اپینڈکس سمیت انسانی جسم کے 6حصے کسی کام کے نہیں
کے اعتبار سے چمپینزی کو انسانوں کے سب سے نزدیک تصور کیا جاتا ہے لیکن اگر آپ دونوں کی حیاتیاتی بناوٹ یا ڈھانچے پر غور کریں تو پہلی نظر میں یہ بات واضح ہو جائے گی کہ چمپینزیوں میں کئی ایسے اعضا ہوں گے جو انسانوں میں موجود نہیں
ارتقا کے اعتبار سے چمپینزی کو انسانوں کے سب سے نزدیک تصور کیا جاتا ہے لیکن اگر آپ دونوں کی حیاتیاتی بناوٹ یا ڈھانچے پر غور کریں تو پہلی نظر میں یہ بات واضح ہو جائے گی کہ چمپینزیوں میں کئی ایسے اعضا ہوں گے جو انسانوں میں موجود نہیں۔حیاتیاتی بناوٹ میں فرق کی وجہ انسانوں کی مسلسل ارتقا ہے لیکن حیاتیاتی ارتقا کی رفتار بہت دھیمی ہوتی ہے ۔اسی وجہ سے انسانوں کے جسم میں آج بھی کئی ایسے پٹھے اور ہڈیاں پائی جاتی ہیں جو اب کسی کام کی نہیں ہیں۔حیاتیاتی ارتقا کے بارے میں ریسرچ کرنے والے ڈورسا امیر نے اپنی ریسرچ میں انسانی جسم کے ان 6حصوں کا ذکر کیا ہے جن کا عام زندگی میں کوئی استعمال نہیں بچا ہے ۔ان میں کلائی کے پٹھے ،کلائی کے پٹھے ،دم کی ہڈی ،آنکھ میں تیسری پلک،رونگٹے کھڑے ہونااوراپینڈکس شامل ہیں ۔ڈورسا کا خیال ہے کہ انسانی جسم قدرتی تاریخ کے عجائب گھر کی طرح ہے ۔ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ جب ان حصوں کی کوئی ضرورت نہیں باقی رہی تو کئی لوگوں میں آج بھی یہ پٹھے اور ہڈیاں کیوں موجود ہیں؟ ،اس کا جواب یہ ہے کہ حیاتیاتی ارتقا کی رفتار سست ہے ، اس لئے ایسے اعضا کو پوری طرح ختم ہونے میں وقت لگ سکتا ہے ،کچھ معاملوں میں یہ اعضا اپنے لئے نئے مقاصد حاصل کر لیتے ہیں اور اس عمل کو ’’ایکسپٹیشن‘‘ کہتے ہیں۔