دہشت گردی کے ڈانڈے

ماضی بعید میں جب جرمنی کے شہرکولون میں ڈوئچ ولا جرمنی ریڈیو کی خوبصورت درسگاہ میں ریڈیو اور ٹی وی کی تربیت حاصل کررہا تھا‘ اس تربیتی کورس میں افریقہ اور ایشیا کے بعض ممالک کے براڈکاسٹر بھی تربیت حاصل کر رہے تھے۔ ایک دن تربیتی کورس کے دوران میری ٹیچر ہاڈی نے مجھ سے پوچھا کہ پاکستان کا امیج پوری دنیا میں اتنا خراب کیوں ہے؟ میں ان کے اس اچانک سوال کرنے پر بڑا جزبزہوا تھوڑی دیر کے بعد میں نے ان کو جواب دیا کہ پاکستان ایک اچھا ذمہ دار ملک ہے اور اس کے عوام انتہائی سادہ لوح ہیں۔ پاکستان نے کبھی ایسے اقدامات نہیں کیے، جن کی بنا پر اس کو بدنام کیا جائے۔ دراصل پاکستان کی لابی بہت کمزور ہے اور اس کے سفیر ملک کے لیے نہیں بلکہ اپنے ذاتی مفاد کے لیے سرگرم رہتے ہیں، اس لیے پاکستان کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈا کا کوئی معقول اور موثر جواب دینے والا کوئی نہیں ہے۔ مس ہاڈی میرا جواب سن کر مسکرائی اور کہنے لگی کہ کسی حد تک آپ کا جواب صحیح ہے لیکن آپ کے سفیر تمام مراعات لینے کے باوجود اپنے ملک کی نیک نامی کے لیے کام کیوں نہیں کرتے ؟میں خاموش رہا اور بات ختم ہوگئی لیکن اب میں ایک بارپھر سوچ رہا ہوں کہ ہر کوئی پاکستان کو بد نام کرنے پر کیوں تلا ہوا ہے؟ بلاجواز یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا مرکز بن چکا ہے۔ اس قسم کے الزامات پہلے امریکہ نے پاکستان پر عائد کیے تھے اور پاکستان پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ وہ شمالی وزیرستان پر فوجی کارروائی کرے اور وہاں موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کردے لیکن پاکستان نے امریکہ کے دبائو کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے طریقے سے کارروائی کرکے بہت حد تک شمالی اورجنوبی وزیرستان میں حالات کو سدھارنے اور سلجھانے کی کوشش کی ہے اور کررہا ہے۔ پاکستان کو دہشت گردوں کے حوالے سے بد نام کرنے میں افغانستان کے موجودہ صدر حامد کرزئی بھی شامل ہیں، جنہوں نے امریکہ سے کئی بار درخواست کی تھی کہ وہ شمالی وزیرستان میں حملہ کرکے دہشت گردوں کے اڈوں کو ختم کردے لیکن امریکہ نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ ویسے بھی مجھے یہ بات لکھنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہورہی کہ افغانستان نے کبھی پاکستان کا بھلا نہیں چاہا بلکہ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد اس ملک نے مذاحمتی کارروائیاں شروع کر دی تھیں جبکہ اس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کے خلاف ووٹ بھی دیا تھا۔ حامد کرزئی پرانی ریت اور روایت کے مطابق پاکستان کے خلاف کام کرنے میں فخر محسوس کررہے ہیں جبکہ بھارت ان کی حوصلہ افزائی کررہا ہے ۔
دوسرا ملک جس نے پاکستان کو دنیا بھر میں بد نام کرنے کے سلسلے میں اپنا روپیہ پانی کی طرح بہایا ہے، وہ بھارت ہے جس کی خارجہ پالیسی پاکستان کو بدنام کرنے کے گرد گھوم رہی ہے۔ بھارت کے موجودہ وزیراعظم جناب من موہن سنگھ اپنے ملک کے اندر اور باہر بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کے خلاف دہشت گردی پھیلانے سے متعلق الزامات عائد کر تے رہتے ہیں ۔انہوں نے اکثر یہ کہا ہے کہ اس خطے میں ہونے والی دہشت گردی کے تمام ڈانڈے پاکستان سے ملتے ہیں جبکہ بھارتی وزیراعظم کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان گزشتہ دس سالوں سے خود دہشت گردی کا شکار ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں سویلین اور فوجی مارے جاچکے ہیں جبکہ ان دہشت گردوں کی بھارت ، امریکہ اور افغانستان روپے پیسے اور اسلحہ سے مدد کر رہے ہیں۔ افغانستان میں پاکستان کے خلاف ٹی وی اور ریڈیو پر جو بے بنیاد الزامات عائد کیے جارہے ہیں، ان کی رہنمائی بھی بھارت کے افغانستان کے اندر قائم قونصلیٹ میں موجود ''را‘‘ کے ایجنٹ کررہے ہیں۔ اب ایران بھی پاکستان کے خلاف دہشت گردی سے متعلق الزامات میں شامل ہوگیا ہے جو حیرت کی بات ہے۔ ایک مستنداخباری اطلاع کے مطابق حال ہی میں دہلی میں ایک خاص جگہ امریکہ، افغانستان ، اسرائیل اور ایران کے انٹیلی جنس نمائندوں کا اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں، جس کی مہمان نوازی'' را‘‘کے افسران کررہے تھے، پاکستان کو بد نام کرنے اور پاکستان کے اندر دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے سلسلے میں ایک حکمت عملی تیار کی گئی ہے، تا کہ پاکستانی معاشرے میں مزید افراتفری پھیلاکر، اس کو مزیدغیر مستحکم کیا جاسکے، مجھے اس اجلاس میں ایران کی شرکت پر بڑا تعجب ہورہا ہے۔ ایران کو یہ سوچنا چاہیے کہ پاکستان نے اس کا کیا بگاڑا ہے؟ کیا پاکستان ایران کے اندر گڑبڑ کرا رہا ہے ؟جبکہ ایرانی رہنمائوں کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ پاکستان اس وقت خود دہشت گردی کی وجہ سے سخت آلام اور مصائب میں گرفتار ہے۔اس کی تمام تر کوشش یہ ہے کہ علاقائی تعاون کی مدد سے اپنے ملک کے اندر ہونے والی دہشت گردی کا موثر طور پر خاتمہ کیا جاسکے نیز پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں میں غیر ملکی طاقتیں بھی ملوث پائی گئی ہیں۔ ایران کے اندر وقفے وقفے سے جو دہشت گردی ہورہی ہے، اس میں وہی عناصر شامل ہیں جو بیک وقت پاکستان کے اندر اور ایران کے بلوچی علاقوں میں ان مذموم کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ ایران کو یہ بھی معلوم ہے کہ پاکستان کے بعض بلوچی علاقوں میں علیحدگی پسند قتل وغارت گری کرنے کے علاوہ سرکاری املاک کو بھی غیر معمولی نقصانات پہنچا رہے ہیں۔ پاکستان ان علیحدگی پسندوں کے خلاف مسلسل کارروائیاں کررہا ہے اور بہت حد تک ان کی تخریبی کارروائیوں کو روک دیا گیا ہے۔جند اللہ گروپ، لشکر جھنگوی اور بلوچ لبریشن آرمی پاکستان کے بلوچی علاقوں میں سرگرم ہیں،دوسری طرف جند اللہ گروپ ایرانی بلوچستان میں قتل وغارت گری بھی کررہا ہے۔ پاکستان نے اس گروپ کے کئی تخریب کاروں کو پکڑ کر جیل میں ڈال دیا ہے اور ایران نے بھی ایسا ہی کیا ہے، چنانچہ ایران کو پاکستان پر نہ تو دہشت گردی کا الزام لگانا چاہیے اور نہ ہی یہ سوچنا چاہیے کہ پاکستان اپنے قریبی پڑوسی اسلامی ملک کے ساتھ ایسا کرسکتا ہے۔ ایران کی جنگ پاکستان سے نہیں ہے، امریکہ کے خلاف ہے ،جس نے اس پر اقتصادی پابندیاں لگا کر اس کے عوام کی زندگی اجیرن کی رکھی ہے۔ پاکستان کے عوام ایران سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور سب سے زیادہ سیاح پاکستان سے ایران جاتے ہیں، جہاں وہ سیروتفریح کے علاوہ بزرگان دین کے مزارات پر حاضری دے کر روحانی فیض حاصل کرتے ہیں۔ وہ ممالک جو ایران کے بھی دوست نہیں ہیں بلکہ ایران کو معاشی طور پر تباہ کرنے میں انہی ممالک کا ہاتھ ہے، وہ اب ایران کو اپنے ساتھ ملاکر پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کے حوصلے بڑھا رہے ہیں ۔ کیا ایران کی سیاسی روحانی قیادت یہ سمجھ سکتی ہے کہ پاکستان ایران کے اندر گڑبڑ پھیلانے کا مرتکب ہوسکتا ہے ؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ دراصل دونوں ممالک کو مل کر دشمن قوتوں کے ناپاک عزائم بے نقاب کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں