حسینہ واجد روز اوّل ہی سے پاکستان سے سخت ناراض ہیں۔ وہ ہر معاملے میں بھارت کو پاکستان پر ترجیح دیتی ہیں، حالانکہ جس پس منظر میں وہ پاکستان دشمنی کا مظاہرہ کر رہی ہیں، اس سے ان کی واقفیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان سے متعلق جو باتیں انہیں بتائی گئی ہیں، وہ بھارت کی سازش کا نتیجہ ہے۔ بہرحال، سیاست میں اختلافات ہوتے رہتے ہیں، لیکن دشمنی نہیں ہوتی‘ نہ ہی کوئی ملک محض نفرت اور عداوت کی بنا پر اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے، لیکن حسینہ واجد یہ سب کچھ پاکستان کے خلاف بھارت کے تعاون اور اشتراک سے کر رہی ہیں۔ ان کا غصہ پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش کی حزب اختلاف کی جماعتوں پر بھی اتر رہا ہے اور وہ ان پر عرصہ حیات تنگ کرنے میں کسی اخلاقی قدر کو خاطر میں نہیں لاتیں۔ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی طرز حکومت کس طرح کی ہے اور کیسا کام کر رہی ہے‘ اس کے بارے میں شمالی امریکہ کے کالم نویس اور دانشور احتشام الدین ارشد‘ جو حال ہی میں بنگلہ دیش کا دورہ کرنے کے بعد کراچی آئے ہیں‘ نے کراچی کے صحافیوں کو بتایا ہے کہ وہاں انسانی حقوق نام کی کوئی چیز نہیں، یہاں تک کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کو احتجاج کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی، اگر کوئی اس حوالے سے جسارت کرتا ہے تو حسینہ واجد کی ذاتی پولیس ان کے ساتھ انسانیت سوز برتائو کرکے انہیں گھروں تک محدود کر دیتی ہے۔ یہاں تک کہ سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا (جو اس وقت بنگلہ دیش کی حزب اختلاف کی رہنما ہیں) کو اگر اپنے بیٹے سے سیاسی معاملات پر گفتگو کرنا ہوتی ہے تو وہ اپنی کار میں بیٹھ کر ان سے باتیں کرتی ہیں کیونکہ ان کے گھر کو ہر طرف سے ''بگ‘‘ کر دیا گیا ہے، جبکہ ''را‘‘ کا ایک اہم دفتر بھی ڈھاکہ میں کام کر رہا ہے‘ جو جماعت اسلامی کے کارکنوں کے علاوہ پاکستان دوست افراد کو خفیہ طور پر قتل کراتا ہے تاکہ یہاں پاکستان کا اثرورسوخ بڑھنے نہ پائے۔ ان کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کر کے جیلوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے۔ حسینہ واجد کو بھارت کے ساتھ دوستی اور غیرمعمولی اشتراک کی قیمت بھی ادا کرنا پڑ رہی ہے اور ندامت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بھارت نے دریا ٹیسٹا (Teesta) جس پر ایک بیراج بنا ہوا ہے، کا سارا پانی اپنی طرف موڑ لیا ہے، جس کی وجہ سے بنگلہ دیش کی فصلیں تباہ ہو رہی ہیں اور اس کے کسانوں میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ان کسانوں نے عوامی لیگ کی حکومت کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اس دریا کے پانی کو منصفانہ طور پر بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان تقسیم کیا جانا چاہئے۔ حسینہ واجد نے اس دبائو کے پیش نظر بھارت سے پانی کے اس سنگین مسئلہ پر دو طرفہ بات چیت کرنے کا مطالبہ کیا، لیکن دوسری جانب سے ان کی درخواست کو درخور اعتنا نہیں سمجھا گیا‘ اس طرح صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ بنگلہ دیش کے کسانوں اور عوام کے لیے پریشانیوں کا سبب بن رہی ہے۔ اس دریا کے پانی کے حصول کے لیے بنگلہ دیش کی کمیونسٹ پارٹی نے حال ہی میں لانگ مارچ کیا اور بھار ت کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ حسینہ واجد کی بھارت نواز پالیسیوں سے بنگلہ دیش کے عوام کی اکثریت کا کوئی تعلق نہیں‘ نہ ہی وہ اس کی حمایت کرتے ہیں۔ دوسری طرف بنگلہ دیش کی حزب اختلاف کی اکیس جماعتوں نے اپنے اخباری بیان میں ٹیسٹا دریا کے پانی سے متعلق بھارت کی ہٹ دھرمی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حسینہ واجد سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ 2011ء میں اس دریا کے پانی سے متعلق سمجھوتے پر بھارت سے عمل درآمد کرائے تاکہ بنگلہ دیش کو اس کے حصہ کا پانی مل سکے، لیکن حسینہ واجد ایسا نہیں کرا سکتیں کیونکہ اگر انہوں نے بھارت کو ایسا کرنے پر مجبور کیا تو وہ اقتدار سے محروم ہو سکتی ہیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر بنگلہ دیش کے عوام میں بھارت کے خلاف سخت نفرت پائی جا رہی ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق بنگلہ دیش میں ''را‘‘ کے ایجنٹ ایسے افراد کو قتل کرا دیتے ہیں‘ جو بھارت کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں یا اخباری بیان دیتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس وقت بنگلہ دیش پر بھارت کی مکمل حاکمیت قائم ہو چکی ہے، وزارت دفاع، محکمہ خارجہ اور وزارت داخلہ میں باقاعدہ بھارت کے افسران موجود ہوتے ہیں‘ جو حسینہ واجد کو بنگلہ دیش کی آئندہ پالیسیوں سے متعلق ہدایات دیتے رہتے ہیں‘ نیز بنگلہ دیش کی مارکیٹوں میں بھارت کا مال چھایا ہوا ہے، اگر کوئی بنگلہ دیشی پاکستان سے اعلیٰ کوالٹی کا سامان درآمد کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کسٹم کے حکام اس کی سختی سے حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور رشوت لے کر اس کا مال کلیئر کرتے ہیں۔ اس طرح حسینہ واجد کی بھارت نواز حکومت کے ان طور طریقوں سے بنگلہ دیشی عوام بہت زیادہ ناراض ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان بھی ہیں کیونکہ عوام کے معاشی حالات میں کوئی فرق نہیں آیا۔ کچھ باہمت بنگلہ دیشی یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ہم متحدہ پاکستان میں بہت خوش تھے، بھارت نے شیخ مجیب کے ذریعہ اس کو پاکستان سے علیحدہ کرایا تھا‘ جس میں لاکھوں مسلمان مارے گئے لیکن کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی بلکہ غربت اور افلاس میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہماری آزادی چھن چکی ہے۔ ان حالات میں احتشام الدین ارشد کا تجزیہ ہے کہ حسینہ واجد کی حکومت زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکتی، عوام کے دلوں میں اس حکومت کے خلاف لاوا پک رہا ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ دوسری طرف بنگلہ دیشی عوام میں پاکستان کے خلاف عمومی طور پر نفرت نہیں پائی جاتی‘ ماسوائے عوامی لیگ کے کارکنوں کے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جب پاکستان نے ٹی ٹونٹی کرکٹ میچ میں بھارت کو ہرا دیا تھا تو اسٹیڈیم میں موجود بنگلہ دیشی عوام نے زبردست تالیاں بجا کر پاکستان کی حمایت کی تھی۔ اس میچ کے بعد شاہد آفریدی بنگلہ دیشی عوام کا ہیرو بن گیا ہے۔ ایک اور اہم بات جو احتشام الدین نے بتائی‘ یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں اردو زبان ''زیر زمیں‘‘ پھل پھول رہی ہے حالانکہ بنگلہ دیش کی حکومت کی طرف سے اردو زبان کے فروغ اور ترقی کے سلسلے میں کسی بھی قسم کی پالیسی رائج نہیں‘ نہ ہی اردو سے متعلق کسی قسم کی ہمدردی پائی جاتی ہے۔ اس کے باوجود وہاں ہر سال مشاعرے کا انعقاد ہوتا ہے‘ خصوصیت کے ساتھ سید پور میں‘ جس میں بڑی تعداد میں اردو بولنے والے شرکت کرتے ہیں۔ ان مشاعروں میں جہاں بہترین غزلوں کے ذریعہ ہجرووصال کی کیفیت بیان کی جاتی ہے‘ وہاں مشاعرے کے اختتام پر باہمی گفتگو میں حکومت کی بھارت نواز پالیسیوں کی کھل کر مذمت بھی کی جاتی ہے‘ اس طرح بنگلہ دیش میں اردو زبان عوام کے تعاون سے زندہ ہے اور ترقی کر رہی ہے اور پاکستان کے ساتھ محبت کے اظہار کا ذریعہ بن رہی ہے۔ ایک اور بات جو احتشام الدین نے کہی‘ اس کا تعلق محصورین بنگلہ دیش سے ہے، جو انتہائی تکلیف دہ بلکہ غیرانسانی حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں، لیکن انتہائی ناسازگار حالات کے باوجود ان کے دلوں میں پاکستان کے لیے محبت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ حسینہ واجد کو ان محصورین کی یہی بات ناگوار گزرتی ہے اور وہ کہتی ہیں کہ اگر یہ لوگ بنگلہ دیش سے محبت کریں اور اس کی شہریت قبول کر لیں تو ان کی زندگیوں میں بہتری اور خوشحالی آ سکتی ہے، لیکن ان محصورین کو یہ بات منظور نہیں، وہ ایک نہ ٹوٹنے والی امید کے سہارے جی رہے ہیں کہ ایک نہ ایک دن وہ پاکستان ضرور جائیں گے‘ جس کے لئے انہوں نے ہر طرح کی قربانیاں دی ہیں، محصورین کی پاکستان کے ساتھ محبت کے اس جذبے کو سلام پیش کرنا چاہیے۔