہے۔ جھیل فطری طور پر موجود پانی کا ایک بڑا مگر ساکت ذخیرہ ہوتا ہے۔جھیلیں عام طور پر دو طرح کی ہوتی ہیں۔ایک قدرتی اور دوسری مصنوعی۔ قدرتی جھیلیں پہاڑی علاقوں، خوابیدہ آتش فشانی دھانوں ،سرسبز میدانی ودایوں اور گلیشئرز والے علاقوں میں عام طور پر پائی جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں تیس لاکھ سے زائد جھیلیں پھیلی ہوئی ہیں جن میں زیادہ تعداد قدرتی جھیلوں کی ہے۔ ان میں بہت ساری جھیلیں عالمی شہرت کی وجہ سے سارا سال دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہیں۔دنیا بھر میں ایسی جھیلوں کی بھی کمی نہیں جو اپنے خطرناک محل وقوع اور پیچیدہ ساخت کی وجہ سے باقاعدہ طور پر مقامی انتظامیہ کی طرف سے ''ممنوعہ علاقے ‘‘ کے زمرے میں آتی ہیں۔اس کے باوجود بھی دنیا بھر سے آئے جنونی اور مہم جو سیاح تمام خطرات کو بالائے طاق رکھ کر انہیں دیکھنے پہنچ جاتے ہیں۔ ذیل میںایسی ہی کچھ خطرناک جھیلوں کا ذکرہے۔کیوو جھیل کانگو جمہوریہ کانگو اور روانڈا کی سرحد کے بیچوں بیچ افریقہ کی ایک بڑی اور خطرناک جھیل واقع ہے جس کی شہرت ''کیوو کانگو جھیل‘‘ کے نام سے ہے۔ یہ جھیل اپنے اندر زہریلی میتھین گیس کے وسیع ذخائر کی وجہ سے ماہرین کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ اس پراسرار جھیل میں ایک اندازے کے مطابق 60 ارب کیوبک میٹر میتھین گیس اور 300 کیوبک میٹر کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس تحلیل ہے۔ ماہرین کہتے ہیں اسی پر ہی بس نہیں ہے بلکہ اس خطرناک گیس کی مقدار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس گیس کا منبہ اس جھیل کے قریب ایک آتش فشاں ہے جس کے بار بار پھٹنے اور جھیل کیوو کی تہہ میں موجود بیکٹیریا کے گلنے سڑنے کے عمل کے دوران یہ گیس پیدا ہو رہی ہے۔ماہرین ایک عرصہ سے کانگو حکومت کے اکابرین کو متنبہ کرتے آرہے ہیں کہ میتھین گیس کی یہ غیر معمولی مقدار کسی ایٹم بم کی طرح انتہائی خطرناک ہو سکتی ہے۔گیس کے بڑھتے اس خطرناک عمل کو ماہرین نے ''اوور ٹرن‘‘کا نام دیا ہے۔جبکہ سائنسی زبان میں اسے ''لمنک ایریپشن‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔یہ عمل تب وقوع پذیر ہوتا ہے جب جھیل کی تہہ میں موجود پانی کے دبائو کی وجہ سے گیس کا پریشر بھی بڑھ جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں تکنیکی ردعمل وجود میں آتا ہے جس سے قریب کی آبادیوں کیلئے جان لیوا خطرات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ تاہم یہاں سائنسدانوں کی یہ کوشش لائق تحسین ہے جس کے ذریعے وہ اس گیس سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر غور کر رہے ہیں۔ رامری جزیرہبرما کے قریب ایک ویران جزیرہ کو ''رامری جزیرہ ‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے، اس کی وجہ شہرت یہاں پر موجود ایک جھیل میں غیرمعمولی تعداد میں موجود آدم خور مگر مچھوں کی موجودگی ہے ۔ جس کی وجہ سے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ والوں نے اس جزیرے کو اس روئے زمین پر جانوروں کے ہاتھوں سب سے زیادہ انسانی جانوں کے نقصان اور ہلاکتوں کو قرار دیا ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانیوں نے امریکی فوج کے حملوں سے بچنے کیلئے اس خفیہ مقام کو محفوظ سمجھتے ہوئے اس جزیرے کا رخ کیا تھا جو اس حقیقت سے لاعلم تھے کہ یہ مقام آدم خور مگر مچھوں کا مسکن ہے۔ چنانچہ ایک اندازے کے مطابق اس دوران جاپان کے 900کے لگ بھگ فوجی ان مگرمچھوں کی بھینٹ چڑھ کر موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ یہ روایات بھی ہیں کہ اس دوران صرف چند ایک فوجی زندہ بچ پائے تھے۔ جہاں تک اس جزیرے کی اس خونی جھیل کے مگر مچھوں کی تعداد کا تعلق ہے، اگرچہ صحیح تعداد کا دعویٰ یوں تو آج تک سامنے نہیں آیا لیکن واقفان حال کے اندازوں کے مطابق یہ جھیل۔ 30 ہزار سے زائد مگر مچھوں کا مسکن ہے۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اگرچہ مقامی انتظامیہ کی طرف سے اس علاقے کو خطرناک علاقہ قرار دیا ہوا ہے لیکن اس کے باوجود بھی ہر سال متعدد جنونی اور مہم جو سیاح ان مگر مچھوں کی خوراک بنتے رہتے ہیں۔ خونی جھیل جاپان کے ایک شہر بیپو میں سرخ رنگ کے اُبلتے ہوئے پانی کی ایک جھیل سیاحت کے اعتبار سے خاصی شہرت کی حامل ہے۔ یہ جھیل جاپان کے غیر معمولی درجہ حرارت والے گرم پانی کے چشموں اور جھیلوں میں سے ایک ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس جھیل کے پانی کا درجہ حرارت 194 فارن ہائیٹ تک رہتا ہے۔ جہاں تک اس کے خون کی رنگت والے سرخ پانی کا تعلق ہے تو ماہرین کے مطابق چونکہ اس جھیل کی تہہ میں فولاد اور نمک کہ وافر مقدار موجود ہے جس کی وجہ سے اس کے پانی کی رنگت سرخ ہے۔اس جھیل کا سرکاری نام جاپانی زبان میں ''Chinoike Jigoku‘‘ ہے جس کے معنی''جہنم کی خونی جھیل ‘‘کے ہیں۔اس لئے عرف عام میں اس جھیل کو خونی جھیل بھی کہتے ہیں ، جس کے نام کی کشش کی وجہ سے دور دور سے لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں۔اس جھیل بارے صدیوں پرانی سینہ بہ سینہ چلتی سیکڑوں مقامی روایات بھی جڑی ہوئی ہیں جن میں ایک مقبول روایت کے مطابق دیوتا ناراضگی کی صورت میں اپنے پجاریوں کو اس جھیل میں پھینک دیا کرتے تھے۔ او کفنوکی جھیلامریکی ریاست جارجیا کے شمال مشرق میں واقع 438000 ایکڑ کے وسیع رقبے پر پھیلی گہرے سیاہ رنگ کی ایک خوفناک جھیل جو اب رفتہ رفتہ ایک ایسی خوفناک دلدل میں بدل چکی ہے جس کا سب کچھ ہی انتہائی خطرناک ہے۔ یہاں تک کہ یہاں موجود بیشتر پودے بھی گوشت خور نسل کے ہیں جو ہر لمحہ انسانی خون کے پیاسے رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس دلدل کے اردگرد گھنی جھاڑیاں اور خود رو پودوں کے اندر کالے سیاہ مچھر ہر وقت منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ماہرین کے مطابق یہاں ہزاروں کی تعداد میں زہریلے سانپ ، موٹے تازے مینڈک اور کالے سیاہ رنگ کے مگر مچھ پانی کی سیاہ رنگت کی وجہ سے نظر نہیں آتے۔ اگرچہ سیاحوں کو اس جھیل سے دور رہنے کیلئے جگہ جگہ تحریری طور پر متنبہ کیا جاتا ہے لیکن اکثر و بیشتر کچھ جنونی مہم جو جان ہتھیلی پر رکھ کر موت کی اس وادی تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہاں پر موجود خود رو گھاس بھی اس قدر خطرناک ہے کہ اس دلدل کے قرب و جوار میں موجود سڑکوں اور عمارات تک کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ جیکبس ویل جھیلامریکی ریاست ٹیکساس میں واقع یہ کرسٹل کی طرح چمکدار اور صاف شفاف پانی کی ایک خوبصورت قدرتی جھیل ہے جس کی گہرائی لگ بھگ 30فٹ ہے۔یہ اپنی خوبصورتی کے برعکس دنیا کی خطرناک ترین جھیلوں میں شمار ہوتی ہے کیونکہ اس کی تہہ میں خطرناک ، گہری اور پراسرار غاروں کا جال بچھا ہوا ہے۔ اگر کوئی غلطی سے اس جھیل میں غوطہ زن ہو کر غاروں کے قریب پہنچ جائے تو ماہرین کے بقول اس کی واپسی کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔مشی گن جھیل امریکہ کی یہ جھیل بھی انتہائی خطرناک جھیل ہے کیونکہ یہاں بہت کم غوطہ خور اس میں تیراکی کے بعد واپس آتے ہیں۔ اس جھیل کو ایک پر اسرار اور خطرناک جھیل کی شہرت اس لئے ہے کہ یہ ہر سال سیکڑوں ہلاکتوں کا باعث بنتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سو غوطہ خوروں میں سات سے آٹھ افراد جاں کی بازی ہار جاتے ہیں۔ماونٹ اریبس جھیلانٹارکٹکا میں واقع یہ جھیل نہ صرف ایک عجوبہ عالم ہے بلکہ دنیا کی چند خطرناک ترین جھیلوں میں سے بھی ایک ہے۔ عجوبہ جھیل اسے اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کے پانی کے اوپر والے حصے کا درجہ حرارت 60 ڈگری سینٹی گریڈ جبکہ پانی کے اندر کا درجہ حرارت 1700 ڈگری سینٹی گریڈ کے آس پاس ہوتا ہے۔یہ چونکہ آتش فشاں کے لاوے کے ذریعے وجود میں آنے والی ایک جھیل ہے جس کی وجہ سے اس کا درجہ حرارت غیرمعمولی رہتا ہے۔ چنانچہ یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کی وجہ سے یہ دنیا کی خطرناک ترین جھیلوں میں سے ایک ہے۔ اس کے قریب جانا خطرے سے خالی اس لئے نہیں ہے کہ اس آتش فشاں کا لاوا کسی بھی لمحہ پھٹ سکتا ہے اور آناً فاناً دس سے بیس فٹ فاصلے کے درمیان چیزوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ کھولتی ہوئی جھیل ڈومینیکا کے پہاڑوں کے درمیان واقع ایک جھیل ایسی ہے جس کا پانی زیادہ تر ابلتا رہتا ہے۔ اس کا اوسط درجہ حرارت 198 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ انتظامیہ نے اس جھیل میں اترنے یا اس میں نہانے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ مقامی لوگوں نے اس جھیل کو ''ابلتی جھیل‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