کراچی میں ٹارگیٹڈ آپریشن ناکام ہورہا ہے؟

ایسا معلوم ہورہا ہے کہ کچھ ماہ قبل کراچی کی صورتحال کو بہتر بنانے کے سلسلے میں کیا جانے والا ٹارگیٹڈ آپریشن ناکام ہورہا ہے، کیوں کہ ابھی تک کراچی میں نہ تو امن قائم ہوا ہے، اور نہ ہی کراچی کی رونقیں بحال ہوئی ہیں اور نہ ہی قتل وغارت گری (جس میں فرقہ واریت بھی اپنی گھنائونی شکل میں موجود ہے) میں کوئی کمی آئی ہے۔ صرف 60دن میں فرقہ واریت کی بنیاد پر 61قتل ہوئے ہیں جبکہ 64پولیس افسر اور اہل کار بھی ٹارگیٹڈ کلرز کے ہاتھوں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ 
قارئین کو یاد ہوگاکراچی میں سماج دشمن عناصر کی بیخ کنی کے سلسلے میں یہ ٹارگیٹڈ آپریشن وزیراعظم میاں نواز شریف کے حکم پر شروع ہوا تھا، جس میں سندھ اور وفاق کی تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں نے اس کی بھر پور تائید کی تھی۔ کراچی کے تاجر بھی اس ٹارگیٹڈ آپریشن کی حمایت میں پیش پیش تھے اور میاں صاحب کو اس ضمن میں اپنے بھر پور تعاون کا یقین دلایا تھا، کیونکہ سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں عام شہریوں کے علاوہ تاجر برادری ہے، جو بھتہ خوروں کا مسلسل شکار بن رہی تھی۔ اس صورتحال کے پیش نظر کاروبار چلانا محال نظر آرہا تھا، چنانچہ اسی پس منظر میں وزیراعظم کراچی آئے تھے اور ایک بھر پور اجلاس میں ٹارگیٹڈ آپریشن کا فیصلہ کیا گیا تاکہ کراچی کو معاشی بنیادوں پر اس کے پیروں پر کھڑا کیا جاسکے۔ شاہدحیات اس آپریشن کے سربراہ تھے جن کو آئی جی سندھ کے علاوہ رینجرز کی بھی حمایت حاصل تھی۔ انہوں نے کچھ ماہ اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سینکڑوں کی تعداد میں ٹارگیٹڈ کلرز کے علاوہ سماج دشمن عناصر کو گرفتار کرکے جیلوں میں بند کردیا، لیکن ان عناصر کے خلاف سزائوں کا اعلان نہیں ہوسکا‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ یہ عناصر معمولی سی سزا پانے کے بعد جیلوں سے نکل آتے ہیں اور دوبارہ لوٹ مار کا بازار گرم کردیتے ہیں۔
کراچی حقیقی معنوں میںان عناصر کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے۔ بعض مستند ذرائع یہ بتا رہے ہیں کہ ان سماج دشمن عناصر کوکچھ سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی حاصل ہے‘ جس کی وجہ سے کراچی کے حالات سدھرنہیں پارہے ہیں۔ سی پی ایل سی کے بعض ذمہ دار افراد کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ کیوں کہ سزا کا کوئی سخت نظام موجود نہیں ہے، اس لئے ان سماج دشمن عناصر کے حوصلے تھوڑی سی سزا کے بعد بڑھ جاتے ہیں۔ دراصل جو سزا ئیں ان سماج دشمن عناصر کو ملتی ہیں وہ بہت کم ہوتی ہیں جبکہ ان کا جرم کئی گنا زیادہ اور گھنائونا ہوتا ہے؛ چنانچہ جہاں سزا دینے کا طریقہ کار انتہائی کمزور بلکہ سیاست میں لپٹا ہوا ہو‘ وہاں ان سماج دشمن عناصر کے خلاف بھرپور تادیبی کارروائی کس طرح ہوسکتی ہے اور کس طرح ان سماج دشمن عناصر پر قابو پاکر کراچی کی رونقیں بحال اور معاشی سرگرمیوں کو جاری وساری رکھا جاسکتا ہے؟
سندھ کے وزیراعلیٰ جناب قائم علی شاہ اس ٹارگیٹڈ آپریشن کے کپتان ہیں، لیکن ان کی کپتانی صرف وزیراعلیٰ ہائوس تک محدود ہے، بلکہ انہوں نے خود اپنے آپ کو وزیراعلیٰ ہائوس تک محدود کررکھا ہے اور عوام سے ان کا رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ سندھ کے باقی وزرا کو کراچی میں امن کی بحالی اور اسے دوبارہ معاشی حب میں تبدیل کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ان وزرا کا زیادہ تر تعلق اندرون سندھ سے ہے جہاں یہ بڑے آرام سے اپنی حویلیوں میں وقت گزارتے ہیں۔ کراچی میں ان وزرا کی حفاظت کے لئے ان کے اپنے پرائیوٹ گارڈز کے علاوہ سندھ پولیس کی موبائل گاڑیاں ہمہ وقت چوکس رہتی ہیں۔ رہ گئے عوام تو ان کو دن دیہاڑے ڈاکو پستول دکھا کر لوٹ اورقتل کررہے ہیں۔ یہ لٹیرے صرف ایک پستول دکھاکر لاکھوں روپے کے موبائل فون اور نقدی لے کر فرار ہوجاتے ہیں اور سب دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ اگر کوئی ہمت کرکے انہیں پکڑ نے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے ساتھی اس کو قتل کردیتے ہیں یا اغوا کرلیتے ہیں۔ اس قسم کی ہولناک وارداتیں کراچی میںاب عام ہوچکی ہیں اور خوف کا یہ عالم ہے کہ عام 
شاہراہیں اور گلیاں پیدل چلنے والوں سے خالی ہوچکی ہیں۔ ان تکلیف دہ حالات نے کراچی کو ایک ایسا شہر بنادیا ہے جہاں سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار لوٹ مار ہے۔ لوٹ مار کرنے والے زیادہ تر نوجوان ہوتے ہیں جن کا ہر قومیت سے تعلق ہوتاہے اور ان کی پشت پناہی با اثر افراد کرتے ہیں‘ جن میں پولیس کے بعض افسران بھی شامل ہیں۔ ان معروضی مگر تکلیف دہ حالات نے کراچی میں صنعت سازی کو شدید متاثر کیا ہے۔ اب نئے کارخانے نہیں لگ رہے اور نہ ہی تعمیراتی صنعت ترقی کررہی ہے، جس میں زیادہ تر غیرہنرمند محنت کشوں کی کھپت ہوجایا کرتی تھی۔ کراچی اب معاشی حب نہیں رہا‘ بلکہ ایسا آسیب زدہ شہر بن چکا ہے جہاں لوگ رہتے ہیں لیکن ان کو نہ تو کسی قسم کا تحفظ حاصل ہے اور نہ ہی ان میں اتنی ہمت ہے کہ اپنا سماجی حق حاصل کرسکیں اور حکومت کی طرف سے لاتعلقی عوام میں گہری مایوسی کا سبب بن رہی ہے۔
وزیراعظم میاں نواز شریف کو کراچی سے متعلق اس صورتحال کا بخوبی علم ہے، یہی وجہ تھی کہ وہ گزشتہ ماہ پھر کراچی آئے تھے، ان کے ہمراہ چیف آف آرمی اسٹاف راحیل شریف بھی تھے، جن کو چیف سیکرٹری نے بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ ٹارگیٹڈ آپریشن بالکل ٹھیک جارہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے نمائندے بھی موجود تھے جن میں بعض نے اپنے تخفظات کا اظہار کیا تھا، اور یہ مطالبہ کیا تھا کہ ٹارگیٹڈ آپریشن سے متعلق قائم کیے جانے والے مانیٹرنگ سیل کو فعال اور سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو اس میں شامل کرکے آپریشن سے متعلق تحفظات کو دور کیا جائے۔ مانیٹرنگ سیل اپنے جگہ کام کررہا ہے، لیکن اس کی کارکردگی سے متعلق کراچی کے باخبر شہریوں کو کچھ معلوم نہیں۔ وزیراعظم کو سندھ کے وزیراعلیٰ نے اجلاس میں بتایا تھا کہ کم از کم دس ہزار سابق فوجیوں کو سندھ پولیس میں بھرتی کرکے اہم ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ وزیراعظم صاحب نے اس اقدام کو مستحسن قرار دیا، لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا کراچی میں امن قائم ہوگیاہے؟ کیا ٹارگیٹڈ آپریشن کے ذریعہ سماج دشمن عناصر کے قلع قمع ہوگیا ہے؟ کیا سندھ کی حکومت نے سماج دشمن عناصر کو واقعی سخت ترین سزا دینے سے متعلق کوئی نیا قانون سندھ اسمبلی میں پیش کیا ہے؟ ان سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ کراچی جل رہا ہے، ہر طرف خوف اور مایوسی نے شہریوں کو ان کے گھروں میں محدود کردیا ہے۔ کیا اس طرح سماجی ومعاشی سرگرمیاں جاری رہ سکتی ہیں؟ اور کیا اس طرح کراچی کو دوبارہ معاشی حب بنایا جاسکتا ہے؟ دوسری طرف سندھ کے وزیر اعلیٰ‘ جو ٹارگیٹڈ آپریشن کے کپتان ہیں‘ نے کراچی پولیس سے کالی بھیڑوں کو نکالنے کا اعلان کیا تھا لیکن انہوں نے خود اپنے اعلان پر عمل درآمد نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی کالی بھیڑیں سماج دشمن عناصر کی پشت پناہی کرکے ٹارگیٹڈ آپریشن کو ناکام بنا رہی ہیں۔بقول قمر رئیس ؎ 
مرنے کی کوئی راہ نہ جینے کا سبب ہے
جینا بھی یہاں قہر ہے، مرنا بھی غضب ہے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں