افغان الیکشن: یونٹی گورنمنٹ یا عبداللہ عبداللہ

افغانستان کے عام انتخابات جو 5 اپریل کو شروع ہوئے تھے، ان کے نتائج کے مطابق سابق وزیرخارجہ عبداللہ عبداللہ کو سب سے زیادہ ووٹ ملے ہیں (44.9 فیصد) ، دوسرے نمبر پر وفیسر غنی رہے جنہیں 31.5فیصد ووٹ ملے ، تیسرا نمبر زلمے رسول کا ہے جن کو 11.5فیصد ووٹ ملے ہیں۔ افغانستان کے آئین کے مطابق اگر کسی صدارتی امیدوار کو 50 فیصد سے کم ووٹ ملتے ہیں تو ان کو دوبارہ انتخاب لڑناہوگا؛چنانچہ آئندہ ماہ جون کے شروع میں صدر کے منصب کے لئے دوبارہ انتخابات ہوں گے جس میں عبداللہ عبداللہ اور پروفیسر غنی حصہ لیں گے اور ان میں سے جو بھی امیدواراس دوسرے مرحلے میں 50 فیصد سے زیادہ ووٹ لینے میں کامیاب ہوگیاوہی افغانستان کا آئندہ پانچ سال کے لئے صدر ہوگا ۔ بظاہر دیکھنے میں یہی آرہا ہے کہ دوسرے مرحلے میں عبداللہ عبداللہ اپنی بھاری اکثریت کی بنا پر 50 فیصد سے زیادہ ووٹ لینے میں کامیاب ہوجائیں گے، لیکن فی الوقت انہیں صدارتی محل تک رسائی میں خاصی رکاوٹیں پیش آرہی ہیں۔ پہلی رکاوٹ تو یہ کہ وہ تاجک ہیں۔ تاجک افغانستان کی سب سے بڑی اقلیت ہیں،وہ ملک کی کل آبادی کا 27 فیصد ہیں ۔اکثریت پختونوں کی ہے جن کاکل آبادی میں تناسب 42 فیصد ہے۔ ہزارہ کمیونٹی کا آبادی میں تناسب 9 فیصد قریب ہے۔ چنانچہ افغانستان جیسے پسماندہ قبائلی معاشرے میں سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ کیا وہ ایک تاجک کواپنا صدرمنتخب کرلیں گے اور اس کو آئندہ پانچ سال کے لئے برداشت بھی کر لیں گے؟ یہ بہت اہم سوال ہے کیونکہ افغان معاشرہ ابھی تک قبائلی بنیادوں پربٹا ہوا ہے ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دوسرے مرحلے کی ووٹنگ میں پروفیسر غنی کوزیادہ ووٹرزکی حمایت حاصل ہوجائے اس لیے کہ وہ پختون ہیں اورکسی زمانے میں ورلڈ بنک کے علاوہ آئی ایم ایف سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ عبداللہ عبداللہ وزیرخارجہ کی حیثیت سے شروع میں حامدکرزئی حکومت کا حصہ رہے۔ صدارتی امیدوار زلمے رسول ( جنہیں 7.1 فیصد ووٹ ملے) اورگل آغا شیراز ی (جنہیں5.1 فیصد ووٹ ملے ) کے حامی عبداللہ عبداللہ کے خلاف اور پروفیسر غنی کے حق میں ووٹ دیں گے تو اس صورت میں موخرالذکر کی کامیابی یقینی ہوگی۔ اس صورت میں افغانستان میں اتحاد ویکجہتی پیدا نہیں ہوسکے گی ؛چنانچہ افغانستان کے ذمہ دارسیاسی حلقوں کی رائے کے مطابق جمہوریت کے استحکام اور افغانستان میںطالبان کے خلاف جاری جنگ کے پس منظر میں ایک یونٹی حکومت کا قیام ضروری ہے ۔اگر اس سوچ پرعمل ہوا تو عبداللہ عبداللہ صدر منتخب قرارپائیں گے ، پروفیسر غنی کو سینئر نائب صدر اور زلمے رسول کو کسی اہم عہدے پر نامزد کیا جائے گا اوردوسرے صدارتی امیدواروںکو بھی اہم عہدے دیئے جائیں گے ۔ امریکہ کی بھی یہی خواہش ہے کہ افغانستان میں ایک یونٹی حکومت کا قیام عمل میںآجائے تاکہ آئندہ طالبان کے خلاف نمایاں کامیابی حاصل کی جاسکے ۔ ہر چند کہ عبداللہ عبداللہ کو امریکہ کی مکمل حمایت حاصل ہے اور صدارتی انتخابات کے دوران کابل میں امریکی لابی ان کے لئے زیادہ متحرک اور فعال ہوکر ان کے حق میں رائے دہندگان کے خیالات کو متاثرکر رہی تھی ۔ واضح رہے کہ عبداللہ عبداللہ افغانستان اور امریکہ کے درمیان دوطرفہ سکیورٹی معاہدے کے زبردست حامی ہیں اور اگر وہ صدر منتخب ہوگئے تو وہ فوراً امریکہ کے ساتھ اس معاہدے پر دستخط کردیں گے جس کے تحت امریکہ کی دس سے پندرہ ہزار فوج افغانستان میں موجود رہے گی اورکم از کم تین امریکی اڈے بھی! پروفیسر غنی اور زلمے رسول بھی امریکہ کے ساتھ دوطرفہ سکیورٹی معاہدے کے حق میں ہیں۔ دوسری طرف حامدکرزئی نے امریکہ کے ساتھ دوطرفہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا اور اس انتہائی حساس معاملے کو آئندہ صدرکی صوابدید پر چھوڑ دیا تھا۔ کرزئی کے اس رویے کی بنا پر امریکہ اورکرزئی کے باہمی تعلقات بہت متاثر ہوئے تھے۔ امریکی صدر بارک اوباما نے تو ان کے ساتھ بات چیت کرنا بھی بند کردی ہے۔
