یہاں لڑائی ایک جماعت سے لگائی ہوئی ہے حالانکہ اصل مسئلہ قومی وحدت کا ہے۔ جن مسائل کا پاکستان کو سامنا ہے وہ ہمہ جہت اور ہمہ گیر ہیں۔ سکیورٹی اور معاشی محاذوں پر صورتحال سنگین حد تک خراب ہے۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے قوم کا متحد ہونا ازحد ضروری ہے‘ لیکن یہاں تو یوں لگتا ہے کہ قوم ذہنی طور پر منقسم ہے۔ ایک طرف وہ سیاسی قوت ہے جسے حالیہ انتخابات‘ جیسے بھی تھے‘ میں قوم کا مینڈیٹ ملا اور دوسری طرف حکامِ بالا ہیں جن کی اپنی ترجیحات ہیں۔ اب تو آئی ایم ایف بھی کہہ رہا ہے کہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معاشی اہداف پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔ یعنی جس عالمی ادارے سے ہاتھ پھیلائے ہم قرض مانگ رہے ہیں وہ کہہ رہا ہے کہ پاکستان کی سیاسی صورتحال گمبھیر ہے اور معاشی صورتحال پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی سیاست میں جو خلیج ہے اسے کسی طریقے سے پُر کیا جائے‘ لیکن یہاں تو ایسا لگتا ہے کہ سیاسی تقسیم یا پولرائزیشن جو موجود ہے اسے ہوا دی جا رہی ہے۔
ایسے چلے گا نہیں‘ اس محاذ آرائی کی صورتحال کو ختم ہونا چاہیے نہیں تو ہمارے مسائل بڑھتے جائیں گے۔ پچھلے سال مئی کے مہینے میں جو ایک مخصوص صورتحال پیدا ہوئی اس کا ایک تناظر تھا۔ رجیم چینج اس طریقے سے ہوئی کہ محاذ آرائی کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ ضرورت اب اس امر کی ہے کہ قوم آگے کو چلے اور محاذ آرائی کے قصے کہانیوں کو پیچھے چھوڑے۔ پاکستان کے پاس اس وقت یہ عیاشی نہیں کہ متحارب قوتیں مسلسل جنگ کی حالت میں رہیں۔ جنگیں‘ جو دنیا میں ہو رہی ہیں‘ وہی خاصی خطرناک ہیں‘ ایک یوکرین میں دوسری غزہ کی پٹی میں۔ ہمیں کوئی ضرورت ہے کہ یہاں کی اندرونی صورتحال کو اُبال دیتے رہیں؟
طارق پرویز آئی جی پولیس رہے ہیں۔ دورانِ سروس ان کا بہت اچھا نام تھا۔ جب یہ ایس پی جہلم تھے میری اُن سے ایک ملاقات ہوئی جس نے مجھ پر بڑا خوشگوار اثر چھوڑا۔ کل ان کا ایک مضمون ایک انگریزی اخبار میں چھپا ہے جس میں انہوں نے تفصیل سے بتانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کوکس قسم کے سکیورٹی خطرات لاحق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب امریکی فورسز افغانستان میں تھیں تو ان کے خلاف تین قوتوں کا اتحاد سرگرمِ عمل تھا: طالبان‘ القاعدہ اور ٹی ٹی پی۔ وہ کہتے ہیں کہ افغانستان میں تو اس اتحاد کے اہداف حاصل ہو گئے اور اب یہی اتحاد پاکستان کے خلاف سرگرم ہو گیا ہے۔ متعلقہ حکام کو اس مضمون کو بغور پڑھنا چاہیے۔ اصل خطرہ پاکستان کو یہ ہے اور دوسرا خطرہ ہماری معاشی صورتحال ہے لیکن ہم پتا نہیں کن لڑائیوں میں اپنی قومی توانائیاں صرف کررہے ہیں۔
ہمارے یہاں آج کل سوشل میڈیا کے بارے میں جو فکر پائی جاتی ہے اُس کا مطلب کیا ہے؟ مطلب یہ ہے کہ عوام‘ جن کو گائے یا بھینسیں سمجھا جاتا رہا‘ اُن کا وہ سٹیٹس اب رہا نہیں۔ یہ ایک نئی صورتحال ہے جو تب ہی درست ہو سکتی ہے اگر ملکی حالات بہتری کی طرف جائیں۔ محاذ آرائی کی موجودہ صورتحال رہی تو سوشل میڈیا کو لوگ اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتے رہیں گے۔ روس دو سال سے ایک جنگ میں مبتلا ہے لیکن روسی عوام کا اجتماعی ذہن کسی انتشار کا شکار نہیں۔ جیسے حالیہ صدارتی انتخاب نے واضح کیا۔ بھاری اکثریت سے روسی قوم صدر ولادیمیر پوتن کے پیچھے کھڑی ہے۔ یہاں بھی ایسی ہی صورتحال ہونی چاہیے‘ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستانی قوم ذہنی انتشار کا شکار لگتی ہے۔
یوکرین بڑی واضح قسم کی جنگ کی لپیٹ میں ہے۔ روسی اور یوکرینی فوجیں ایک دوسرے کے سامنے ہیں اور توپوں کی گھن گرج ہمہ وقت سنائی دیتی ہے۔ پاکستان میں اس قسم کی واضح جنگ نظر نہیں آتی لیکن ایک اور قسم کی جنگ میں پاکستان ضرور پھنسا ہوا ہے۔ بلوچستان کے بہت سے علاقے شورش زدہ ہیں اور خیبرپختونخوا میں آئے روز جھڑپوں کی خبریں آتی ہیں۔ طارق پرویز نے تو واضح طور پہ لکھا ہے کہ ٹی ٹی پی کے امیر نور ولی محسود کھلم کھلا پاکستان کی سالمیت کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ ایک انٹرویو کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جس میں ولی محسود کہتے ہیں کہ ہم فلاں فلاں علاقوں کو آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ اصل خطرہ پاکستان کو یہ ہے۔ لیکن جیسا اوپر عرض کیا‘ ہم اور چیزوں میں الجھے ہوئے ہیں۔
روس کے صدر اصلی صدر ہیں‘ انہیں عوامی تائید حاصل ہے اور عوامی تائید کی وجہ سے قوم ان پر اعتماد کرتی ہے۔ وہ نقلی صدر ہوتے‘ جنہیں مصنوعی طریقوں سے کریملن میں بٹھایا جاتا تو کوئی ان پر اعتماد کرتا؟ یوکرین جنگ میں روس کا پلڑا بھاری ہے لیکن جانی نقصان تو اٹھایا ہے۔ کوئی نقلی صدر ہوتا تو اس کے خلاف عوام اٹھ کھڑے ہوتے۔ جس صورتحال سے پاکستان دوچار ہے اسے بھی اتحاد اور قومی وحدت کی ضرورت ہے۔ جب تک عوامی تائید کے لائق حکومت یہاں نہ آئے وہ وحدت پیدا نہیں ہو سکتی۔ یہ سمجھنے کی بات ہے۔ عوام کی رائے سے کیسے لڑا جا سکتا ہے؟ الیکشن ہوتے ہی اسی لیے ہیں کہ پتا چلے کہ عوامی حمایت کس کے پلڑے میں ہے۔ اگر ایسا نہیں ہونا تو پھر آئین کی کیا ضرورت اورسارے نام نہاد جمہوری ڈھانچے کی کیا افادیت؟ لیکن یہاں لائنیں کھینچی ہوئی ہیں۔ ریڈ لائن کی اصطلاح تو یہاں زبان زد عام ہو گئی ہے۔ ریڈ لائن پاکستان کی سالمیت ہونی چاہیے۔ پاکستان کی دشمن کوئی سیاسی جماعت نہیں‘ دشمن تو وہ ہیں جو کھلم کھلا ریاستِ پاکستان کے خلاف نہ صرف اعلانِ جنگ کیے ہوئے ہیں بلکہ صحیح معنوں میں عسکری لحاظ سے ریاستِ پاکستان سے برسرِپیکار ہیں۔
جس انداز سے آج کی قومی حکمت عملی ترتیب دی جا رہی ہے یا جس قسم کے حکامِ بالا کی طرف سے اعلانات آتے ہیں ہم جیسوں کی سمجھ میں یہ باتیں بالکل نہیں آتیں۔ کئی دفعہ تو ڈر لگتا ہے کہ ہم اپنے ساتھ کر کیا رہے ہیں‘ خطرات کیا ہیں اور ہماری ترجیحات کیا ہیں۔ تاریخِ پاکستان ہمارے سامنے ہے‘ بہت سارے تجربات کا ہمیں ذاتی تجربہ ہے۔ طالع آزماؤں کے بہت سے ادوار دیکھ چکے ہیں‘ ڈر اس واسطے لگتا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے اپنی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ ایک انگریزی اصطلاح ہے کہ جنگ کی لائنیں کھینچی جا چکی ہیں۔ یہاں یہی کیفیت ہے‘ صرف اس فرق کے ساتھ کہ کسی بیرونی دشمن کے خلاف یہ لائنیں نہیں بلکہ آپس میں ہی ہم نے پتھر سے کھینچی ہوئی ہیں۔ خدارا ایسی ہی لائنیں 1971ء میں کھینچی گئی تھیں۔ تب کے کرتا دھرتا کہتے تھے کہ بنگالی فلاں ہیں اور ان سے ہرگز بات نہیں ہو سکتی۔ تب کے طالع آزماؤں کو اپنی طاقت پر ناز تھا لیکن عقل کا معیار یہ تھا کہ قوم کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کرایا۔ تب بھی وقت پر فیصلے ہوتے تو بہت کچھ بچایا جا سکتا تھا‘ لیکن ہٹ دھرمی اتنی تھی کہ سوائے قومی رسوائی کے اور کسی چیز کی گنجائش نہ رہی۔
یوکرین کی تباہی کی داستان لکھی جا چکی ہے۔ امریکی امداد چاہے جتنی بھی ہو اسے بچا نہیں سکتی۔ صدر زیلنسکی اور ان کے ارد گرد جو لوگ ہیں انہوں نے روس کے ساتھ محاذ آرائی کا ایسا راستہ چُنا جس سے تباہی کی موجودہ صورتحال ناگزیر ہو گئی۔ ہمیں اپنے آپ میں کچھ ٹھہراؤ پیدا کرنا چاہیے‘ کوئی سوچنے کی توفیق ہمیں کہیں سے عطا ہو۔ جن خطرات میں پاکستان گھرا ہوا ہے انہیں صحیح طور پر سمجھنے کی صلاحیت ہم میں آئے۔ لیکن یہ معجزات کہاں سے رونما ہوں گے؟