افغانستان میں 5اپریل کو ہونے والے انتخابات متنازع بن گئے ہیں۔ عبداللہ عبداللہ نے 14جون کوہونے والے رن آف الیکشن کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ وہ افغانستان میں متوازی حکومت بنالیں گے۔ انہوں نے رن آف الیکشن کو فراڈ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس الیکشن میں سنگین نوعیت کی دھاندلیوں کی ذمہ داری خود مختار الیکشن کمیشن‘ حامد کرزئی او ر ان کے بھائیوں پر عائد ہوتی ہے، جنہوں نے بیلٹ بکسوں میں جعلی ووٹ ڈلوائے۔ خود الیکشن کمیشن کے سربراہ جناب نور ستانی نے تسلیم کیا کہ الیکشن میں دھاندلیاں ہوئی ہیں اور اس عمل میں سرکاری افسران کے علاوہ سکیورٹی کے افراد بھی شامل ہیں۔ اس وقت کابل میں عبداللہ عبداللہ کی حمایت میں ریلیاں نکالی جارہی ہیں اور حامد کرزئی اور اشرف غنی کے خلاف نعرے بازی کی جارہی ہے۔ اس صورتحال پر امریکہ کو بھی گہری تشویش ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما نے صدارتی امیدوار عبداللہ عبداللہ سے ٹیلی فون پر بات کی اور انہیں صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہا ہے کہ جلد سیکرٹری خارجہ افغانستان پہنچیں گے جو اس مسئلہ کو پُرامن طریقے سے حل کرانے کی کوشش کریں گے۔ اس طرح صدارتی انتخابات کے متنازع نتائج کے حوالے سے پیدا ہونے والے بحران نے افغانستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس ضمن میں یہ لکھنا بے جا نہ ہوگا کہ افغانستان میں ہونے والے 2009ء کے صدارتی انتخابات میں بھی زبردست دھاندلیاں ہوئی تھیں۔ ان دھاندلیوں میںکرزئی اور ان کے دوست ملوث پائے گئے تھے۔ عالمی برادری نے 2009ء کے عام انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا ، لیکن امریکی دبائو کی وجہ سے کرزئی کو صدر تسلیم کرلیا گیا۔ 2009ء کے انتخابات میںبھی عبداللہ عبداللہ جیت چکے تھے، لیکن اب صورتحال 2009ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ سنگین ہے۔ عبداللہ عبداللہ اپنی شکست تسلیم نہیں کریں گے۔ ہوسکتا ہے کہ امریکہ انہیں کسی قسم کا لالی پاپ دے ، لیکن لگتا ہے کہ وہ اس مسلط شدہ شکست کو ہر گز تسلیم نہیں کریں گے۔ ویسے بھی اس وقت افغانستان ان انتخابات کے نتائج کی صورت میں لسانی بنیادوں پر مزید تقسیم ہوگیا ہے۔ رن آف الیکشن کی پوری انتخابی مہم لسانی بنیادوں پر چلائی گئی تھی۔ اشرف غنی نے پختون آبادی کو اپنے حق میں متحرک کرنے کی کوشش کی تھی، جو افغانستان میں کل آبادی کا 40 فیصد ہیں جبکہ دوسری قومیتوں میں تاجک، ہزارہ، ازبک وغیرہ شامل ہیں۔ عبداللہ عبداللہ تاجک ہیں۔ انہوں نے شمالی اتحاد کے تحت طالبان کی حکومت کی سخت مخالفت کی تھی اور آج بھی وہ طالبان کے خلاف ہیں۔ امریکہ ، پاکستان اور چین اشرف غنی کو بہتر خیال کرتے ہیں (جیسا کہ خبروں میں ظاہر ہوتا ہے)۔ بھارت عبداللہ عبداللہ کو صدر بنتے دیکھنا چاہتا ہے؛ چنانچہ دیکھنا یہ ہے کہ امریکی سیکرٹری خارجہ افغان صدارتی انتخابات کے متنازع نتائج کی گتھیوں کو سلجھانے کے سلسلے میں کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں؟ افغانستان کے عوام کی اکثریت ان انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہے ، تاہم ان انتخابات کے حتمی
نتائج کا اعلان 22جولائی کو کیا جائے گا۔ اس طرح ابھی ان نتائج کو فریقین کے درمیان متوازن بنانے کے سلسلے میں خاصا وقت موجود ہے، لیکن اگر اشرف غنی کے حق میں فیصلہ برقرار رہتاہے تو سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا عبداللہ عبداللہ اور ان کے لاکھوں ساتھی ان نتائج کو تسلیم کرلیں گے؟ مزید برآں اگر عبداللہ عبداللہ کو اشرف غنی کے تحت کو ئی نیا عہدہ دیا گیا تو کیا وہ امریکی دبائو کے تحت یہ عہدہ قبول کریں گے؟ یہ بڑے اہم سوالات ہیں جن کے جوابات جان کیری کی سیاست کاری کے بعد ہی سامنے آ سکیں گے؛ تاہم اگر 22جولائی کے بعد بھی تنازعات باقی رہے تو افغانستان میں ایک بار پھر خانہ جنگی میں تیزی آسکتی ہے۔ افغان طالبان کسی بھی صورت میں نہ تو اشرف غنی اور نہ ہی عبداللہ عبداللہ کو برداشت کریں گے کیونکہ یہ دونوں سیاست دان امریکہ کے ساتھ دوطرفہ سکیورٹی معاہدہ کرنے کو تیار ہیں‘ جس کے تحت امریکہ 2014ء کے آخر میں اپنی اور ناٹو کی افواج کے مکمل انخلا کے بعد بھی کم از کم دس ہزار
فوجی افغانستان میں رکھ سکے گا اور جیسا کہ میں نے بالائی سطور میں لکھا ہے کہ اگر صدارتی انتخابات کے سلسلے میں کوئی پُرامن راستہ نہیں نکلتا تو افغانستان میں نہ صرف کمزور جمہوریت کا چراغ گل ہوجائے گا بلکہ گزشتہ گیارہ برسوں میں امریکہ نے اس پسماندہ قبائلی ملک کو جمہوریت سے روشناس کرانے کی جو کوشش کی تھی، وہ بھی رائیگاں چلی جائے گی۔ افغانستان میں امن ہویا خانہ جنگی دونوں صورتوں میں اس کے اثرات پاکستان پر پڑیں گے جس سے بھارت پورا پورا فائدہ اٹھائے گا۔ دراصل افغانستان میں تمام تر برائی کی جڑ حامد کرزئی ہیں جن کو امریکی سی آئی اے نے منہ چڑھا رکھا ہے۔ یہ شخص کسی بھی صورت میں اقتدار سے فارغ نہیں ہونا چاہتا اور ہوسکتا ہے کہ افغانستان میں تیزی سے بگڑتی ہوئی سیاسی ومعاشی صورتحال کے پیش نظر وہ ایمرجنسی نافذ کردے۔ اس طرح وہ نہ صرف صدر رہ سکتا ہے بلکہ اس کو بے پناہ اختیارات بھی مل سکتے ہیں۔ 22جولائی کے حتمی نتائج کے اعلان کے بعد بھی اگر فیصلہ اشرف غنی کے حق میں آتا ہے تو افغانستان میں امن کے تمام امکانات معدوم ہوجائیں گے۔ اس صورت میں امریکہ کرزئی کو افغانستان میں ایمرجنسی کے نفاذ کا اشارہ دے سکتا ہے۔