دستیاب انسانی تاریخ میں کوئی بھی ایسا ملک نہیں جسے چیلنجز کا سامنا نہ ہو۔ ہاں چیلنجز کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ چیلنجز کا مقابلہ کرنا اور مشکلات سے نجات دلانا حکومتوں کا کام ہے یہی وجہ ہے کہ ہماے ہاں ہر معاملے کی ذمہ داری حکومتوں پر ڈالنے کی روایت موجود ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں حالات کی تمام تر ذمہ داری حکومتوں پر نہیں ڈالی جاتی بلکہ معاشرے کا ہر فرد اپنے تئیں مسائل سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔ کئی ایسے معتبر ادارے مضبوط ساکھ رکھتے ہیں جو بہترین پالیسی کے ذریعے اپنے ملک اور شہریوں کی ہر ممکن مدد کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کی دنیا پیچیدہ چیلنجز سے بھری ہوئی ہے جن کے حل کیلئے صرف روایتی حکومتی ادارے کافی نہیں۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کیلئے تھنک ٹینکس وجود میں آئے ہیں۔ ہر دور میں ہی اگرچہ شہ دماغ اپنی بصیرت سے لوگوں اور سلطنتوں کی رہنمائی کرتے رہے تاہم بعض ماہرین کا خیال ہے کہ تھنک ٹینک کی اصطلاح سب سے پہلے دوسری جنگِ عظیم کے دوران فوجی حلقوں میں استعمال ہوئی۔ اس وقت اس سے مراد ایسی محفوظ جگہ ہوتی تھی جہاں جنگی حکمت عملیوں پر غور و خوض کیا جاتا تھا‘ تاہم اس اصطلاح کا وسیع تر مفہوم میں استعمال 1960ء کی دہائی میں امریکہ میں شروع ہوا۔ اس دور میں امریکہ میں نجی تحقیقی اداروں کی تعداد میں اضافہ ہوا جو پالیسی سے متعلق مسائل پر غیر جانبدارانہ تحقیق کر رہے تھے۔ ان اداروں کو تھنک ٹینک کا نام دیا گیا کیونکہ یہ وہ ادارے تھے جہاں پالیسی سازی کیلئے نئے نظریات اور حکمت عملیوں پر غور و فکر کیا جاتا تھا۔1970ء اور 1980ء کی دہائی میں تھنک ٹینک کی اصطلاح مزید عام ہو گئی اور اسے دنیا بھر میں پالیسی تحقیق کرنیوالے اداروں کیلئے استعمال کیا جانے لگا۔ آج کل اس اصطلاح کا استعمال اس قدر عام ہے کہ اس کے علاوہ کوئی اور لفظ ان اداروں کی نوعیت کو اس قدر واضح طور پر بیان نہیں کر سکتا۔یہ آزاد تحقیقی ادارے پالیسی سے متعلق مسائل پر تحقیق اور تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد پالیسی سازوں کو مستقبل کے امکانات سے آگاہ کرنا اور مختلف حکمت عملیوں کے اثرات کا جائزہ لینا ہے۔ تھنک ٹینکس کے ماہرین اور محققین مختلف شعبوں جیسا کہ معاشیات‘ بین الاقوامی تعلقات‘ سائنس و ٹیکنالوجی کے ماہر ہوتے ہیں۔ یہ لوگ موجودہ رجحانات کا تجزیہ کرتے ہیں‘ مختلف صورتحال کا مشاہدہ کرتے ہیں اور اس بنیاد پر پالیسیوں کے طویل المدتی اثرات کا اندازہ لگاتے ہیں۔ ان کی تحقیق رپورٹس‘ مضامین‘ کتابوں اور کانفرنسوں کے ذریعے عوام اور پالیسی سازوں تک پہنچتی ہے۔ تھنک ٹینکس کا مقصد براہِ راست پالیسی سازی نہیں بلکہ پالیسی سازوں کو صحیح فیصلے کرنے کیلئے معاونت فراہم کرنا ہے۔ ان کی تحقیق اور تجزیہ پالیسی سازوں کو مختلف نقطہ نظر اور حکمت عملیوں سے آگاہ کرتا ہے تاکہ وہ موجودہ اور مستقبل کے چیلنجز کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کر سکیں۔
گزشتہ ایک ہفتے سے ہم امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں تھے‘ وہیں سے ان سطور کو ترتیب دیا گیا۔ واشنگٹن ڈی سی میں ہمیں دنیا کے اعلیٰ دماغوں کے ساتھ مسائل کو سمجھنے کا موقع ملا۔ ان مباحثوں میں پاک امریکہ تعلقات میری دلچسپی کا موضوع تھے۔سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے امریکی عہدیدار اور پالیسی میکرز اور تھنک ٹینکس کے سربراہان سے نہایت مفید ملاقاتیں ہوئیں‘ جن میں سائبر سکیورٹی اینڈ انفرسٹرکچر سکیورٹی ایجنسی کے سربراہ ڈاکٹر حسن عباس جیسی قابلِ ذکر شخصیت بھی شامل ہے۔ اسکے علاوہ سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے پاکستانی افیئرز کے ولید ہاشمی کا پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو مثبت سطح پر لانے میں فعال کردار ہے۔پاکستان کے سابق نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر ڈاکٹر معید یوسف امریکی حلقوں میں جانی پہچانی شخصیت صحافی او رریسرچر امتیاز علی کے خصوصی تعاون کی بدولت ہمیں امریکی ذہنوں کو جانچنے میں بھرپور مدد میسر آئی۔کئی اہم میٹنگز میں ان حضرات کا کلیدی کردار رہا۔
