جرم ضعیفی کی سزا

میں نے اپنے گزشتہ کالم میں بڑی وضاحت سے لکھا تھا کہ میاں نواز شریف کو نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت نہیں کرنی چاہیے، میں اپنے اس موقف پر اب بھی قائم ہوں کیونکہ اس تقریب میں شرکت اور نریندر مودی سے پچاس منٹ بات چیت کرنے کے بعد یہ تاثر سامنے آیا ہے کہ وہ (مودی) پاکستان کو زیادہ اہمیت نہیں دینا چاہتے بلکہ اسے سارک تنظیم کے دیگر ممالک کی حیثیت میں دیکھنا چاہتے ہیں (میں نے یہی لکھا تھا) اور واقعتاً وزیر اعظم پاکستان کے ساتھ سارک تنظیم کے ممالک جیسا سلوک کیا گیا۔ بھارت کی سیکرٹری خارجہ نے نیوز بریفنگ میں پاکستان کو سارک تنظیم کا ایک ملک قرار دیا‘ جس کے ساتھ کچھ تنازعات ہیں۔ اسی وجہ سے میں نے اپنے کالم میں میاں صاحب سے گزارش کی تھی کہ وہ کسی اور موقعے پر بھارت کا دورہ کریں تاکہ مودی کے ساتھ اطمینان سے دونوں ملکوں کے تعلقات سے متعلق بات چیت ہو سکے، لیکن وزارت خارجہ اور وفاقی کابینہ کے بعض وزرا نے انہیں بھارت جانے کا مشورہ دیا کہ شاید باہمی تعلقات میں کوئی بریک تھرو ہو سکے۔ مگر بریک تھرو تو ایک طرف، مودی نے میاں صاحب کے ساتھ ملاقات میں پانچ مطالبات پیش کر دیے‘ جن میں ممبئی کے افسوسناک واقعے کا حوالہ بھی شامل تھا۔ یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ پاکستان اپنی سرزمین کو بھارت کے خلاف استعمال نہیں کرنے دے گا، بالفاظ دیگر الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ میاں صاحب یہ سب کچھ سنتے رہے۔ ان میں ہمت نہیں تھی کہ وہ دو ٹوک جواب دیتے ہوئے کہتے کہ مودی صاحب آپ کی خفیہ ایجنسیاں بلوچستان، فاٹا اور کراچی میں مداخلت کرکے پاکستان کے اندر افراتفری کا باعث بن رہی ہیں، پہلے آپ ان کو روکیں، بعد میں پاکستان پر بھارت کے اندر مداخلت کرنے کے الزام عائد کریں۔ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی ٹیم کو بھارت جانے سے قبل امید تھی کہ وہاں ان سے برابری کی سطح پر بات چیت ہو گی، لیکن بھارت نے اپنی پہلے سے تیار شدہ حکمت عملی کے تحت وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی ٹیم کو سارک تنظیم کے دیگر ممالک کی صف میں کھڑا کر دیا اور اسی طرح کا ان کے ساتھ برتائو بھی کیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ بھی بھارت پاکستان کے ساتھ اسی قسم کا سلوک روا رکھے گا۔ شاید میاں صاحب کو خوش فہمی تھی کہ ماضی میں ان کے بی جے پی کی قیادت خصوصاً اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ اچھے ذاتی مراسم تھے، اس لیے نریندر مودی بھی ان کے ساتھ اسی پس منظر میں اچھا سلوک کریں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ تاریخ کی یہ تلخ حقیقت سامنے آئی کہ ذاتی مراسم ملکوں کے درمیان کبھی خوشگوار تعلقات کے ضامن نہیں ہوا کرتے‘ ان تعلقات کا انحصار مفادات پر ہوتا ہے۔ جہاں تک بھارت اور پاکستان کے درمیان دائمی اور پائیدار امن کے قیام کا تعلق ہے، نریندر مودی کی حکومت اس سلسلے میں بات چیت کرے گی لیکن نریندر مودی، واجپائی نہیں ہیں۔ وہ ایک انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے نصف صدی تک سرگرم رکن رہے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت و عداوت ان کی نفسیات کا حصہ بن چکی ہے۔ مودی صاحب کے تعلقات شیو سینا سے بھی ہیں، یہ دونوں مسلم دشمن انتہا پسند تنظیمیں مودی کے حلقہ احباب میں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ شیو سینا کے موجودہ سربراہ اودے ٹھاکرے (بال ٹھاکرے کا بیٹا) نے اپنے ایک بیان میں نریندر مودی کو مشورہ دیا ہے کہ ''اگر پاکستان اپنا رویہ نہ بدلے تو اس پر ایٹم بم گرا دیا جائے‘‘۔ پاکستان کے خلاف یہ انتہا پسندانہ سوچ مودی کی حکومت کی خارجہ پالیسی کا اہم ستون رہے گی۔
