بھارت کی ایک چھوٹی سی ریاست گجرات میں دس برس وزیراعلیٰ رہنے کے بعد اب نریندر مودی بھارت کے وزیراعظم بن جائیں گے کیونکہ ان کی پارٹی بی جے پی اوراس کی اتحادی جماعتیں بھاری اکثریت سے جیت گئی ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ میں نے بھارت کے انتخابات کے سلسلے میں '' دنیا ‘‘ میں کئی کالم لکھے تھے جن میں پیشین گوئی کی گئی تھی کہ ان انتخابات میں بی جے پی جیت جائے گی اور نریندر مودی آئندہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر براجمان ہوںگے۔ میری طرح اور بھی بہت سے کالم نویسوں نے بھارت کے انتخابات سے متعلق اسی قسم کے تجزیے کئے تھے۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ کانگریس پارٹی جوگزشتہ دس برس بھارت میں حکومت کرتی رہی، اس کے ابتدائی چند سال تو بھارت کے عوام اور معیشت کے حوالے سے نہایت عمدہ تھے، معاشی ترقی 7 اور8 فیصدکے درمیان تھی نیز غیر ملکی سرمایہ کار بڑی تعداد میں بھارت میں سرمایہ کاری کررہے تھے ۔ یہ سب کچھ بھارت کے وزیراعظم من موہن سنگھ کی کھلی اقتصادی پالیسیوں کا نتیجہ تھا، لیکن آخری تین برسوں کے دوران کانگریس کی اقتصادی پالیسیاںعالمی منڈی کے تقاضوں کا مقابلہ نہ کرسکیں اورکانگریس کے بعض وزرا پرکرپشن کے الزامات لگنے لگے (جو کہ حقیقت پر مبنی تھے) جبکہ من موہن سنگھ ان وزرا کے خلاف کسی بھی قسم کی تادیبی کارروائی کرنے سے قاصرتھے۔
بی جے پی نے اس صورت حال سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اورکانگریس پر ہر جانب سے تنقید کرکے بھارتی عوام کی نظروں
میں ان کی پوزیشن کو انتہائی کمزوراور مشکوک بنادیا۔ وزارت عظمیٰ کے لیے کانگریس کے نامزد امیدوارراہول گاندھی ( اندرا گاندھی کے پوتے ) انتخابی مہم زیادہ پرجوش انداز میں نہ چلا سکے ۔ حقیقت یہ ہے کہ کانگریس کے تمام رہنمائوں نے اپنی نجی محفلوں میں بہت پہلے اپنی شکست کا اعتراف کرلیا تھا ۔ کانگریس کے منشورمیں ایسی کوئی پرکشش بات نہیں تھی جس کی بنیاد پر بھارتی جنتا انہیں ووٹ دے کر کامیاب کراتی ۔ رہا سوال سیکولرازم کا ‘تو اب بھارتی عوام میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور اقلیتوں کے خلاف انتہاپسند ہندوئوں کے بھڑکتے اور سلگتے ہوئے جذبات کے سامنے اس فلسفے کی کوئی اہمیت نہیں رہی ۔کانگریس پارٹی جو اپنے آپ کو سیکولر جماعت کہتی ہے بلکہ کسی حد تک اس پر عمل پیرا بھی ہے، اس کے دور میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو بغیرکسی وجہ کے بڑی تعداد میں قتل کیا گیا۔ چنانچہ کسی حد تک مسلمان اور عیسائی بھی کانگریس سے ناراض ونالاں تھے، انہوں نے بھی بی جے پی کو ووٹ دیا ؛ تاہم مسلمانوں کی اکثریت نے کانگریس کے علاوہ علاقائی پارٹیوں کے حق میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔
اس وقت بھارت میں انتہا پسند ہندو، بی جے پی کی قیادت میں انتخابات جیتنے کا جشن منارہے ہیں۔ ان میں وہ سرمایہ دار پیش پیش ہیں جنہوں نے مودی کی انتخابی مہم میں اربوں روپے کا چندہ دیا تھا ؛ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ نریندر مودی کے وزیراعظم بن جانے کی صورت میں بھارت کی خارجہ پالیسی‘ خصوصیت کے ساتھ پاکستان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیا ہوسکتی ہے؟ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ نریندر مودی سے پاکستان کے لئے کسی اچھائی کی امید رکھنا عبث ہے کیونکہ اس نے اپنے انتخابی جلسوں میں پاکستان کے لئے جو الفاظ استعمال کئے‘ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئندہ بھارت اور پاکستان کے درمیان خوشگوار تعلقات پیدا نہیں ہوسکیں گے۔ بعض بنیادی امور مثلاً کشمیر، سرکریک اور سیاچن کے مسئلے پر نہ صرف ان کے مابین تنائو موجود رہے گا بلکہ ہوسکتا ہے کہ مودی پاکستان کے خلاف کسی قسم کی مہم جوئی کر بیٹھے۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا وزیراعظم بننے کے بعد وہ اپنے آپ کو قابونہ رکھ سکیں،اس لیے کہ ان کے اردگرد بی جے پی کے انتہا پسند عناصر جمع ہوگئے ہیں جو انہیں پاکستان کے خلاف اکساتے رہیں گے۔ آئندہ اس قسم کی صورت حال پاکستان کے لئے نہ صرف تشویش کا باعث ہوسکتی ہے بلکہ پاکستان کی ڈپلومیسی کے لئے ایک زبردست چیلنج بھی۔ اس سے قبل پاکستان کے مشیر برائے نیشنل سکیورٹی جناب سرتاج عزیز نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ پاکستان وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ پاک بھارت تعلقات کو بہتر بنانے کے سلسلے میں کام کرسکتا ہے، لیکن سرتاج عزیز صاحب کی ان خواہشات کا نریندر مودی کی جانب سے کوئی معقول جواب نہیں آیا؛البتہ ان کے کچھ نمائندے پاکستان آئے تھے جنہوں نے پاکستان کے ذمہ داروں کو یقین دلایا کہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارت بڑھانا چاہتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان خیالات میں کوئی صداقت ہو؛ تاہم مودی بی جے پی کے ساتھ ساتھ مسلمان دشمن اور انتہا پسند ہندو تنظیم آر ایس ایس کے بھی گزشتہ پچاس برس سے سرگرم رکن ہیں۔ اسی تنظیم کے اشارے پر انہوں نے 2002ء میں گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کرایا تھا اور اسی تنظیم کے ایما اور اشارے پر اجودھیا میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا تھا جس میں سینکڑوں مسلمانوں کو انتہا پسند ہندوئوں نے بڑی بے دردی سے شہید کردیا تھا۔ نریندر مودی کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور ان کے انتخابی جلسوں میں کی جانے والی تقریروں سے پاکستان کے لئے کسی قسم کی نرمی کا اظہار نہیں ہوا۔
پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے انہیں عام انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کرنے پر مبارک باد دی ہے اورانہیں پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت بھی دی ہے۔ اسی قسم کی دعوت میاں صاحب نے سابق وزیراعظم من موہن سنگھ کو بھی دی تھی لیکن بعض وجوہ کی بنا پر وہ پاکستان نہیں آسکے تھے، اب دیکھنا یہ ہے کہ نریندر مودی پاکستان کا دورہ کرتے ہیں یا نہیں ؟ تاہم بھارت کے اندرونی حالات یہ بتارہے ہیں کہ وہ اس سال پاکستان کا دورہ نہیں کرسکیں گے کیونکہ انہیں بحیثیت وزیراعظم‘ بھارت کے مجموعی حالات کو سمجھنے میں بہت سا وقت لگ سکتا ہے،وہ اس کے بعد ہی پاکستان یا کسی دوسرے ملک کا دورہ کرسکیں گے۔
بہرحال 1984ء کے بعد پہلی مرتبہ بھارت میں انتہا پسند ہندو جماعت بی جے پی کی صورت میں ایک ایسی حکومت تشکیل پانے جارہی ہے جس کو حکومت بنانے کے لئے لوک سبھا میں کسی دوسری جماعت کی ضرورت نہیں ہوگی۔ بھارتی الیکشن کمیشن کے مطابق بی جے پی کو لوک سبھا میں 272 نشستیں حاصل ہوچکی ہیں جبکہ اگر ان کے اتحادیوںکو شامل کیا جائے تو ان کی 543 کے ہائوس میں 330 نشستیں بن رہی ہیں۔ اس صورت حال کے پیش نظر وہ ایک طاقت ور وزیراعظم بن کر ابھر رہے ہیں؛ چنانچہ دیکھنا یہ ہے کہ ان کا رویہ پڑوسی ملکوں کے علاوہ خود بھار ت کی اقلیتوں کے ساتھ کیسا رہے گا ۔