واشنگٹن ڈی سی میں ایک ہفتے کے قیام کے دوران جن تھنک ٹینکس سے استفادہ کا موقع ملا ان میں پانچ قابلِ ذکر ہیں۔ یونائیٹڈ سٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف پیس‘ یہ امریکہ کا ایک وفاقی ادارہ ہے جو دنیا بھر میں امن اور استحکام کو فروغ دینے کیلئے کام کرتا ہے۔ یہ کانگریس کے ذریعے قائم کیا گیا تھا اور اس کا انتظام امریکی محکمہ تعلیم کے پاس ہے۔یہ امن و استحکام کے حصول کیلئے تحقیق‘ تعلیم‘ اور عوامی بحث و مباحثے کو فروغ دیتا ہے۔ یہ تنازعات کو حل کرنے‘ امن سازی کی حکمت عملیوں کو تیار کرنے اور امن تعلیم کو فروغ دینے میں مدد کرتا ہے۔اسی طرح محکمہ خارجہ کا سٹیمسن سینٹرامریکی وزارتِ خارجہ کا ایک تحقیقی ادارہ ہے جو بین الاقوامی تعلقات‘ سلامتی اور عوامی پالیسی پر تحقیق کرتا ہے۔ یہ بین الاقوامی مسائل پر مباحثوں کا انعقاد بھی کرتا ہے اور پالیسی میکرز اور عوام کیلئے تحقیق شائع کرتا ہے۔انٹر نیشنل سٹریٹجی گروپ‘ امریکہ کا یہ ادارہ عالمی سلامتی کے چیلنجوں پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ یہ ادارہ تحقیق‘ تجزیہ‘ اور پالیسی سفارشات فراہم کر کے عالمی سلامتی کے مسائل پر توجہ مبذول کراتا ہے۔ یہ پالیسی میکرز اور عوام کیلئے تحقیق شائع کرتا ہے اور بین الاقوامی مسائل پر مباحثوں کا انعقاد بھی کرتا ہے۔نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (این ڈی یو) امریکہ کی مسلح افواج اور سویلین لیڈروں کیلئے اعلیٰ تعلیم کا ادارہ ہے۔ این ڈی یو قومی سلامتی کی حکمت عملی‘ جنگ کی حکمت عملی‘ اور بین الاقوامی تعلقات پر تعلیم اور تحقیق فراہم کرتا ہے۔ یہ سویلین اور فوجی رہنماؤں کو عالمی سلامتی کے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے تیار کرتا ہے۔ سائبر سکیورٹی اینڈ انفراسٹرکچر سکیورٹی ایجنسی (سی آئی ایس اے) یہ امریکہ کے محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کا ادارہ ہے جو امریکی بنیادی ڈھانچے کی سائبر سکیورٹی کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔سی آئی ایس اے سائبر حملوں سے امریکی بنیادی ڈھانچے کا دفاع کرتا ہے‘ سائبر سکیورٹی کی صلاحیتوں کو تیار کرتا ہے‘ اور سائبر واقعات کا جواب دیتا ہے۔جب دو ممالک کے درمیان سیاسی‘ معاشیاتی یا سماجی نوعیت کے اختلافات پیدا ہوتے ہیں تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ غلط فہمیاں اور بداعتمادی پیدا ہو جاتی ہے۔ ان حالات میں تعلقات کو پٹری پر لانے اور مثبت سطح تک لے جانے کیلئے تھنک ٹینکس ایک اہم کردار ادا کر تے ہیں۔یہ ماہرین مل کر ان مسائل کا جائزہ لیتے ہیں جو تعلقات میں خرابی کا باعث بن رہے ہیں۔ اس مشترکہ تحقیق کے نتیجے میں حقائق اور اعداد و شمار سامنے آتے ہیں جن سے غلط فہمیوں کا ازالہ ہو تا ہے اور حقیقی صورتحال کی بناپر بات چیت شروع ہوتی ہے۔دنیا میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ اعلیٰ دماغوں کی بدولت ممالک نے بحران سے نجات اور ترقی کی منازل کی ہیں۔ جنوبی کوریا کی ترقی کے پیچھے کوریا ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ(کے ڈی آئی) کی حکمت عملی کار فرما ہے۔اسی طرح سنگاپور کی حکومت نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز (آئی پی ایس) تشکیل دیا۔سنگا پور نے آئی پی ایس کے ویژن کے تحت ترقی کی ہے۔پاک امریکہ تعلقات کسی دور میں مثالی رہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر دور میں تعلقات یکساں نہیں رہے۔1980ء کی دہائی میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد امریکہ اور پاکستان کے تعلقات ایک بار پھر قریب آ گئے۔جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ اور پاکستان کے تعلقات ایک نئے موڑ پر آ گئے کیونکہ امریکہ کو پاکستان کے جوہری پروگرام پر تحفظات تھے۔نائن الیون حملوں کے بعد پاکستان نے امریکی مؤقف کی حمایت کی تو تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ پاک امریکہ تعلقات میں سرد مہری کی ایک وجہ پاک چین تعلقات ہو سکتے ہیں‘ لہٰذا پاکستان ‘ چین اور امریکہ کے تعلقات میں بیلنس لانے کیلئے ہمارے سوچنے سمجھنے والے دماغوں کو کام کرنا چاہئے اور اس مقصد کیلئے وسیع تر مکالمے کی ضرورت ہے۔