تاہم دوسرے مرحلے میں صدارتی امیدوار کے لئے انتخابات سکیورٹی کے نقطہ نظر سے اتنی آسانی سے نہیں ہو پائیں گے کیونکہ اس دفعہ طالبان ایک بار پھر شدت کے ساتھ دہشت گردی پھیلا کرانتخابات کو سبو تاژ کرنے کی کوشش کریں گے جیسے حال ہی میں دیکھنے میں بھی آیا ہے ۔ یقیناً یہ صورت حال افغان عوام اور امریکہ کے لئے گہری تشویش کا باعث بنے گی۔ 5 اپریل کو ہونے والے انتخابات تقریباً پرامن رہے تھے، دہشت گردی کے چند واقعات ہی رونما ہوئے۔ یہ انتخابات اس لئے پر امن طور پر منعقد ہوئے کیونکہ پاکستان نے پاک افغان سرحدوں کو سیل کردیا تھا، پاکستانی طالبان تمام تر کوشش کے باوجود افغانستان میں داخل نہیں ہوسکے ، اس طرح انہیں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے کا موقع نہیں مل سکا۔ اس کے علاوہ پاکستان 5اپریل کے انتخابات میں بالکل غیر جانبدار رہا، اس کا کوئی بھی پسندیدہ صدارتی امیدوار نہیں تھا ۔ پاکستان کی اس غیر جانبداری کی وجہ سے بھی افغانستان میں پر امن انتخابات ہوئے ۔ پاکستان کے اس رویے کی عالمی برادری نے بڑی تعریف کی ، پاکستان ان چند ممالک میںسے ایک ہے جو چاہتا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی کچھ فوج موجود رہے۔ سب جانتے ہیں کہ امریکہ اور نیٹو فورسز دسمبر2014ء میں افغانستان سے چلی جائیں گی جس کے بعد یقیناً افغانستان کی سکیورٹی سے متعلق بہت سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں، اور کیونکہ امریکہ، طالبان اور افغانستان کے مابین کسی قسم کا کوئی امن سمجھوتہ موجود نہیں ہے، اس لئے اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ طالبان اپنی جنگ جاری رکھیں گے جس کی وجہ سے افغانستان میں پائیدارامن قائم نہیں ہوسکے گا ۔اس صورت میں پاکستان کے لئے بھی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان جلد از جلد پاکستانی طالبان سے نمٹنا چاہتا ہے چاہے مذاکرات کے ذریعے یا پھر طاقت کے ذریعے ۔
دوسری طرف افغانستان کی نیشنل آرمی جو ڈھائی تین لاکھ جوانوں پر مشتمل ہے، اس قابل نہیں ہے کہ طالبان کی گوریلا جنگ کا موثر طورپر مقابلہ کرسکے نیز اس کو طالبان سے مقابلہ کرنے کے لئے جدید ہتھیاروں کی بھی ضرورت ہے جو اس کو (ایک مستند اطلاع کے مطابق) بھارت اور روس سے ملنے والے ہیں ؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ افغان آرمی کو جو چھوٹے بڑے ہتھیار روس کے توسط سے ملیں گے ان کے تمام اخراجات بھارت برداشت کرے گا۔اس کے علاوہ بھارت کے چند سینئر افسر افغان آرمی کوتربیت دینے کے سلسلے میں افغانستان میں موجود ہیں ۔ ابھی حال ہی میں افغان آرمی کے 60سے زیادہ سینئر فوجیوں نے بھارت کے صوبے راجستھان میں ہونے والی فوجی مشقوں میںحصہ بھی لیا تھا ۔ اس طرح بھارت کا افغانستان کے معاملات میں اثرو رسوخ بڑھتا جا رہا ہے جو پاکستان کے لئے تشویش کا باعث بنے گا۔ اگر عبداللہ عبداللہ صدر بن جاتے ہیں تو ان کا جھکائو بھارت کی طرف ہوگا جو پاکستان کی افغانستان سے متعلق خارجہ پالیسی کے سلسلے میں زبردست چیلنج کا باعث بنے گا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں