وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے جمعرات کے روز گوادر کا دورہ کیا۔ اپنے دورے میں انہوں نے عوام کو یہ پیغام دیا کہ موجودہ حکومت گوادر پورٹ کو جلد ترقی دے کر اسے ایک عالمی سطح کی فعال بندرگاہ بنانا چاہتی ہے۔ اسے سنگاپور ، دبئی اور ہانگ کانگ کی طرح فری پورٹ کا درجہ بھی دیا جائے گا جس سے یہاں غیر معمولی ترقی اور روزگار کے امکانات پیدا ہو سکیں گے۔ گوادر پورٹ سے متعلق میں نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ چین نے بھی تہیہ کرلیا ہے کہ اس پورٹ میں ہنگامی بنیادوں پر اصلاحات لاکر‘ جن میں رابطہ سڑکوں کی تعمیر کے علاوہ جدید ایئرپورٹ کی تعمیر بھی شامل ہے‘ اسے عالمی تجارت کے لئے کھول دیا جائے۔ اس موقع پر میاں نواز شریف کو گوادر پورٹ سے متعلق ایک تفصیلی بریفنگ بھی دی گئی جس میں انہیں پورٹ سے متعلق اب تک کے حالات سے آگاہ کیا گیا۔ بریفنگ کے دوران ان کے ہمراہ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کے علاوہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور وفاقی وزرا بھی موجود تھے۔ چین نے اس پورٹ کو B.O.Tکی بنیاد پر 90ء میں تعمیر کیا تھا۔ یہ اس خطے کی واحد گہری بندر گاہ ہے جبکہ دیگر بندرگاہیں بندر عباس اور دبئی پورٹ وغیرہ سمندری خلیج میں واقع ہیں۔ گوادر پورٹ ایک قدرتی بندرگاہ ہے جہاں مختلف علاقوں سے جہاز بآسانی لنگر انداز ہوسکتے ہیں۔
گوادر پورٹ سے چین کے مغربی حصے کا سفر اور سنگ کیا نگ اور کاشغر کو ملانے کا فاصلہ تین ہزار کلومیٹر ہے، جبکہ چین کی دیگر بندرگاہوں کا فاصلہ نو ہزار کلو میٹر کے قریب ہے۔ اس طرح گوادر پورٹ کا راستہ چین کے مغربی علاقے سے سب سے زیادہ قریب ہے۔ چین کا مغربی حصہ قدرتی وسائل سے مالامال ہے لیکن ان وسائل کو زیر استعمال لانے کے سلسلے میں ماضی میں کوئی خاص کام نہیں ہوا تھا، لیکن اب چین کی نئی قیادت اس علاقے کو ترقی دینے کے سلسلے میں بہت سنجیدہ ہے۔ اسی لئے گوادر پورٹ کا نظم ونسق چین کی ایک معروف کمپنی نے سنبھال لیا ہے اور اس کو مزید ترقی دینے کے سلسلے میں شب وروز کام کررہی ہے۔ گوادر پورٹ سے متعلق میں نے چین کے وائس قونصل جنرل سے حال ہی میں ملاقات کی تھی جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ گوادر پورٹ تین چار سال کے دوران عالمی تجارت کے لئے فعال ہوجائے گی۔ جس کی وجہ سے نہ صرف پاکستا ن اور چین کو فائدہ ہوگا بلکہ وسط ایشیائی راستوں کے مابین تجارتی تعلقات میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوسکتا ہے۔ میاں نواز شریف نے گوادر کا دورہ کر کے چین کی حکومت کو براہ راست یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان کی حکومت اس بندر گاہ کی تعمیر نو کے سلسلے میں سنجیدہ ہے اور اسے جلد فعال بنا کر تمام وسائل
کو بروئے کار لاتے ہوئے اسے جلد عالمی تجارت کے لئے کھولنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ انہوں نے بلوچستان کی حکومت اور عوام کو بھی یہ پیغام دیا ہے کہ وفاقی حکومت اس بندرگاہ کی تعمیر کے ذریعے بلوچستان کی ترقی اور تعمیر کے ضمن میں ایک نئے دور کا آغاز کر چکی ہے۔ چند برسوں میں جب یہ بندرگاہ اپنا کام شروع کردے گی‘ تو بلوچ اور پختون عوام کے لئے ملازمتوں کے نئے دروازے کھل جائے گے، جس کا فی الوقت تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ گوادر پورٹ کو جو رابطہ سڑکیں شاہراہ قراقرم سے جوڑیں گی‘ ان کا بیشتر حصہ بلوچستان سے گزرے گا جو وسیع پیمانے پر روزگار کا ذریعہ ثابت ہوگا۔ ان رابطہ سٹرکوں کی تعمیر کا کام شروع ہوگیا ہے۔شاہراہ قراقرم سے لے کر گوادر پورٹ تک درمیان میں جو بھی ترقیاتی کام ہوں گے اسی کو اکنامک کوریڈور کہتے ہیں ۔
اس موقع پر وزیراعظم میاں نواز شریف نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ ملک کی اقتصادی ترقی اور تعمیر کے ضمن میں سیاسی قیادت اور فوج ایک ہی صف پر کھڑے ہیں۔ یہ دونوں طاقتیں مل کر پاکستان کو ترقی کے جدید ثمرات عطا کریں گی۔ میاں صاحب کا یہ بیان عوام کے لئے خوشی ومسرت کا باعث ہے کیونکہ بعض طاقتیں عسکری اور سیاسی قیادت کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہیں اور چاہتی ہیں کہ ان دونوں کے مابین فاصلے پیدا ہوں اور اس طرح پاکستان عدم استحکام سے دوچار ہو کر ایک ناکام ریاست بن جائے۔ دراصل اس وقت پاکستان خود حالت جنگ میں ہے۔ اس پر اپنوں اور غیروں نے مل کر جنگ جیسی صورت حال مسلط کر رکھی ہے جس کی وجہ سے اقتصادی ترقی شدیدمتاثر ہورہی ہے اور روزگار کے مواقع بھی محدود ہوتے جارہے ہیں۔ جبکہ عوام کے ذہنوں میں جو خوف سرایت کر گیا ہے ‘اس نے سماجی رابطوں اور رشتوں کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ کراچی جیسا شہر جہاں ہر روز اوسطاً آٹھ سے دس افراد دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلر زکے آتشیں اسلحہ کا نشانہ بن جاتے ہیں، ان کی ہنوز روک تھام نہیں ہوسکی ۔ قتل وغارت گری کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ کبھی اس میں بہت تیزی آ جاتی ہے اور کبھی کبھار کمی۔ لیکن کمی والے دن بھی پانچ دس افراد اپنی جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ وزیراعظم صاحب حال ہی میں کراچی بھی آئے تھے اور انہوں نے ایک بار پھر سندھ کی حکومت پر زور دیا تھا کہ ٹارگٹڈ آپریشن بلا امتیاز جاری رکھنا چاہیے اور اس کو منطقی انجام تک پہنچایا جانا چاہیے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم صاحب کی ان تازہ ہدایات پر کس حد تک عمل درآمد ہوتا ہے؟ لیکن محسوس یہ ہورہا ہے کہ یہ سلسلہ رکتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پولیس والے خود دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جارہے ہیں اور وہ خوف زدہ ہو گئے ہیں ، دوسری طرف کراچی میں اس وقت دس پندرہ سیاسی ومذہبی جماعتیں کا م کررہی ہیں لیکن ان کی طرف سے بھی سندھ کی صوبائی حکومت کو دہشت گردی کی کارروائیاں روکنے کے سلسلے میں کوئی خاص تعاون نہیں مل رہا ۔ ایم کیو ایم ایک سال کے بعد دوبارہ پی پی پی کی صوبائی حکومت کے ساتھ شامل ہوگئی ہے، یہ ایک اچھی علامت ہے، ان دونوں جماعتوں کے درمیان قائم ہونے والے اتحاد سے سندھ کے مسائل کو حل کرنے میں بڑی مدد ملے گی لیکن اس کے ساتھ ہی ایم کیو ایم پر اب بھاری ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ کس طرح اور کس حکمت عملی کے تحت کراچی کی رونقوں کو دوبارہ بحال کر سکے گی جبکہ وزارت داخلہ کا محکمہ ان کے پاس نہیں ہے اور کراچی دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے ۔