پاک فوج نے 15جون سے شمالی وزیرستان میں ملکی و غیر ملکی دہشت گردوں کے خلاف بھر پور آپریشن شروع کردیا۔ آپریشن میں فوج کے زمینی دستوں کے علاوہ فضائیہ بھی حصہ لے رہی ہے۔ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے لئے گزشتہ ایک سال سے سیاسی وفوجی قیادت کے درمیان بات چیت چل رہی تھی۔ آپریشن سے متعلق ہر پہلو کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لیا جارہا تھا تاکہ آپریشن کے دوران کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ ہوسکے۔ عوام کے علاوہ تمام بڑی سیاسی جماعتیں بھی اس آپریشن کی بھر پور حمایت کررہی ہیں تاکہ فوج کو بھر پور اخلاقی حمایت مل سکے اور ان کے حوصلے بلند رہ سکیں۔ دراصل یہ فوجی آپریشن ناگزیر ہو چکا تھا، ملک کے گوشے گوشے سے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرنے کی حمایت میں آواز یں بلند ہورہی تھیں، کیونکہ ان عناصر نے پاکستان میں جو تباہی مچا رکھی ہے‘ اس کا منطقی انجام آپریشن تھا‘ جواب ہورہا ہے، حالانکہ سیاسی وفوجی قیادت نے مذاکرات کی صورت میں ان عناصر کو موقع فراہم کیا کہ وہ مذموم اور پاکستان دشمن حرکتوں کو ختم کرکے قومی دھارے میں شامل ہوکر خود اپنی اور ملک کی خدمت کریں، لیکن پوری قوم نے دیکھا کہ مذاکرات کے بہانے ان دہشت گردوں نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں قتل وغارت گری اور توڑ پھوڑ کی کارروائیاں جاری رکھیں۔ جس میں کراچی ایئرپورٹ پر حالیہ حملہ بھی شامل تھا‘ جس میں کم از کم 27افراد شہید اور کافی مالی نقصان بھی ہوا۔ کراچی ایئر پورٹ پر حملے کے بعد سیاسی اور فوجی قیادت نے باہمی بات چیت اور مشورے کے بعد یہ فیصلہ کرلیا کہ ان عناصر کے خلاف بھر پور کارروائی کا وقت آپہنچا ہے اور یہ کہ ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی ناگزیر ہوچکی ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے اس سلسلے میں قومی اسمبلی اور سینٹ کو اعتماد میں لیا اور ارکان کو حقائق سے آگاہ کیا، پارلیمنٹ کے بعض ارکان نے تحفظات کا اظہار کیا۔ موقع کی نزاکت اور پاکستان کی اندرونی سکیورٹی کے پس منظر میں انہیں ایسے خیالات کا اظہار نہیں کرنا چاہیے جن سے دہشت گردوں کو شہ ملے اور قوم میں اختلافات نمایاں ہوں۔ موجودہ حالات اور وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستانی قوم اپنے عمل سے پوری دنیا کو دکھا دے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے دوران کارروائی کے سلسلے میں متحد اور سیسہ پلائی دیوار کی طرح ایک ہے۔
غیر ملکی اور مقامی دہشت گردوں کے خلاف یہ فوجی کارروائی کافی سوچ بچار کے بعد شروع کی گئی، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت کو امریکہ اور بعض دوست ممالک کی طرف سے یہی پیغام مل رہا تھا ، بلکہ دبائو بڑھ رہا تھا کہ ان غیر ملکی اور مقامی دہشت گردوں کے خلاف فی الفور کارروائی شروع کردینی چاہیے تاکہ نہ صرف پاکستان میں بلکہ اس پورے خطے میں امن و آشتی کی فضا ہموار ہوسکے۔ اب جبکہ پاکستان کی بہادر فوج نے یہ کارروائی شروع کردی ہے‘ افغانستان سمیت خطے کے تمام ممالک کو اس آپریشن کی حمایت کرنی چاہیے۔ خصوصیت کے ساتھ افغان حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنی سرحدیں سیل کرے تاکہ دہشت گرد فرار نہ ہونے پائیں ، نیز افغان حکومت کو چاہیے کہ وہ نورستان اورکنٹر میں فوجی کارروائی کرکے وہاں پاکستان دشمن دہشت گردوں کا قلع قمع کردے کیونکہ افغان حکومت اور خصوصاً صدر کرزئی‘ شمالی وزیرستان میںدہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں بلکہ کرزئی صاحب بسا اوقات امریکی حکام پر زور دیتے رہے ہیں کہ وہ خود وہاں جاکر دہشت گردوں کا صفایا کر دیں؛ چنانچہ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ افغان
حکومت کا فوجی کارروائی کے سلسلے میں طرز عمل کیا ہوتا ہے؟ دوسری طرف بھارت کو بھی چاہیے کہ وہ ایسی کوئی حرکت نہ کرے جس کی وجہ سے دہشت گردوں کے خلاف ہونے والی فوجی کارروائی پر کسی قسم کا منفی اثر پڑے۔ کیونکہ بھارتی حکومت کا بھی یہ مطالبہ رہا ہے کہ پاکستان کا شمالی وزیرستان دہشت گردوں کا مرکز بنا ہوا ہے اور یہ عناصر وہاں سے افغانستان کی فوج اورناٹو کی فوج پر حملے کر رہے ہیں اور پورے خطے کو آگ کے شعلوں میں دھکیلنے کی قابل مذمت حرکتوں میں ملوث پائے جارہے ہیں؛ چنانچہ پاکستان کی فوج نے شمالی وزیرستان میں ملکی اور غیر ملکی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیا ہے‘ جو عرصہ دراز تک جاری رہے گا۔ اس موقع پر پاکستان کے عوام بھارت کے روّیے کو بھی دیکھنا چاہیں گے کہ وہ امن کی خاطر کیا کرتا ہے؟
پاکستان کے عوام کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ دہشت گرد پاکستانی فوج سے مارکھانے کے بعد پاکستان کے اندر قتل وغارت گری کے علاوہ تخریبی کاروائیاں کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔ اس لئے صوبائی حکومتوں کو چوکس رہنا چاہیے اور دہشت گردوں کے ممکنہ حملوں کی صورت میں رینجرز اور پولیس کو تیار رہنے کی ہدایات جاری کردینی چاہئیں، خصوصیت کے ساتھ سندھ کی حکومت کو جو اپنی نا اہلی کے سلسلے میں خاصی مشہورہے، نیز کراچی کے گردونواح میں پاکستانی طالبان کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو اپنی مرکزی قیادت کی ہدایت پر کراچی اور سندھ میں لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا کرسکتے ہیں۔ اس فوجی کارروائی سے قبل بھی یہ عناصر کراچی میں بہت فعال تھے، اغوا برائے تاوان کے علاوہ بھتہ خوری میں بھی پیش پیش تھے‘ اس لئے سندھ کی حکومت کو خاصا چوکس اور بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔ خیبر پختون خوا کی حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ مادر وطن کی عزت اور سالمیت کے لئے تمام تر مادی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے فوج کے ساتھ تعاون میںکسی بھی قسم کی کوتاہی یا غفلت کا مظاہرہ نہ کرے۔ پنجاب حکومت پر بھی لازم ہے کہ وہ پنجابی طالبان کو نکیل ڈالے اور ان کا قلع قمع کرنے میں فوج کا ساتھ دے۔ بلوچستان کی حکومت سے بھی یہی توقع ہے کہ وہ دہشت گردی کے استیصال کے لیے فوج اور وفاقی حکومت کا بھرپور ساتھ دے گی۔ کیونکہ ان کی ان مذموم کارروائیوں کی وجہ سے نہ صرف بلوچستان کی بلکہ پاکستان کی ترقی متاثر ہورہی ہے‘ پاکستان کو اس حالت میں پہنچانے میں انہی دہشت گردوں کا ہاتھ ہے‘ جو غیر ملکی پیسے اور ہدایات پر پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ قوم اس نازک مرحلے پر پاکستان کی فوج کے ساتھ کھڑی ہے، اور ان کی کامیابی کے لئے دعا گو ہے۔