ایسا محسوس ہورہا ہے کہ حکمرانوں کی سوچ ماضی سے اس طرح لپٹی ہوئی ہے کہ شعور اور تفہیم کی کسی کرن کا گزر محال ہے۔ میاں صاحب، پرویز مشرف کے سلسلے میں ہونے والی عدالتی کارروائی کو،اپنے چند نادان دوستوں کی بے لگام گفتگو سے بلاواسطہ متاثر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ دوسری طرف بعض لوگوں کی یہ بھی رائے ہے کہ سیاست دان، جنرل(ر)پرویز مشرف کی آڑ میں فوج کو بد نام کرنے کی شعوری کوشش کر رہے ہیں؛تاہم میاں صاحب نے ٹی وی پر سابق صدر کے خلاف بات چیت کا نوٹس لے کر خفگی کا اظہار کیا ہے اورتنبیہ کی ہے کہ آئندہ اس مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے احتیاط کی جائے۔ ٹی وی کے کچھ اینکرز بھی، بوجوہ مشرف صاحب کا ذکر کرتے ہوئے فوج کے خلاف نامناسب خیالات کا اظہار کر جاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ پاک فوج نے ملک کی حفاظت اور سالمیت کی خاطر مثالی قربانیاں دی ہیں بلکہ آج بھی جب کہ پاکستان کو اندرونی اور بیرونی خطرات نے گھیر رکھا ہے تو صرف فوج کے جوان اور افسر ہی بڑی پامردی سے ان کا مقابلہ کررہے ہیں۔اگرہماری فوج، جرأت، بہادری اورجذبہ حب الوطنی سے سرشار نہ ہوتی تو دشمن کو وطن عزیز کا شیرازہ بکھیرنے سے کوئی خوف نہ روکتا۔ بھارت کا بھی ایجنڈا یہی ہے کہ کسی طرح پاکستان کی فوج کو سیاسی اور معاشرتی سطح پر بد نام کیا جائے تاکہ یہ مضبوط ادارہ اپنی ساکھ برقرار نہ رکھ سکے۔ ٹی وی پر ہونے والے ٹاک شوز میںبعض اینکرز نے سیاست دانوں کا لب ولہجہ اختیار کر رکھا ہے۔ سابق آرمی چیف پر بے سرو پا الزامات عائد کئے جارہے ہیں اور اس پردے میں فوج کو بھی تنقید کا ہدف بنایا جارہا ہے۔ پرویز مشرف کے خلاف ہونے والی عدالتی کارروائیوں کے پس منظر میں عسکری اداروں کو بد نام کرنا اب رواج بن گیا ہے۔ تنقیدیں کرنے والے اسے بہادری سمجھتے ہیں اور ان کی نظر میں یہی جمہوریت ہے۔
ان باتوں کو دیکھتے ہوئے مرزا اسلم بیگ کو یہ کہنا پڑا کہ آرمی چیف ، فوج کی توہین برداشت نہیںکریں گے جنرل بیگ صاحب کے یہ الفاظ واضح الفاظ میں پیغام دے رہے ہیں کہ مشرف کے خلاف انتقامی کارروائیوں سے باز رہا جائے اور معاملات کو عدالتوں پر چھوڑ دیا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ آرمی چیف نے دو ٹوک الفاظ میں کہاہے کہ فوج اپنے وقار کی حفاظت کرے گی اس لئے میاں صاحب کو چاہئے کہ وہ سابق صدر جناب مشرف کے حوالے سے اپنی سوچ بدلیں اور ماضی کے حصارسے نکل کر قومی تقاضوں کی روشنی میںپاکستان کے دگرگوں حالات میں تبدیلیاں لانے کی کوشش کریں، تاکہ پاکستان کی سالمیت، معیشت اور معاشرت کیخلاف جو آتش فشانی ہوا چل رہی ہے، اس کا مؤثر تدارک کیا جاسکے؛ تاہم اگر میاں صاحب یہ سمجھ رہے ہیں کہ تمام سیاست داں خصوصیت کے ساتھ پی پی پی ان کی سوچ کی مؤید ہے تو وہ شدید غلط فہمی کا شکار ہیں۔ پی پی پی کی قیادت یعنی جناب آصف علی زرداری ان کا ساتھ جمہوریت کی بقاء کے لئے نہیں دے رہے ہیں بلکہ اس لئے دے رہے ہیں کہ انہوں نے اور ان کے دوستوں نے گزشتہ پانچ سالوں کے دوران جوبے لگام کرپشن کی ہے اور پاکستان کے اداروں کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے اس الزام میں ان کی پکڑنہ ہوسکے۔ جب کہ دوسری طرف مفاہمت کی سیاست نے پاکستان کی مجموعی معاشرتی اور تہذیبی خدوخال کو شدید نقصان سے دوچارکیا ہے۔ میاں صاحب زرداری کو اپنے ساتھ ملا کر فوج کو بلاواسطہ یہ پیغام دینے کی کوشش کررہے ہیںکہ اب سیاست دانوں کے درمیان اتحاد قائم ہوچکا ہے۔ اس لئے آئندہ کوئی طالع آزما اس اتحاد کو نہیں توڑ سکتا اورنہ ہی اقتدار پر قبضہ کرسکتا ہے؛ جبکہ پاکستان کی اکثریت خوب سمجھتی ہے کہ ان دونوں پارٹیوںکے درمیان پایا جانے والا اتحاد ملک کی ترقی یا اچھی طرز حکمرانی کے لیے نہیں ہے بلکہ کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کی سیاست کو جاری رکھنے کی خاطر ہے، جیسا ماضی قریب میں ہوا ہے۔
یہ بھی ایک المیہ ہے کہ پاکستان کے موجودہ اور سابق حکمرانوں کے خیال میں جمہوریت کی تعریف یہ ہے کہ حاکمانِ وقت پر کسی قسم کی قدغن عائدنہ کی جائے نہ ہی ان پر کسی قسم کی تنقید ہونی چاہیے بلکہ ان کا جو جی چاہے کرنے دیاجائے۔ باالفاظ دیگر قانون کی بالادستی اور اس کا احترام اور معاشرے میںاس کا اطلاق نہ ہو بلکہ قانون شکنی اور آئین شکنی کو ہی جمہوریت کا نام دیتے ہوئے اس ملک کے وسائل سے اپنے لئے اور اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو فائدہ پہنچایا جائے۔ جیساکہ پہلے کہا گیا ہے کہ اس جمہوریت کا ''تابناک‘‘ چہرہ پاکستان کے عوام 2008-2013ء کے درمیان دیکھ چکے ہیں۔ افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف ہونے والی عدالتی کاروائی کے پس منظر میں بیان بازی ایک مخصوص حکمت عملی کے تحت کی جارہی ہے۔ جبکہ پاکستان دشمن
طاقتیں دل ہی دل میں خوش ہورہی ہیں کہ پاکستانی سیاست داںاور نام نہاد دانشور خود ہی ہمارا ایجنڈا آگے بڑھا رہے ہیںلہٰذا ہمیں کچھ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ دوسری طرف اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ پاکستان میںمارشل لاء کا راستہ روک دیا گیاہے تو وہ بڑی غلط فہمی کا شکار ہے۔ ماضی میں اس ہی طرح کی سوچ جناب بھٹو مرحوم کی بھی تھی لیکن وہ فوج کے اقتدار میںآنے کا راستہ نہیں روک سکے اور خود اپنی غلط منصوبہ بندی سے اپنی بچھائی ہوئی بساط کو اُ لٹا بیٹھے۔ جب بھی ریاست کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا اور اس کے اداروں کی کارکردگی پر ضرب پڑے گی تو فوج آئین پاکستان کی روشنی میں اپنا کردار ضرور ادا کرے گی۔ اس کے اس کردار کو سیاست دان جمہوریت اور مفاہمت کے نعروں سے نہیں روک سکیں گے۔در حقیقت فوج شعوری طور پر موجودہ صورتحال کے پیش نظر اقتدار کی بھول بھلیوں سے اپنے آپ کو دور رکھنا چاہتی ہے اور رکھے ہوئے ہے، تا کہ جو گند گزشتہ پانچ سالوں میں جمہوریت اور مفاہمت کے نام پر بعض سیاست دانوں نے اس ملک میں پھیلایا ہے اُسے وہ خود ہی صاف کریں نہ کہ فوج، جو پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی ضامن اور ذمہ دار ہے، وہ اپنا یہ فریضہ بہ حُسن و خوبی انجام دے رہی ہے۔بقول حبیب جالب ؎
سر منبر وہ خوابوںکے محل تعمیر کرتے ہیں
علاج غم نہیں کرتے فقط تقریر کرتے ہیں