ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک کی خدمت میں

میں ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک کے روزنامہ ''دنیا‘‘ میں شائع ہونے والے کالم بڑے شوق سے پڑھتا ہوں۔ان کا انداز بیان بڑا دل نشین ہوتا ہے، اور اپنے خیالات کا اظہار استدلال اور منطق سے کرتے ہیں۔اسی وجہ سے وہ پڑھے لکھے حلقوں میں پسندیدگی اور عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ لیکن 30جون کے کالم میں انہوں نے نریندرمودی کی غیر ضروری حمایت کی۔ اس کالم میں انہوں نے مودی صاحب کو ایک امن پسند اور اعتدال پسندرہنما ثابت کرنے بلکہ یہ بھی کہنے کی کوشش کی تھی کہ وہ ایک ایسے وزیراعظم ہیں جو پاکستان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ میں ان کی اس رائے سے اتفاق نہیں کرتا ۔ٹھیک ہے کہ میں مودی صاحب سے نہیں ملا ۔لیکن ان کے خیالات سے ضرور آگاہ ہوں ۔ مودی صاحب بنیادی طور پر انتہا پسند ہندو ہیں ،جنہوں نے 7سال کی عمر میں آر ایس ایس میں شمولیت اختیار کی تھی اور آج بھی وہ اس انتہا پسند ہندو تنظیم سے منسلک ہیں۔ انہوں نے بھارت کے عام انتخابات کے دوران پاکستان کے خلاف اور پاکستان کے سیاست دانوں کے خلاف جو تقریریں کی ہیں،ان سے ان کی پاکستان کے بارے میں سوچ کا باآسانی تجزیہ کیا جاسکتا ہے یعنی وہ پاکستان کو چین کے بعد بھارت کا دشمن نمبر ایک گردانتے ہیں۔ بھارت کی سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں کے لئے ان کے دل میں کوئی نرم گوشہ نہیں ہے۔اس کی ایک مثال 2002ء میں گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام ہے جس میں نریندر بہ حیثیت وزیراعلیٰ گجرات براہ راست ملوث تھے ، انہوں نے اپنے ایک ماتحت کے ذریعے پولیس کو یہ حکم صادر کیا تھا کہ مسلمانوں کو کسی قسم کا تحفظ فراہم نہ کیا جائے؛ چنانچہ گجرات میں آر ایس ایس کے غنڈوں اور دیگر انتہا پسند ہندوتنظیموں کے کارکنوں نے پولیس کی نگرانی اور مدد سے تین ہزار مسلمانوں کو بڑی بے دردی سے قتل کردیاتھا ۔ یہاں تک کہ بعض مسلمان بزرگوں کی قبروں سے ان کے ڈھانچوں کو نکال کر سڑکوں پر پھینک دیا گیا تھا۔ بھارت کے باشعور طبقہ کا،جس میں سینئر صحافی اور سول سوسائٹی کے معززارکان شامل ہیں ، خیال ہے کہ گجرات کے قتل عام میں نریندرمودی شامل تھا اور اس کے ایماپر یہ سب کچھ ہوا تھا۔
صر ف یہی نہیں بلکہ مودی صاحب ایل کے ایڈوانی کی سربراہی میں بابری مسجد کے انہدام (شہادت) میں برابر کے شریک رہے ، اب ان کے بعض قریبی ساتھی کہہ رہے ہیں کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کریں گے ۔ ڈاکٹر صاحب کو شاید اس حقیقت کا ادراک ہے کہ نہیں، مودی صاحب سے کم از کم پاکستان کے لئے خیر کی امید رکھنا عبث ہے؛حالانکہ پاکستان کی سیاسی قیادت بھارت کے ساتھ اچھے مراسم کی خواہش مند ہے۔ مزید براں مودی صاحب نے وزیراعظم پاکستان کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دے کر کوئی احسان نہیں کیا تھا ، بلکہ انہوں نے سارک ممالک کے تمام سربراہان کو شرکت کی دعوت دی تھی اور یہ پیغام دیا تھا کہ سارک تنظیم کے تمام ممالک بھارت کے سائے میں رہتے ہوئے امن اور ترقی کی 
طرف گامزن رہ سکتے ہیں،اگر انہیں پاکستان سے اتنی ہی ہمدردی یا خلوص ہوتا یا پھر جنوبی ایشیا میں امن قائم کرنے کا ارادہ ہوتا تو وہ میاں نواز شریف سے حیدرآباد ہائوس میں ملاقات کے دوران ممبئی کے واقعہ اور اس میں ملوث افراد پر مقدمہ چلانے کی باتیں نہیں کرتے انہوں نے اس خوشگوار موقع کو تلخی اور عداوت میں بدل دیا تھا جس کے بھارت اور پاکستان کے میڈیا پر اچھے اثرات مرتب نہیں ہوئے تھے ۔مودی صاحب کو بھارت کا وزیراعظم بنے ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ،لیکن اس مختصر سے عرصے میں انہوں نے بھارت میں جنگی جنون پھیلانے کا کام شروع کردیا ہے ۔انہوں نے بھارت کی نیوی کے ایک بڑے جہاز کے افتتاح کے موقع پر اخبار نویسوں سے باتیں کرتے ہوئے برملا کہا کہ ''بھارت کو جان بچانے کی گولیاں نہیں بلکہ جان لینے کی گولیاں چاہئیں، اس جملے سے ان کے جنگی جنوں کا پتہ چلتا ہے، نیز انہوں نے حال ہی میں غیر ملکی ہتھیار بنانے والی کمپنیوں کو دعوت دی ہے کہ وہ بھارت میں آکر ہر قسم کے مہلک ہتھیار بنا سکتے ہیں 
، ان پر کسی قسم کی پابندی عائد نہیں ہوگی، انہیں فری ہینڈدیا جائے گا ، وہ اپنا سارا منافع بھی اپنے اپنے ملکوں کو لے جاسکتے ہیں۔ بھارت کا 2013-14ء میں دفاعی بجٹ 36.3بلین ڈالر تھا، اس وقت بھارت پوری دنیا میں مختلف ذرائع سے مہلک ہتھیار خریدنے والا نمبر ایک ملک بن چکا ہے۔ ڈاکٹر صاحب !آپ بتائیے کہ مودی صاحب کے اس طرز عمل اور پالیسی سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے،؟ یہ کالم ختم کرتے ہوئے میں آپ سے اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے اندراگاندھی سے لے کر گجرال تک کے دہلی میں پاکستان کے ایک بڑے اخبار کے لئے انٹرویوز کیے جو نمایاں طورپر شائع بھی ہوئے ۔میں نے جواہرلال یونیورسٹی میں پاک بھارت تعلقات سے متعلق لیکچرز بھی دیے، لیکن آج یہ دونوں ممالک باہمی تعلقات کے سلسلے میں ایک دوسرے سے بہت دور ہیں ، اس دوری میں بھارت کے نیتائوں اور اس کی فوج کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ پاکستان نے ماضی میں اور اب بھی بھارت کے ساتھ اچھے ہمسائیگی پر مبنی تعلقات قائم کرنے کی بہت کوشش کی ،لیکن بھارت کی چودھراہٹ پر مبنی سوچ کی وجہ سے اس خطے میں قیام امن کے امکانات بہت کم ہیں۔نریندرمودی کی پالیسیاں امن کی راہ کو مزیدمسدود کردیں گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں