جس روز اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کر دی ہے اُسی روز یہ خبر بھی آئی کہ کراچی میں میٹرک کے امتحانات کے دوران جماعت نہم حیاتیات کا پرچہ سوشل میڈیا پر لیک ہو گیا۔ خبر میں بتایا گیاتھا کہ ایک روز قبل کمپیوٹر کا پرچہ بھی سوشل میڈیا پر لیک ہو ا تھا۔ دونوں خبریں پہلی بار سامنے نہیں آئیں۔ ملک میں تعلیمی اصلاحات کی باتیں اور اقدامات کئی بار کیے گئے جبکہ نقل مافیا کی کارستانیاں تو آئے روز سامنے آتی رہتی ہیں۔ نہ تواب تک تعلیمی نظام کو جدید خطوط پر استوار کیا جا سکا ہے اور نہ امتحانات میں نقل کا سدِ باب ہی کیا جا سکا ہے۔ نقل مافیا تو ملک کے تعلیمی نظام میں پائی جانے والی محض ایک خرابی کا نام ہے ورنہ پورا نظامِ تعلیم ہی خرابیوں اور سقموں سے لت پت ہے۔
پہلا نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کا نظامِ تعلیم کئی جہتوں پر مشتمل ہے لیکن اس کی کوئی سمت نہیں ہے۔ یہاں پرائیویٹ اور سرکاری دونوں طرح کے تعلیمی نظام بیک وقت اور ایک دوسرے کے متوازی کام کر رہے ہیں۔ پھر کچھ سکول انگلش میڈیم ہیں تو باقی اُردو میڈیم۔ ایک تیسری قسم کے تعلیمی ادارے وہ ہیں جہاں صرف اور صرف امیر ترین لوگوں کے بچے پڑھ سکتے ہیں کیونکہ ان کے اخراجات پورے کرنا عام یا متوسط طبقے کے بس کی بات نہیں۔ تعلیمی نظام کی ایک چوتھی جہت بھی ہے‘ مذہبی تعلیم دینے والے مدارس۔ یہ سبھی تعلیمی ادارے چار مختلف قسم کے ذہن پروان چڑھا رہے ہیں جو ایک دوسرے کے متوازی ہیں ‘اس لیے ان کا کہیں تال میل نہیں ہوتا۔ چونکہ ان سب میں کوئی تال میل نہیں‘ اسی لیے لکھا ہے کہ مجموعی تعلیمی نظام کی کوئی سمت نہیں ‘ یعنی یہ طے نہیں ہے کہ ہم کیسی نوجوان نسل پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ اس نسل کے آدرش کیا ہوں گے اور اس کی منزل کیا ہونی چاہیے؟ حکومتوں کی جانب سے مختلف ادوار میں کئی بار کہا گیا کہ ملک کے تعلیمی نظام کو ہم آہنگ کیا جائے گا اور پورے ملک میں یکساں تعلیمی نصاب نافذ کیا جائے گا لیکن اس جانب کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جا سکا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم سب ایک بے سمت تعلیمی نظام پر عمل پیرا ہیں۔ ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے تو ضروری ہے کہ سب خرابیوں کو دور کر کے یکساں تعلیمی نصاب اور یکساں تعلیمی نظام لانے کے لیے عملی کوشش کی جائے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود ملک میں شرح خواندگی کو اطمینان بخش حد تک بڑھایا نہیں جا سکا ہے۔ 2022-23ء کے اکنامک سروے آف پاکستان میں خواندگی کی شرح 62.8 فیصد درج کی گئی ہے لیکن ایجوکیشن سیکرٹری کے مطابق اصل شرح 59.3 فیصد کے لگ بھگ ہے ‘اور اس عدد کو بھی اطمینان بخش قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ملک کی 40 فیصد سے زائد آبادی اب بھی ناخواندہ ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان میں کل آبادی کے لحاظ سے سکول نہ جانے والے طلبہ کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں دو کروڑ 60 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے۔ اس جانب وزیر اعظم شہباز شریف نے چند روز قبل شعبہ تعلیم سے متعلق قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اشارہ کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ قوم کے لیے تعلیم زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اور یہ کہ تعلیم کے بغیر کوئی بھی قوم ترقی نہیں کر سکتی اور تعلیم کے بغیر کوئی ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ میرا خیال ہے کہ تعلیمی ایمرجنسی میں ان تمام مسائل کا حل شامل ہونا چاہیے جن کا تعلق شرح خواندگی میں اضافہ نہ ہونے سے ہے کیونکہ ملک کی جتنی زیادہ آبادی خواندہ ہو گی‘ اتنا قومی سطح پر شعور اجاگر ہو گا اور اتنا ہی ہر طرح کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونا اور ترقی کی راہ اختیار کرنا ممکن ہو سکے گا۔
یہ سوال سب سے اہم ہے کہ آخر دو کروڑ 60 لاکھ بچے سکولوں سے باہر کیوں ہیں؟ یہ بات پورے تیقن اور وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ کوئی والدین ایسے نہیں جو اپنے بچوں کو تعلیم نہ دلانا چاہتے ہوں۔ یہ والدین کی مالی مجبوریاں ہیں جن کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے سے قاصر ہیں۔ اب سکولوں سے باہر رہ جانے والے بچوں کو تعلیم دلانے کے دو ہی طریقے ہو سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ حکومت بے روزگار والدین کے لیے روزگار کا اہتمام کرے تاکہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم کے لیے سکولوں میں داخل کرا سکیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ حکومت ان بچوں کی تعلیم‘ خوراک اور لباس کی ہر طرح کی ضروریات پوری کرنے کی ذمہ داری خود اٹھائے۔ میرے خیال میں دونوں طریقے ہی قابلِ عمل ہیں‘ لیکن مسئلہ فنڈز کا آ جاتا ہے۔ حکومت کے پاس اتنے پیسے کہاں کہ اتنے زیادہ لوگوں کے روزگار کا بندوبست کر سکے۔ یہاں تو لوگوں کو ملنے والی پنشن پر ٹیکس عائد کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں‘ روزگار کے نئے مواقع کہاں سے پیدا ہوں گے یا دو کروڑ 60 لاکھ بچوں کے تعلیمی اور دیگر اخراجات کیسے اور کہاں سے پورے ہوں گے؟ اور مسئلہ محض بچوں کے تعلیمی اخراجات کا نہیں‘ جن بچوں کا ذکر ہوا ہے‘ ان میں سے بہت سے بچے کام کرتے ہیں اور اپنے خاندان کے لیے معاشی سہارا ہیں۔ ان کو سکول داخل کرنے سے پہلے حکومت کو ان کے اخراجات کے ساتھ ساتھ وہ معاشی بندوبست بھی کرنا پڑے گا جو یہ بچے اپنے خاندان کے لیے کرتے ہیں۔پھر اس سے بھی آگے چلیں تو یہ سوچنا پڑے گا کہ ملک میں کون کون سی ایمرجنسی نافذ کی جانی چاہیے۔ تعلیمی ایمرجنسی تو نافذ کر دی گئی‘ اس وقت زراعت کا جو حال ہے تو کیا زرعی ایمرجنسی بھی ہونی چاہیے؟ صنعتی شعبہ جس طرح ٹھپ ہو رہا ہے تو کیا صنعتی ایمرجنسی کی بھی ضرورت ہے؟ درآمدات اور برآمدات کے حوالے سے مایوس کن صورتحال ہے تو کیا درآمدات اور برآمدات کے حوالے سے بھی ایمرجنسی ہونی چاہیے؟ گزشتہ مہینوں میں معاشی ایمرجنسی کی باتیں بھی ہوتی رہی ہیں۔ ہمارے ملک اور ہمارے شہروں میں جس طرح آلودگی بڑھ رہی ہے اور جس طرح موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں تو کیا ماحول اور موسم کے حوالے سے بھی کوئی ایمرجنسی ہونی چاہیے؟ کتنی ایمرجنسیاں ہوں تو ہم کچھ سکون اور سہولت کے ساتھ زندگی بسر کر سکتے ہیں؟ سوری‘ میں نے بڑی عجیب بات کہہ دی‘ جب ایمرجنسی ہو گی تو سکون اور سہولت کہاں؟ ذرا سوچئے کہ ہم اس نہج تک کیوں پہنچے کہ ہمیں اپنے چاروں طرف ایمرجنسیوں کے نفاذ کی ضرورت محسوس ہونے لگی؟ مجھے جو وجہ نظر آتی ہے وہ یہی ہے کہ ہم نے ماضی میں بروقت اور بر محل فیصلے نہیں کیے‘ یوں معاملات خراب ہوتے ہوتے اس حد تک خراب ہو چکے ہیں کہ ہمیں ایمرجنسیوں کے بارے میں سوچنا پڑ رہا ہے۔