پاک بھارت تعلقات کے سلسلے میں مجھے پاکستان کی موجودہ حکومت کے رویے پر بہت دکھ ہوا ہے جو گر کر بلکہ انتہائی کمزوری کا مظاہرہ کر کے بھارت سے امن کی بھیک مانگ رہی ہے‘ حالانکہ امن بھیک مانگنے سے نہیں بلکہ طاقت سے حاصل ہوتا ہے۔ بھارت کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ پاکستان اندر سے گہرے خلفشار کا شکار ہے، اس لئے اس کے ساتھ فوری طور پر نہ تو تعلقات قائم کئے جائیں اور نہ ہی اسے یہ یقین دلایا جائے کہ بھارت ماضی کی تلخیوں کو فراموش کرکے آگے کی طرف قدم بڑھانے کا خواہش مند ہے یا اعلان لاہورکی سپرٹ کو دوبارہ زندہ کرے گا۔ اس کے برخلاف نریندر مودی نے میاں صاحب کے خیرسگالی پر مبنی دورے کو اپنی طرف سے پانچ مطالبات پیش کرکے تلخی میں تبدیل کر دیا۔ شاید میاں صاحب اور ان کی ٹیم کو یہ امید نہیں تھی کہ مودی صاحب اس خوشگوار موقعے پر اس قسم کا رویہ اختیار کریںگے، لیکن ایسا ہوا اور پاکستان کو یہ پیغام دیا گیا کہ بھارت اب گلوبل پاور بننے جا رہا ہے، پاکستان کا اس سے نہ تو کوئی مقابلہ ہے اور نہ ہی وہ پاکستان کو برابری کی سطح پر لا کر مذاکرات کرنے کا خواہش مند ہے۔ مودی حکومت کا آئندہ پاکستان کے ساتھ برتائو سارک تنظیم کے دیگر ممالک کے مساوی ہو گا اور یہ سب کچھ ہماری اپنی غلطیوں کا نتیجہ ہے حالانکہ ہم بھارت کی طرح ایک ایٹمی پاور ہیں۔
یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ اس دورے سے پاکستان کو کیا فائدہ پہنچا؟ اور کیا بھارت میں اگر ممبئی جیسا واقعہ دوبارہ رونما ہوتا ہے تو مودی پاکستان کے ساتھ جنگ کرنے میں پہل نہیں کریں گے؟ یہ بڑے اہم سوالات ہیں؟ اس کا صرف ایک ہی جواب ہے کہ پاکستان کی حکومت اور دیگر اہم اداروں کو مل کر پاکستان کو طاقت ور بنانے کی جنگی بنیادوں پر کوشش کرنی چاہیے اور معیشت کو مضبوط و مستحکم خطوط پر کھڑا کرنے کے سلسلے میں تمام وسائل بروئے کار لا کر معاشرے میں حقیقی معنوں میں سدھار پیدا کرنے کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ پاکستان کا سب سے بڑا اندرونی مسئلہ لا اینڈ آرڈر اور اچھی حکمرانی کا ہے۔ اگر پاکستان اپنے اندرونی معاملات درست کر لیتا ہے تو بھارت کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات چیت کر سکے گا‘ لیکن اگر حالات یونہی خراب و خستہ رہے اور معیشت میں کوئی نمایاں ترقی نہ ہوئی تو بھارت اس صورت حال سے بھرپور فائدہ اٹھائے گا اور اس کا برتائو ہمارے ساتھ اچھا نہیں ہو گا۔ نریندر مودی کے دل میں پاکستان کے خلاف زہر بھرا ہوا ہے، اس نے اپریل‘ مئی 2014ء میں بھارت میں ہونے والے عام انتخابات کے دوران بھی اپنی تقریروں میں پاکستان کو ''ٹھیک‘‘ کرنے کی دھمکی دی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ اگر میں وزیراعظم بن گیا تو دفاعی بجٹ میں کئی گنا اضافہ کر دوں گا۔ دوسری طرف میاں نواز شریف بھارت کے ساتھ تجارت کی رٹ لگا رہے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ کس قسم کی تجارت کریں گے؟ توانائی کے بحران نے پاکستان کے صنعتی و زرعی شعبے کو شدید متاثر کیا ہے۔ ٹیکسٹائل کی صنعت بحران کا شکار ہے۔ وہ پاکستان کی طرف سے بھارت کے ساتھ کس چیز کی تجارت کریں گے؟ دوسری طرف بھارت کی معیشت پاکستان کے مقابلے میں کئی گنا بڑی اور طاقتور ہو چکی ہے۔ اس کا جی ڈی پی متعدد اسلامی ممالک کے مجموعی جی ڈی پی سے زیادہ ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ ہر لمحہ بگڑتے ہوئے حالات اور خراب طرز حکمرانی کی وجہ سے پاکستان اندر سے کمزور ہوتا چلا جا رہا ہے، یہی جرم ضعیفی کی سزا ہے! غالب نے کہا تھا ؎
پڑا رہ اے دلِ وابستہ، بیتابی سے کیا حاصل
مگر پھر تاب زُلف پُرشکن کی آزمائش ہے 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں