نریندر مودی کی پاکستان دشمنی

اس حقیقت سے پاکستان کے تمام با خبر اور باشعور افراد اچھی طرح واقف ہیں کہ مودی کی انتخابی مہم میں پاکستان دشمنی نمایاں رہی تھی، اس نے (جواب بھارت کا وزیراعظم بن چکا ہے) اپنے انتخابی جلسوں میں بھارت کے اندر دہشت گردی کے تمام تر الزامات پاکستا ن پر عائد کئے تھے اور بھارتی عوام سے یہ ''وعدہ‘‘ کیا تھا کہ وہ اگر اقتدار میں آگئے تو پاکستان کی بھارت کے اندر مداخلت کا ضروری ''بندوبست‘‘ کریں گے، انہوں نے بھارتی مسلمانوں کو بھی ڈھکے چھپے الفاظ میں یہ پیغام دیا تھا کہ مسلمان ان کی پارٹی بی جے پی کو ووٹ دیں تاکہ انہیں ضروری تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ یقینا بھارتی مسلمان نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد خاصے ڈرے ہوئے ہیں، لیکن ان کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ مودی کی مسلمانوں کے خلاف انتہا پسند پالیسیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔ پاکستان کے عوام کی اکثریت بھی مودی کے اقتدار میں آجانے کے بعد یہ محسوس کررہی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئے گی۔ اس کا مظاہرہ خود نریندرمودی نے وزیراعظم میاں نواز شریف سے حیدرآباد ہائوس میں ملاقات کے دوران کیا تھا، اور پانچ مطالبات پیش کئے تھے، جس میں ممبئی میں ہونے والی دہشت گردی کا معاملہ سرفہرست تھا، حالانکہ سفارتی ذرائع کے مطابق نریندرمودی کو اس خوشگوار موقع پر اس قسم کی تلخ باتیں نہیں کرنی چاہیے تھیں، لیکن کیونکہ ان کے دل میں پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف زہر بھرا ہوا ہے، اس لئے انہوں نے اپنی ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کی قیادت کو یہ باور کرادیا ہے کہ آئندہ ان کا پاکستان کی طرف کس طرح کا طرز عمل ہوسکتا ہے،اور تعلقات کی نوعیت کیا ہوسکتی ہے۔
بھارت کے نو منتخب وزیراعظم نریندرمودی کی پاکستان کے خلاف دشمنی کا ایک اور کھلا ثبوت یہ ہے کہ انہوںنے اجیت ڈول کو اپنا نیا قومی سلامتی کا مشیر مقرر کیا ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس نے قندھار (افغانستان) میں بیٹھ کر افغانستان میں بھارتی قونصلیٹ کے قیام کا بندوبست کیا تھا۔ مزید برآں اس نے بلوچستان کے گمراہ نوجوانوں کے لیے افغان انٹیلی جنس اداروں کے تعاون سے تربیتی کیمپ قائم کئے تھے۔ یہ شخص کرزئی کا ذاتی دوست ہے اور کرزئی سے پاکستان کے خلاف بیان دلوانے اور بھڑکانے میں اس کا بڑا ہاتھ ہے۔ بھارت کے بعض باخبر صحافیوں کے مطابق کرزئی نے نریندرمودی کی رسم حلف برداری میں شرکت کے بعد بھارتی ٹی وی کو اپنے ایک انٹرویو میں یہ کہاتھا کہ ہرات میں بھارتی قونصلیٹ پر حملہ لشکر طیبہ نے کرایا تھا۔ اس اسکرپٹ کے پیچھے بھی اجیت کا ہاتھ تھا۔ اس کے علاوہ نریندرمودی نے بھارتی فوج کے سابق چیف آف آرمی اسٹاف ایس کے سنگھ کو اپنی کابینہ میں وفاقی وزیر کی حیثیت سے شامل کرکے شمالی علاقوںکا دفاع اس کے سپرد کردیا ہے۔ ایس کے سنگھ نے گزشتہ سال لائن آف کنٹرول پر پاکستان کے خلاف بلا اشتعال فائرنگ کا حکم دیا تھا جس میں پاکستان کے کئی سپاہی اور شہری شہید ہوئے تھے۔ پاکستان کی فوج نے اس کا موثر جواب دے کر ان کی اشتعال انگیز کارروائیوں کو روک دیا تھا، جس میں بھارت کے بھی کئی فوجی مارے گئے تھے۔ بعد میں ایس کے سنگھ نے پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ اگر لائن آف کنٹرول کی پاکستان کی طرف سے خلاف ورزی ہوئی تووہ پاکستان کو ایسا مزہ چکھائیں گے کہ وہ یاد رکھے گا۔ ایس کے سنگھ کے اس بیان کا سابق وزیراعظم من موہن سنگھ نے سخت نوٹس لیتے ہوئے انہیں دہلی طلب کرکے ان سے باز پرس کی تھی کہ کس طرح انہوں نے پاکستان کے خلاف سیاسی بیان دیا تھا۔ بھارتی اخباروں نے بھی ایس کے سنگھ کی طرف سے پاکستان کے خلاف بیان کی مذمت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ایک سیاسی حکومت کی موجودگی میں کس طرح ایس کے سنگھ نے پاکستان کے خلاف بیان دے کر لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش کی تھی۔ اپنے اس طرز عمل پر انہوںنے وزیراعظم سے معافی بھی مانگی تھی۔ 
اس ضمن میں بعض بھارتی اخبارات نے یہ بھی لکھا ہے کہ نریندرمودی بھارت کے شمال میں اروچن پردیش کے قریب ایس کے سنگھ کی رہنمائی میں چین کی سرحدوں کے قریب 80ہزار فوجیوں پر مشتمل ایک یونٹ بھی قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ چین کی ممکنہ جارحیت کو روکنے کی کوشش کی جاسکے۔ واضح رہے کہ چین 
اروناچل پردیش (آسام سے ملحقہ علاقے )کواپنا علاقہ قرار دے چکا ہے۔ اس مسئلہ پر بھی بھارت اور چین کے درمیان تنازع موجود ہے۔ یہ ہے نریندرمودی کا پاکستان اور چین کے خلاف ایک نیا منصوبہ جس پر وہ اپنے آئندہ پانچ سالہ دور اقتدار میں عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں گے۔ اس سلسلہ میں پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کو کسی قسم کے ابہام میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے بلکہ ملک کو مضبوط بنانے کے سلسلے میں تمام وسائل بروئے کار لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ نریندرمودی پاکستان کو تباہ کرنے کے سلسلے میں بہت دُور تک جاسکتا ہے۔
بہر حال جیسا کہ میں نے بالائی سطور میں لکھا ہے کہ نریندرمودی کی تمام تر انتخابی مہم پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف تھی اور اسی بنیاد پر اس کو انتہا پسند ہندوئوں کے ووٹ ملے تھے۔ دوسری طرف، پاکستان کو مزید بد نام کرنے میں بھارتی میڈیا کا بڑا ہاتھ ہے‘ بلکہ بقول پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ نجم الدین شیخ،'' بھارتی میڈیا زیادہ تر اپنی خبروں اور تبصروں میں سائوتھ بلاک کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے (یعنی بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی)‘ جبکہ پاکستا ن کا میڈیا بہت حد تک بھارت کے ساتھ نرم رویہ رکھتے ہوئے بھارت کے ساتھ دوستی کے لیے کو شاں رہتاہے جس میں اس کو اب تک کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے‘‘۔ بھارتی میڈیا نے ابھی حال ہی میں پاکستان کے خفیہ اداروں کو مزید بد نام 
کرنے کے سلسلے میں یہ الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی سری لنکا میں بھارت کے خلاف تخریبی کارروائیوں کا منصوبہ بنارہی ہے۔ اس الزام کی بنیاد یہ ہے کہ گزشتہ دنوں تامل ناڈو میں ایک شخص کو گرفتار کیا گیا ہے جس نے بتایا ہے کہ پاکستان کے خفیہ اداروں نے اس کو بھارت کی اہم شخصیتوں کے کوائف جمع کرنے کا کام سونپا تھا‘ تاکہ ان معلومات کی روشنی میں ان افرا د کے خلاف کارروائی کی جاسکے، تاہم سری لنکا کی حکومت نے بھارتی میڈیا کے اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے اور واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی سری لنکا میں نہ تو موجود ہے اور نہ ہی اس قسم کی کارروائیاں کررہی ہے۔ سری لنکا کی اس تردید کے بعد بھارتی میڈیا اب پاکستان کے خلاف کسی نئے بہتان کی تلاش میں ہے۔جو افراد پاکستان کی بھارت کے ساتھ تجارت کے فروغ کی باتیں کررہے ہیں‘ انہیں شاید اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ پاکستان کو بھارت کے ساتھ تجارت میں کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا جیسا کہ اب تک دیکھنے میںآیا ہے۔ 
مزید برآں بھارت کی سیاسی قیادت پاکستان کے خلاف ایک مخصوص ایجنڈے پر کام کر رہی ہے جس کے مطابق وہ پاکستان کو بعض ملکوں کے ساتھ مل کر تباہ کرنا اور اس کے نیوکلیئر ہتھیاروں پر قبضہ کرنا بھی مقصود ہے۔ اس حقیقت سے تمام محب وطن پاکستانی بخوبی واقف ہیں۔ جو واقف نہیں ہیں وہ مکاری کررہے ہیں اور بھارت کے ساتھ دوستی کا راگ الاپ کراپنے وطن کے خلاف جاسوسی کررہے ہیں۔ ایسے گمراہ عناصر کے اصلاح کے لئے دعا ہی کی جاسکتی ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں