میجر جنرل اطہر عباس ایک اعلیٰ علمی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے والد کا سندھ میں تعلیم کے فروغ میں ایک اہم کردار رہا ہے۔ سندھ کے عوام ان کے والد محترم کی تعلیم کے شعبے میں خدمات کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔ اطہر عباس صاحب خود بھی ایک مہذب و نفیس انسان ہیں۔ میری ان سے واقفیت اس وقت ہوئی تھی جب وہ آئی ایس پی آر میں بہ حیثیت ڈائریکٹر جنرل تعینات تھے۔ پاکستان کے بیشتر صحافی جن کا آئی ایس پی آر جانا ہوتا تھا ، وہ ان سے مل کر ان کی شرافت اور مہمان نوازی سے بہت متاثر ہوتے تھے۔ آج بھی جبکہ وہ ریٹائرڈ ہوچکے ہیں‘ صحافیوں میں ان کے احترام و محبت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ اس تمہید کے بعد مجھے ان کے بی بی سی کے انٹرویو کو سن کر بہت حیرت ہوئی ہے اور یقین نہیں آرہا تھا کہ میجر جنرل اطہر عباس شمالی وزیرستان میں تین سال قبل فوجی کارروائی نہ کرنے کا سارا الزام اپنے سابق باس جنرل کیانی پر ڈال رہے ہیں، اور یہ برملا کہہ رہے ہیں کہ اگر تین سال قبل یہ فوجی کارروائی ہوجاتی تو تحریک طالبان سمیت شمالی وزیرستان میں موجوددہشت گردوں کا صفایا ہوجاتا، لیکن کیونکہ بقول اطہر عباس جنرل کیانی تذبذب کا شکار تھے، اس لئے وہ فوجی کارروائی کرنے سے متعلق فیصلہ نہیں کرپائے حالانکہ فوج شمالی وزیرستان میں کارروائی کے حق میں تھی۔ اس وقت آپریشن نہ کرنے کی صورت میں دہشت گردوں کو شمالی وزیرستان میں اپنے پیر جمانے کا پورا موقع مل گیا۔
اطہر عباس کے اس الزام کا تادم تحریر جنرل کیانی صاحب کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا، لیکن مجھے اتنا ضرور معلوم ہے کہ اس وقت جناب آصف علی زرداری پاکستان کے صدر تھے‘ ان سے جنرل کیانی صاحب نے اسی سلسلے میںمشورہ کیا تھا ، کیونکہ سیاسی قیادت کو اعتماد میں لئے بغیر جنرل کیانی صاحب تن تنہا اتنا بڑا فیصلہ نہیں کرسکتے تھے، جیسا کہ سوات آپریشن کے سلسلے میں کیا گیا تھا۔ آصف علی زرداری ذہنی طور پر شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کے حق میں نہیں تھے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ ان کے عہدے کی میعاد میں صرف دوسال کا وقفہ رہ گیا تھا، نیز انہی دوسال کے دوران وہ ذہنی طور پر پی پی پی کو عوامی پارٹی بنانے کا سوچ رہے تھے، اور اس کے لئے وسائل بھی اکٹھے کرر ہے تھے، چنانچہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اپنے باقی دوسال شمالی وزیرستان میں آپریشن کی نذر کردیں۔ جنرل کیانی کو آصف علی زرداری نے اپنے ان خیالات سے ضرور آگاہ کیا ہوگا‘ اس لئے کیانی صاحب کو شمالی وزیرستان سے متعلق فوجی کارروائی کرنے کا آپشن مؤخر کرنا پڑا، چنانچہ جب اس وقت کی سیاسی قیادت شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لئے تیار یا رضامند نہیں تھی تو جنرل کیانی کیا کرتے؟ مزیدبرآں اطہر عباس کا اپنے اس انٹرویو میں ایک تضاد بھی ابھر کر سامنے آیا ہے۔ ایک طرف تو وہ کہہ رہے ہیں کہ فوج کی اعلیٰ قیادت (ماسوائے جنرل کیانی صاحب کے) اس وقت شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کے حق میں تھی، تو دوسری طرف ان کا کہنا ہے کہ فوج کے کچھ افسران اس کارروائی کے حق میں نہیں تھے، یعنی فوج کی اعلیٰ قیادت کے مابین فوجی آپریشن کے سلسلے میں دو مختلف آرا پائی جاتی تھیں۔ اس تضاد پر مبنی جملے سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ جنرل کیانی صاحب کو فیصلہ کرنے میں یقینا دشواری پیش آرہی ہوگی۔ دوسری طرف اس وقت کی سیاسی قیادت بھی اس کے حق میں نہیں تھی چنانچہ شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی نہیں کی گئی۔
اطہر عباس صاحب نے اس ضمن میں امریکہ کے کردار کا بھی ذکر کیا ہے۔ یقینا امریکہ اس وقت پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت پر شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کرنے کے سلسلے میں بہت زیادہ دبائو ڈال رہا تھا کیونکہ امریکی قیادت کا خیال تھا کہ افغانستان کے اندر ناٹو فوج پراور افغانستان کے اندر طالبان کی جانب سے جو حملے ہو رہے ہیں، ان کا سلسلہ شمالی وزیرستان سے جڑتا ہے، جہاں دہشت گردوں نے اپنے
مضبوط ٹھکانے بنا رکھے ہیں، اس وقت 'Do More‘ کا لفظ امریکی قیادت کی زبان پر ہر وقت رہتا تھا، جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ امریکہ کتنی جلدی اس علاقے میں پاکستان کی فوج کی پیش قدمی چاہتا تھا۔ یقینا پاکستان کی اس وقت کی فوجی قیادت نے امریکہ کے اس دبائو کو برداشت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''جب بھی وقت آئے گا‘ موقع محل کو دیکھتے ہوئے پاکستان کی فوج شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے گی‘‘، چنانچہ بقول اطہر عباس اگر اس وقت شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع ہوجاتا تو پاکستان کے بعض حلقوں میں یہ تبصرہ کیا جاتا کہ یہ فوجی کارروائی امریکہ کے ایما پر ہو رہی ہے، اگر اطہر عباس صاحب کا یہ تبصرہ درست ہے تو کیا نی صاحب کا فوجی کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ بھی درست تھا۔ اس میں تذبذب کی کونسی بات تھی؟ مزید برآں افغانستان کا کٹھ پتلی صدر کرزئی بھی امریکہ کی زبان بولتے ہوئے پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت پر زور دے رہا تھا کہ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف فوری کارروائی کردینی چاہیے۔ اس نے تو امریکی جنرل میک مولن سے یہ استدعا بھی کی تھی کہ اگر پاکستان کی فوج شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف پیش قدمی نہیں کرتی تو امریکی سپاہوں کو وہا ں پہنچ جانا چاہیے، اسی قسم
کا لب ولہجہ بھارت کی سیاسی قیادت کا بھی تھا۔
اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ میجر جنرل اطہر عباس کو ایک ایسے موقع پر جب پاکستان کی بہادر فوج شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے، اس قسم کا انٹر ویو بی بی سی کو نہیں دینا چاہیے تھا، اس طرح سے فوج کا مجموعی امیج متاثر ہوتا ہے۔ جنرل کیانی ایک اعلیٰ فوجی قائد اور مدبرہیں۔ وہ اس خطے کے سیاسی و فوجی معاملات سے جس طرح واقف ہیں، شاید ہی کوئی دوسرا فوجی اتنا گہرا ادراک رکھتا ہو۔ انہوں نے پاکستانی فوج کے سربراہ کی حیثیت سے جو فرائض انجام دیے ہیں اور جس طرح امریکی دبائو برداشت کیا ہے، وہ مدتوں یاد رکھے جائیں گے۔ ان پر 2011ء میں شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی نہ کرنے کا الزام لگانا انتہائی نا مناسب ونامعقول ہے۔ حقیقت میں پاکستان کے موجودہ ناگفتہ بہ حالات میں‘ جبکہ پوری قوم فوج کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے۔ ہم ماضی کے فوجی معاملات پر تبصرہ کرکے کس کوخوش کرنا چاہتے ہیں؟اطہر عباس کے اس انٹرویو سے پاکستان کے سیاست دانوں سمیت پاکستان کے باشعور طبقے کو بہت مایوسی اور افسوس ہوا ہے۔ اگر وہ اپنے آپ کو قومی سلامتی کے امور میں زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں ایک کتاب لکھنا چاہیے تاکہ حقائق معلوم ہونے کی صورت میں آئندہ نسل اس سے استفادہ کرسکے۔بقول شاعر ؎
ہم کو اُن سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے