وزیراعظم بھارت نہ جائیں!

پاکستان کی وزارت خارجہ نے وزیراعظم میاںنوازشریف کو نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت قبول کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ہوسکتا ہے جب یہ کالم شائع ہو، میاں صاحب بھارت جانے کی تیاری کر رہے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ بھارتی حکومت سے معذرت کرلیں جیسے بھارت نواز بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد نے کی ہے۔ اگر نواز شریف حلف برداری کی تقریب میں شرکت کریں گے تو اس کی وجہ سے نہ صرف ان کا بلکہ پاکستان کا مفاد مجروح ہوگا کیونکہ بھارتی حکومت نے نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں سارک تنظیم کے تمام سربراہوں کو مدعوکیا ہے جس کا مقصد یہ تاثر دینا ہے کہ بھارت خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے۔ بھارتی حکومت نے بڑی چالاکی اور عیاری سے پاکستان کے وزیراعظم کو حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی اوراس طرح پاکستان کو سارک تنظیم کے دیگر ممالک کی صفوںمیں لاکھڑا کیا حالانکہ اقتصادی، سماجی اور فوجی طاقت کے اعتبار سے پاکستان کا سارک کے چھوٹے ممالک سے کوئی مقابلہ نہیں، اس کی مسابقت اس خطے میں صرف بھارت کے ساتھ ہے۔ پاکستان کے کئی تنازعات بھارت کے ساتھ تصفیہ طلب ہیں جو بہت اہمیت کے حامل ہیں اور ان میں سرفہرست مسئلہ کشمیر ہے۔
اگر میاں نواز شریف نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب 
میں شرکت کے لئے چلے جاتے ہیں تو وہ خود بھی دوسرے سارک ممالک کے سربراہان کے درمیان اپنے آپ کو غیر آسودہ (Uncomfortable) محسوس کریں گے کیونکہ اس موقعے پر توجہ کا مرکز صرف نریندرمودی ہوںگے اور غالباً بھارتی حکومت جان بوجھ کر میاںنوازشریف کی موجودگی کوخاطر خواہ اہمیت نہیں دے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم نوازشریف بھارت کے ساتھ اچھے تجارتی اور اقتصادی تعلقات قائم کرناچاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مئی 2013ء کے عام انتخابات جیتنے کے بعد بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کو اپنی تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت دی تھی، لیکن وہ نہیں آئے تھے اور معذرت کرلی تھی۔ من موہن سنگھ دس برس بھارت کے وزیراعظم رہے لیکن انہوں نے پاکستان کا دورہ نہیں کیا، ان کی خواہش تھی کہ وہ پاکستان میں اپنی جنم بھومی دیکھیں اور روحانی مسرت حاصل کریں لیکن اپنی تمام تر خواہشات کے باوجود انہوں نے پاکستان کا سرکاری دورہ کیا نہ نجی دورے پر آئے۔ ان کی طرف سے دورہ نہ کرنے کی راہ میں ممبئی کے حملے بھی حائل رہے جن کے بارے میں وہ اکثر تبصرہ بھی کیا کرتے تھے؛ البتہ انہوںنے شرم الشیخ ( مصر ) 
میں بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کے دوران یہ ضرورکہا تھا کہ ممبئی حملوں کا واقعہ پاکستان اور بھارت کے درمیان رکاوٹ نہیں بننا چاہئے، لیکن اس کے باوجود بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات میںکوئی خاص گرمجوشی دیکھنے میں نہ آ سکی۔ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت میں ضرور اضافہ ہوا لیکن اس کا فائدہ صرف بھارت کو پہنچا ۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان اس وقت دو بلین ڈالرکی تجارت ہورہی ہے۔ اس پس منظر کے باوجود اگر میاں نواز شریف بھارت کا دورہ کرنا چاہتے ہیں تو ضرورکریں لیکن بظاہر انہیں اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور نہ ہی اس موقعے پر پاک بھارت تعلقات کے بارے میں کوئی اہم بات چیت ہوسکے گی۔
اگر بھارتی حکومت اور ان کے وزیراعظم نریندرمودی پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانا چاہتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ کسی اور موقعے پر وزیراعظم پاکستان کو بھارت کا دورہ کرنے کی دعوت دیں تاکہ اطمینان سے ملاقات ہو اور سکون کے ساتھ پاک بھارت تعلقات پر تبادلہ خیال کرکے ان میں بہتری لانے کی کوشش کی جائے۔ پاکستان بھارت کے ساتھ اچھی ہمسائیگی کے تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے، لیکن وہ ان مسائل کو نظرانداز نہیں کرسکتا جودونوں ملکوں کے مابین کشیدگی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ بھارت کو سوچنا چاہئے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کی راہ میں جو مسائل حائل ہیں، ان پر سنجیدہ غوروفکر کرکے ان کا مثبت حل تلاش کیا جائے۔ اگر اس سوچ کے ساتھ وزیراعظم پاکستان اپنے دوستی کے سفرکا آغازکرتے ہیں تو دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کے آثار پیدا ہوسکتے ہیں، ورنہ امن کی فاختہ یونہی زخمی رہے گی۔
ایک دوسرے زاویے سے دیکھیں تو نریندرمودی کو اس وقت کئی دوسرے مسائل درپیش ہیں جن میں چین کے ساتھ سرحدی تنازع ان کے لئے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھنا ہے کہ وہ کس طرح بھارت کی کمزور معیشت کو سنبھال کر آگے لے جائیں گے؟ کیا وہ سرمایہ دار جنہوں نے ان کے انتخاب میں اربوںروپے کا چندہ دیا ہے، وہ ان سے معاشی مراعات کا تقاضا نہیں کریں گے؟کیا نریندرمودی خود بھی ان کے احسانات کا بدلہ نہیں چکائیں گے؟غالباً وہ ایسا کریں گے، یقیناً ان سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مفادات کا ضرور خیال رکھیں گے تاکہ ان کا اقتدار نہ صرف قائم رہے بلکہ مضبوط بھی ہو۔
جہاں تک بھارت کے عوام کا تعلق ہے، انہیں دوطرح کے مسائل شدت کے ساتھ تنگ کررہے ہیں ۔۔۔۔ پہلا غربت کا اور دوسرا اقلیتوں کی محرومی کا۔ موخرالذکر مسئلے میں مسلمان سرفہرست ہیں ۔کیا نریندر مودی اپنی ماضی کی سوچوں میں کوئی تبدیلی لاسکتے ہیں جس میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے خون سے ان کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں؟ دوسری طرف ان کے گرد انتہا پسند ہندوئوں نے گھیرا ڈال رکھا ہے جو پاکستان کے لئے مخاصمانہ رویہ رکھتے ہیں۔ یہ بڑے اہم سوالات ہیں جن پر آئندہ پاک بھارت تعلقات کا انحصار ہوگا۔ میری رائے میں میاں صاحب کو حلف برداری کی تقریب میں شرکت نہیں کرنی چاہئے بلکہ ان کو معذرت کرلینی چاہئے کیونکہ چند گھنٹے کی ملاقات میں پاکستان بھارت تعلقات میںنہ توکوئی بہتری آسکتی ہے اور نہ ہی اس کی توقع کرنی چاہئے :
ساغر ہے ابھی شہر میں آشوب کا موسم
آنکھوں میں نئے خواب سجانا کوئی دن اور

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں