والدمحترم !حضرت آغا شورش کاشمیری کے بارے میں لکھنا کوئی آسان کام نہیں۔ آج انہیں ہم سے جُدا ہوئے 43برس ہو گئے ۔ میںاُس وقت ساتویں جماعت کا طالب علم تھا اور اپنے والد محترم کی خطابت کے بارے میں بہت کچھ سُن رکھا تھا‘ لیکن اُنہیں تقریر کرتے ہوئے سُنا اور نہ ہی دیکھا تھا۔ ہم چند دوستوں نے پروگرام بنایا اور ہم نومبریا دسمبر 1973ء بروز اتوار‘ موچی دروازے کی طرف چل پڑے‘ جہاں والد محترم نے مولانا ابو الاعلی مودودیؒ اور قائد جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کی ہمراہی میں عوام سے خطاب کرنا تھا ۔ والد محترم جلسے کے آخری مقرر ہوا کرتے تھے ‘ وہ رات ساڑھے گیارہ بجے تقریر کے لیے اُٹھے ‘ عوام کا ایک جم غفیر جلسہ گاہ میں اُمڈ آیا ۔عوام کی کثیر تعداد کے پیش نظر موچی دروازے کے باہر بھی مختلف مقامات پر لاؤڈ سپیکر ز لگائے گئے تھے‘ تاکہ مقررین کے خیالات سے لوگ بآسانی مستفید ہو سکیں ۔ جلسے کی غرض و غایت کا تو مجھے معلوم نہیں ‘لیکن والد ِ محترم کے کچھ الفاظ آج بھی میرے حافظے میں گونج رہے ہیں ۔ انہوں نے اپنے مخصوص اندازسے بارُعب آواز میں کہا: لوگو !سچ بولنا بڑا خطرناک ہے ‘ سچ سے زیادہ کوئی شے کڑوی نہیں ‘ سچ کے لیے ہمیشہ دو کی ضرور ت ہوتی ہے ‘ ایک وہ جو سچ بولے اور دوسرا وہ جو سچ سُنے‘ سچ تبھی مکمل ہوتا ہے ‘ یہاں سچ بولنے والے کم اور سننے والے کمیاب‘ بلکہ نایاب ہیں ۔حضرات! اکثر سچائیاں صرف اس لیے ناکام ہوگئیں کہ ان کے پاس طاقت نہ تھی اور بیشتر جھوٹ اس لیے سچ ہوگئے کہ انہیں طاقت نے پروان چڑھایا۔
آج اس واقعہ کو تقریباً پینتالیس سال گزر چکے اور ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اور اپنے گرد و پیش‘ جن حالات و اقعات سے دوچار ہیں‘ والد ِ محترم کے یہ الفاظ حقیقت کا رُوپ لیے نظر آتے ہیں ۔ یہاں مجھے اُنہی کے چند اشعار یاد آ رہے ہیں: ؎
زیادہ دن نہیں ہوئے یہاں کچھ لوگ رہتے تھے
جو دل محسوس کرتا تھا علی الاعلان کہتے تھے
گریباں چاک دیوانوں میں ہوتا تھا شمار اُن کا
قضا سے کھیلتے تھے وقت کے الزام سہتے تھے
بڑے لوگ بنائے نہیں جاتے‘ بلکہ پیدا ہوتے ہیں اور انہیں مخصوص وقت پر ایک خاص کام کے لیے لایا جاتا ہے۔ ہر شخص کے لیے رب العزت نے کوئی نہ کوئی فریضہ سونپ رکھا ہوتا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرے والد محترم !آغا شورش کاشمیری کو آقائے دوجہاں حضرت محمد ﷺ کی غلامی اور عقیدہ ختم نبوت کی پاسداری کے لیے پیدا کیا گیا۔ ؎
جان وقف کر چکا ہوں محمدؐ کے نام پہ
یہ ہے دلیلِ خاص میرے افتخار کی
شورش کا شمیری‘ نا صرف بلند پایہ خطیب تھے‘ بلکہ زبان و بیان میں اس قدر قدرت حاصل تھی کہ وہ لوگو ں کے دل و دماغ سے کھیلتے تھے ۔ الفاظ ان کی زبان پر حاضر رہتے اور مطلب ان کے نطق کو بوسہ دیتے ۔ سب سے نمایا ں پہلو جو ان کی شخصیت کو ممتاز کرتا ہوا نظر آتا ہے‘ وہ ان کی بے خوفی اظہارہے ۔ انگریز کا دور ہو یا انگریزنماملکی حکمرانوں کا غرور و طنطنہ ‘ان کی تحریر و تقریر میں خاک میں اُڑتا ہوا نظر آتا ہے۔فرماتے ہیں: ؎
جو دل محسوس کرتا ہے اگر تحریر ہو جائے
تو یہ نظم مرصّع زلف یا زنجیر ہو جائے
یہ لازم ہو گیا تو موت کو آواز دے لوں گا
قلم میرا وزیرؔ و میرؔ کی جاگیر ہو جائے
وہ کہا کرتے تھے: ''میرا قلم اُس شخص کو دیا جائے‘ جو اس کو تیشہ کوہکن بنا سکے‘ جس کو لہو سے لکھنے کا سلیقہ آتا ہو اور مجھے وہ شخص کفن پہنائے ‘جس کی غیرت نے کبھی کفن نہ پہنا ہو اور جس کا اوڑھنا بچھونا صرف اسلام ہو ‘‘۔ان کی تحریر و تقریر دونوں میں بے پنا ہ سحر تھا اور یہ جادو اس وقت سرچڑھ کر بولتا ہے ‘ جب اُن کے مدمقابل حکمران طبقہ یا اس کے حواری ہوتے ۔ ان کے قلم سے نکلنے والا ہر جملہ اپنے اندر خطابت کا رنگ ‘ شعر کی حلاوت اور ادب کی گھلاوٹ لیے ہوئے ہے۔ ان کے جملے ذہن کو مسرت ‘ رُوح کو تازگی اور نظر کو وسعت مہیا کرتے ہیں ۔
جب اسلام او ر پاکستان پر کوئی حملہ آور ہوتا‘شور ش کا شمیری‘ شمشیر برہنہ کا رُوپ دھا ر لیتے ‘ اپنے دین اور وطن سے ان کا والہانہ عشق کا انداز ہ ان اشعار سے کیا جا سکتا ہے: ؎
میرے ہمراہی کریں گے اس قدر جانیں نثار
دل کے ٹکڑوں کو شہادت کی دُعا دینی پڑے
اس قدر کر جاؤں گا ماؤں کی محبت کو بلند
مغفرت کی ذرے ذرے کو دُعا دینی پڑے
سرزمین پاک سے ایسے اٹھائوں گا شہید
جن کے مدفن کو زمین کربلا دینی پڑے
میں اس حقیقت کا بھی برملا اعتراف کرتا ہوں کہ میرا قلم والدِ محترم جیسی ہمہ جہت شخصیت کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے ۔اُن کے سیاسی ‘ صحافتی ‘ ادبی ‘ خطیبانہ اور شاعرانہ پہلوؤں پر لکھنا یا بولنا انتہائی مشکل ترین کام ہے ‘ اس کے لیے علم کی وسعت اور نظر کی گہرائی درکار ہے۔
میںاس وقت ایک ایسے رشتے کے حوالے سے کچھ کہنا اور لکھنا چاہتا ہو ں‘ جس کی تشنگی اور کسک ہم بہن بھائی آج بھی پوری شدت سے محسوس کرتے ہیں ‘وہ پہلو ہے‘ بطور والد اُن کا ہم سے رشتہ ! یہ ایک حقیقت ہے اور المیہ بھی کہ حقیقتاً بڑے انسانوں کے پاس اپنی اولاد کے لیے بہت کم وقت ہوتا ہے ۔ہم گیارہ بہن بھائی ہیں والد محترم کی صحبت بہت کم میسر آئی ۔ انہو ںنے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ پس دیوارزنداں گزرا‘بلکہ وہ خود کہا کرتے تھے کہ میں اپنا تخلص ''شورش رکھوں یا جیل ‘‘۔ ہم آج جہاں کہیں بھی ہیں اپنی والدہ محترمہ کی دعاؤں کی ہی بدولت ہیں ۔ انہوں نے ہمیں والد ِ محترم کی وفات کے بعد اس طرح پالا‘ جیسے کوئی مصور اپنے شہ پاروں کی رکھوالی کرتا ہے ۔ــاب و ہ بھی اس دنیا میں نہیں رہیں‘ وہ ہمیں چھوڑ کر خالق حقیقی کے حضور جا چکی ہیں اور مجھے یقین ہے کہ جب ان کا اپنے شوہر سے آمنا سامنا ہوا ہو گا تو انہوں نے پوری متانت اور فخر سے کہا ہو گا کہ تم جو کہانی ادھوری چھوڑ آئے تھے‘ میں اللہ کے فضل سے اس کو مکمل کر آئی ہوں!۔
ــــیوں تو ہر ماں باپ چاہے وہ امیر ہو یا غریب اپنی اولاد کو اپنی بساط کے مطابق ہر نعمت سے آراستہ و مالا مال دیکھنا چاہتا ہے‘ لیکن مجھے اس بات پر نازہے ‘بلکہ ہم سب بہن بھائیوں کو اس بات پر کمال حد تک فخر ہے کہ ہمارے ماں باپ نے ہمیں عشقِ مصطفیٰ ؐکی جو دولت دی ‘وہ تا قیامت ختم نہ ہو گی۔ یہی سرمایہ رگوں میں خون بن کر دوڑتا اوردلوں کو گرمائے رکھتا ہے۔وہ زندگی ہی کیا‘ جو عشقِ مصطفیٰ ؐسے خالی ہو‘یہی والد محترم کا اوڑھنا اور والدہ محترمہ کا بچھونا تھا۔ والد ِ محترم کی یہ عادت تھی کہ وہ صبح جلد ی اُٹھنے کے عادی تھے ۔ گھر کے باہر لان میں وہ بیٹھتے ‘ اخبارات کا مطالعہ شروع کر دیتے۔ صبح ہوتے ہی اُن کے لیے تین چیز یں لازم ہوا کرتی تھیں ‘ اخبارات کا مطالعہ‘ کشمیری سبز چائے ہمراہ کلچہ اور پھر محترم مجید نظامی سے ٹیلی فون پر حالات ِ حاضرہ پر تبادلہ خیال۔