بھارتی ہٹ دھرمی باہمی کرکٹ کی بحالی میں رکاوٹ
پی سی بی اور بی سی سی آئی مقابلے چاہتا ہے مگر مودی سرکار اجازت نہیں دیتی،مستقبل قریب میں بھی سیریز کا امکان نہیں ، آپس میںکھیلنے کیلئے پاکستان نے ہمیشہ لچک کا مظاہرہ کیا ، شہریار خان افغانستان کو بھارت کے بجائے پاکستانی ٹیم سے ڈیبیو ٹیسٹ کھیلنا چاہئے تھا، ایف ٹی پی میں کم میچز ملنا باعث تشویش نہیں، ٹی ٹین سے کھیل کی شکل بگڑ گئی، سابق چیئرمین کا انٹر ویو
کراچی (اسپورٹس رپورٹر) پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین شہریار خان نے کہا ہے کہ انہیں مستقبل قریب میں پاکستان اور بھارت کے درمیان باہمی سیریز کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ گزشتہ روز ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان کھیل کی بحالی میں پی سی بی یا بھارتی بورڈ حائل نہیں بلکہ اس کے پیچھے مودی سرکار ہے جو اپنے کرکٹ بورڈ کو پاکستان کے خلاف کھیلنے کی اجازت نہیں دیتی۔ ایک سوال پر شہریار خان نے کہا کہ یہ معاملہ صرف سیاسی ہے جب تک آپس میں تعلقات کشیدہ ہوں گے ، اس وقت تک دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ میچز نہیں ہو سکتے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ بھارت کے ساتھ کھیلنے کیلئے تیار رہتا ہے لیکن بھارتی بورڈ کو مجبور نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان کی حکومت ہی کرکٹ روابط کی بحالی کیخلاف ہے ۔ ایک سوال پر سابق سربراہ پی سی بی کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بی سی سی آئی نے اپنی حکومت کو پاکستان سے باہمی سیریز کیلئے راضی کرنے کی کوشش کی ۔ بھارتی بورڈ نے اپنی حکومت کو یہ بھی بتایا کہ پاکستان سے نہ کھیلنے پر کتنا زیادہ نقصان ہو گا تاہم بھارتی حکومت ہٹ دھرمی پر اتر آئی ہے اور وہ اجازت دینے کیلئے تیار ہی نہیں ۔ شہریار خان کا کہنا تھا کہ مستقبل قریب میں تعلقات کی بحالی کی امید نہیں لیکن پھر بھی یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ کبھی تو برف پگھلے گی۔ انہوں نے کہا کہ آئی سی سی ایونٹس میں بھارت سے مقابلے ہوتے رہیں گے تاہم ٹیسٹ میچز یا مختصر اوورز کی سیریز کی کوئی امید نہیں ۔ایک سوال پر پی سی بی کے سابق چیئرمین کا کہنا تھا کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ افغانستان اپنا پہلا ٹیسٹ بھارت کیخلاف کھیلے گا۔ یہ تاریخی مقابلہ پاکستان سے ہونا چاہئے تھا۔ شہریار خان کے مطابق بھارت نے کھیلوں کے معاملات بھی سیاسی بنا دیئے ہیں جو افسوسناک بات ہے پھر بھی وہ افغانستان کی ٹیم کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔ پی سی بی کے سابق سربراہ کا کہنا تھا کہ انہیں فیوچر ٹور پروگرام میں پاکستان کو کم میچز ملنے پر کوئی تشویش نہیں کیونکہ سوال صرف میچوں کی تعداد کا نہیں بلکہ معیار کا ہے ہمیں خود سے بڑی ٹیموں کیخلاف کھیلنے کا موقع ملے گا ۔ شہریار خان کا کہنا تھا کہ جن ٹیموں کو ایف ٹی پی میں بہت زیادہ میچز ملے ، انہیں کمزور ٹیموں سے بھی مقابلہ کرنا ہوگا جبکہ گرین شرٹس کم اور معیاری میچز کھیلیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ اچھی ٹیموں کیخلاف مقابلوں سے زیادہ آمدنی ہو گی کیونکہ آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ جیسی ٹیموں کیخلاف کھیلنے پر براڈ کاسٹرز سے کمزور ٹیموں کے مقابلے میں زیادہ آمدنی ملتی ہے ۔ شہریار خان کا کہنا تھا کہ احسان مانی کا موقف اپنی جگہ لیکن وہ خود یہ سمجھتے ہیں کہ اگر بھارتی حکومت رضا مند ہو جائے اور دونوں ٹیموں کے درمیان میچز کا انعقاد ممکن ہو سکے تو بھارت سے زر تلافی مانگنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ نقصان کی تلافی کا تقاضا پی سی بی کا حق ہے اور بورڈحکام اس معاملے پر درست راستے پر چل رہے ہیں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان سپر لیگ نے ملک کی ساکھ کو بہتر کیا اور دنیا میں یہ پیغام گیا کہ پاکستان کھیلوں کیلئے محفوظ ملک ہے اور یہاں بھی غیر ملکی کرکٹرز بغیر کسی خوف کے آسکتے ہیں۔ شہریار خان کے مطابق پی ایس ایل سے ڈومیسٹک کرکٹ کو نقصان نہیں ہوا بلکہ مقامی کرکٹ کا معیار بلند ہوا ہے جبکہ پی ایس ایل سے قومی کھلاڑیوں کو اپنی صلاحیتیں دکھانے کا بھرپور موقع بھی ملا ۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں کہ ٹی ٹین فارمیٹ سے کرکٹ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا ۔انہوں نے کہا کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ نے خود کو منوالیا تھا۔ ایسے میں مختصر ترین فارمیٹ کو لانا سونے کے انڈے دینے والی مرغی کو ذبح کرنے جیسا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ٹی ٹین فارمیٹ سے کرکٹ کی شکل بگڑ جائے گی۔ شہریار خان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بات ناقابل قبول ہے کہ قومی کرکٹرز ملک میں ڈومیسٹک ایونٹ چھوڑ کر بیرون ملک انٹر نیشنل لیگز میں شرکت کر رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ تمام قومی کھلاڑیوں کو بیرون ملک کھیلنے کی مشروط اجازت ملنا چاہئے ۔ شہریار خان نے کہا کہ کھلاڑی بیرون ملک انٹر نیشنل لیگز میں اسی صورت کھیلیں جب وہ ڈومیسٹک کرکٹ میں مختلف ٹیموں کی نمائند گی کر چکے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اگر برطانوی اخبار کی ایشز سیریز میں فکسنگ سے متعلق رپورٹس درست ہیں اور آئی سی سی اس معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے تو دنیائے کرکٹ کو اسے پوری سنجیدگی سے لینا ہو گا اور ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جس طرح پاکستان کر رہا ہے تاکہ کرپشن کی برائی کو جڑ سے ختم کیا جاسکے۔