پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ جناب طاہرالقادری نے فتویٰ جاری کیا ہے کہ پاکستان کی بہادر افواج ضرب عضب کے عنوان سے مقامی اور غیر ملکی دہشت گردوں کے خلاف جہاد کررہی ہیں،ہم ان کے ساتھ ہیں ۔ علامہ صاحب کے اس فتویٰ سے قبل مختلف مکاتب فکر کے 100سے زائد علماء کرام نے بھی گزشتہ دنوں ایک فتویٰ جاری کیا تھا جس میں دہشت گردوں کے خلاف شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوج کے آپریشن کی مکمل حمایت کی گئی۔ اس فتویٰ میں تمام پاکستانیوں سے بھی اپیل کی گئی کہ وہ ان پاکستان دشمن قوتوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر ان کا قلع قمع کردیں۔ جیسا کہ قارئین کرام جانتے ہیں‘ پاکستان کے عوام کی اکثریت شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی حمایت‘ ہر طرح سے ان کی مدد اورکامیابی کی دعا بھی کررہی ہے۔ جو افراد جنگ زدہ علاقوں سے اپنے گھروں کو چھوڑ کر خیبر پختون خوا کے مختلف مقامات میں خیمہ زن ہوئے ہیں ان کی پاکستانی فوج اور سیاسی قیادت بھرپور انداز میں مدد کررہی ہے۔ خیبر پختون خوا کی حکومت کے سینئر وزیر سراج الحق نے بے گھر ہونے والے پاکستانی عوام کے لیے 35کروڑ روپے امداد کے طورپر جاری کردیے ہیں۔ دیگر صوبائی حکومتیں بھی دامے درمے سخنے اور قدمے ان کی مدد کررہی ہیں۔ وزیراطلاعات جناب سینیٹر پرویز رشید نے پاکستان کے عوام سے اپیل کی ہے کہ اس جنگ سے متاثر ہونے والے پاکستانیوں کی دل کھول کر مدد کریں،یہاں تک کہ اگر ان کے خیموں میں کوئی واٹر کولر پہنچا سکتا ہے تو اس کو اس کارخیر میں دیر نہیں کرنی چاہیے ، تاکہ انہیں ٹھنڈا پانی مل سکے۔
دراصل ایک بار پھر سوات آپریشن کی طرح پاکستان کی فوج ،سیاسی قیادت اور عوام ایک بڑی آزمائش سے گزر رہے ہیں۔ یہ آزمائش ان دہشت گردوں نے سامراجی ایجنڈے کے تحت مسلط کی ہے جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مملکت پاکستان کے خلاف مسلح جنگ لڑرہے ہیں، جس میں شکست انہی کی ہوگی۔پاکستان کی فوج نے انہیں بارہا مواقع فراہم کیے کہ وہ ہتھیار پھینک کر آسودہ معاشرتی زندگی بسر کریں،ان کی ہر طرح سے مدد کی جائے گی ، لیکن وہ مسلسل انکار کرتے رہے اور ایسے مطالبات پیش کرتے رہے جو قابل قبول نہیں تھے۔کوئی بھی ریاست مسلح دہشت گردوں کے ایسے مطالبات کو قبول نہیں کرسکتی ، نیزجو علمائے کرام مثلاً مولانا سمیع الحق اور پروفیسر ابراہیم مذاکرات کے معاملے میں تحریک طالبان کی نمائندگی کررہے تھے ،انہیں اس بات کا ادراک ہی نہیں تھا کہ یہ عناصر نہ تو پاکستان سے مخلص ہیں اور نہ ہی اسلام سے۔نہتے پاکستانیوں کو قتل کرنا، مساجد اور امام بارگاہوں کو بموں کے دھماکوں سے اڑا دینا اور اسکولوں کی عمارتوں کو مسمار کردینا ان کا روز مرہ کا معمول بن چکا تھا۔ ان کی ان حرکتوں کی وجہ سے عوام انہیں نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
حقیقت میں تحریک طالبان پاکستان کو 2007ء میں سی آئی اے نے تشکیل دیا تھا۔ اس سے متعلق تفصیلی رپورٹ پاکستان سمیت تمام اخبارات میں شائع ہو چکی ہے۔ تحریک طالبان کا مقصد پاکستان کو تخریبی کارروائیوں کے ذریعہ کمزور کرنا اور بعد میں سامراج کے تعاون سے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کرنا تھا۔ پاکستان کی سیاسی وفوجی قیادت کی اکثریت اس انتہا پسند گروپ کے عزائم کو بہت پہلے ہی بھانپ چکی تھی اور ان کے ایجنڈے سے بخوبی واقف تھی اور ہے ، تاہم پاکستانی فوج ، سیاسی قیادت اور عوام نے ان عناصر کو انہی کی درخواست پر بات چیت کا موقع فراہم کیا تھا جو ان کی بدنیتی کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوسکا اور ہو بھی کیسے سکتا تھا‘ ان کا منصوبہ پاکستان میں قیام امن کا تھا ہی نہیں، بلکہ ان کا مقصد تو اسے برباد کرنا ہے۔ اسی لیے انہوں نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں دیگر دہشت گرد گروہوں کو اپنے ساتھ ملاکر تخریب کاری کے ذریعے پاکستان کے معاشی و سیاسی حالات مزید خراب کرنے کی کوشش شروع کی۔ کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر منظم حملہ ان کی قابل مذمت حکمت عملی کا حصہ تھا۔ پشاور ایئر پورٹ پر لینڈنگ کے دوران ایک جہاز پر گولیاں چلا کر ایک مسافر خاتون کو شہید اور بعض کو زخمی کرنا ان کی پاکستان سے بدترین دشمنی کی ایک مثال ہے۔ اس پس منظر میںپاکستان کی سیاسی وفوجی قیادت نے ان کے خلاف فوجی آپریشن کرنے کا جو فیصلہ کیا ، وہ نہایت ہی کامیابی سے جاری ہے۔ اب تک 200سے زائد دہشت گرد مارے جاچکے ہیں جبکہ 60فیصد سے زائد ٹھکانوں کو تباہ کردیا گیا ہے۔ پاکستان کی فضائیہ کامیابی سے ان کو نشانہ بنا کر واصل جہنم کررہی ہے۔ فوجی آپریشن میں پاکستانی فوج کے 30ہزار سے زائد بہادر سپاہی اور افسران حصہ لے رہے ہیں اور وطن کی سالمیت کی خاطر قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں ۔
یہ ایک ایسی جنگ ہے جو طویل عرصے تک لڑی جائے گی کیونکہ ان غیر ملکی اور ملکی دہشت گردوں کو اسلحہ اور روپیہ عالمی سامراج سے مل رہا ہے اور انہی کے ایما اور ہدایت پر یہ پاکستانی ریاست سے جنگ کررہے ہیں ۔ دوسری طرف افغانستان کا صدر کرزئی ان دہشت گردوں کی خفیہ طورپر مدد کر رہا ہے۔ کنٹر اور نورستان میں تحریک طالبان کے دہشت گردوں نے پناہ لے رکھی ہے اور وہاں سے دراندازی کرکے پاکستان کے مختلف علاقوں میں تخریب کاری کررہے ہیں۔ اس فوجی آپریشن کے پس منظر میں وزیراعظم جناب نواز شریف نے حامد کرزئی کو فون کیا اور ان سے کہا تھا کہ افغانستان کی پاکستان سے ملحق سرحدوں کو سیل کردیا جائے، لیکن تا حال اُس نے ایسا نہیں کیا‘ میراخیال ہے کہ وہ ایسا کرے گا بھی نہیں۔ اس کے دل میں پاکستان کے لیے کوئی ہمدردی نہیں بلکہ وہ بھارت کے اشارے پر پاکستان کے خلاف سب کچھ کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتا ہے، جیسا کہ حال ہی میں اس نے بھارت میں نریندرمودی کی حلف برداری کی تقریب میں ایک بھارتی ٹی وی انٹرویو میں پاکستان کے خلاف زہر اگلتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان میں بھارتی قونصلیٹ پرحملہ لشکر طیبہ نے کرایا تھا‘ حالانکہ حامد کرزئی نے ماضی میں کئی بار پاکستان کی سیاسی قیادت سے استدعا کی تھی کہ شمالی وزیرستان میں موجود دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرکے انہیں نیست ونابود کردیاجائے، اور اب جبکہ پاکستان اپنے قومی مفاد اور ملک کی سالمیت کے لئے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کررہا ہے تو اس کا روّیہ پاکستان دوستی پر مبنی نہیں۔ حامد کرزئی پاکستان دشمنی کی پرانی روش پر چل رہے ہیں۔
بہر حال اس خطے کے ممالک کا روّیہ کچھ بھی ہو، کم از کم چین اس نازک موقع پر پاکستان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہے ، بلکہ وہ پاکستان کی اخلاقی اور مادی مدد بھی کررہا ہے جیسا کہ اس نے ماضی میں کی تھی۔ دہشت گرد پاکستان کے علاوہ چین کے لئے بھی مسائل پیدا کررہے ہیں اور چین کے صوبے سن کیانگ میں دہشت گردی کا ارتکاب کرتے رہے ہیں۔ وہ اس صوبے میں جاری ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ ڈالتے ہوئے وہاں کے باشندوں میں خوف وہراس پیدا کررہے ہیں۔ اس موقع پر چین کے صدر نے ان دہشت گردوں کو وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنی مذموم سرگرمیوں کو بند کردیں ورنہ ان کے خلاف ایسی فوجی کارروائی ہوگی جس سے ان کا پورا وجود سوالیہ نشان بن جائے گا۔ چینی صدر نے مزید کہا کہ چین اس مشکل گھڑی میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے اور اس کا ساتھ دیتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی جنگ ہماری جنگ ہے۔