پوری دنیا اور خصوصیت کے ساتھ مسلم دنیا‘ غزہ کی پٹی پراسرائیل کی ننگی جارحیت دیکھ رہی ہے، لیکن کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ آگے بڑھ کر صہیونی ریاست کی پرتشدد کارروائیوں کو روک سکے۔ امریکہ واحد سپر پاور ہے اگر انسانیت کی خاطر اسرائیلی جارحیت کو لگام دے، تو ناممکن ہے کہ اسرائیل باز نہ آئے کیونکہ خود بارک اوباما نے ایک بیان میں یہ کہہ کر اسرائیلی جارحیت کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ ''اسرائیل کو دفاع کا پورا حق حاصل ہے‘‘ چنانچہ امریکی صدر کے اس بیان کے بعد اسرائیل بے لگام ہوگیا، یہاں تک کہ وہ ہسپتالوں کو بھی جارحیت کا نشانہ بنا رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران بھی کم از کم ہسپتالوں پر بمباری نہیں ہوئی تھی۔ تادم تحریر‘ اب تک اسرائیل کی سولہ دنوں کی بے لگام وحشیانہ بمباری سے600فلسطینی شہید ہو چکے ہیں؛ زخمی ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اب تک جنگ بندی کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ سکیورٹی کونسل اس سلسلے میں کسی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرپارہی، محض دکھاوے کے لئے کارروائی کی جارہی ہے‘ جبکہ اسرائیل کی رہائشی علاقوں پر وحشیانہ بمباری گھروں کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کررہی ہے۔
اس المناک صورتحال کے سامنے مسلم ممالک کی بے بسی اور بے حسی دیکھنے کے قابل ہے، اگر چند مسلم ممالک مثلاً سعودی عرب، قطر، بحرین، ترکی ، متحدہ عرب امارات چاہیں تو امریکہ پر دبائو ڈال کر اسرائیل کی انسانیت سوز جارحیت رکوا سکتے ہیں، لیکن وہ ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ اگر انہوں نے اس ضمن میں کوئی قدم اٹھایا تو سامراج ان کے اقتدار کا خاتمہ کردے گا۔ اس لئے علامہ اقبال کا خواب کہ ''تمام مسلمان ممالک حرم کی پاسبانی کے لئے ایک ہو جائیں‘‘ شاید شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے، آج اسرائیل کو غزہ کی پٹی پر جارحیت کی ہمت اس لئے بھی ہوئی ہے کہ مسلم ممالک آپس میں تقسیم ہوگئے ہیں، ''عرب بہار‘‘ کا تخیلاتی انقلاب سامراج کی گود سے پیدا ہوا تھا، اور سامراج کی گود میںہی دم توڑ گیا ہے، لبیا، مصر، تونس، شام، عراق ان تمام ممالک کے با اثر اور با اختیارافراد کو نعروں کی گونج میںپہلے تو اقتدار سے بے دخل کیا گیا ، پھر بعد میں انہیں آپس میں لڑادیاگیا سامراج کی اس حکمت عملی کو مسلم ممالک سمجھنے سے اس لئے قاصر رہے تھے کہ ان پر علم کے دروازے بند تھے، بولنے کی آزادی سلب تھی اور شعور کی تمام کرنیں ذہنی افلاس اور معاشی محرومی کے دبیز پردوں سے نکل پا نہیں رہی تھی، چنانچہ فکری تاریکی کے ساتھ سماجی عدم تحفظ نے مسلم ممالک کے عوام کو ایسے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے جہاں وہ انقلاب اور تبدیلی کے مابین فرق محسوس کرنے سے عاجز ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے سارے ملک، لسانی، فرقہ وارانہ، قبائلی عصبیت کا شکار ہو کہ آپس ہی میں دست وگریباں ہیں، جبکہ سامراج ان کے گھروں کو لگی آگ دیکھ کر مسکرا رہا ہے۔ اسرائیل بلا روک ٹوک غزہ کی پٹی پر پرُ تشدد حملے کررہا ہے اور ان کے علاقوں میں گھس کر ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں سے رہائشی علاقوں میں بمباری کرکے معصوم فلسطینیوں کو خاک وخون میں پنہاںکررہا ہے۔دوسری طرف مسلم ممالک اقتدار کو بچانے کے لئے اس بربریت سے آنکھیں چرا رہے ہیں اور اسے رکوانے سے قاصر ہیں، شاید ان عرب ممالک (جن کی کل تعداد 22ہے) کو یہ نہیں معلوم کہ آج غزہ میں نہتے فلسطینی مارے جارہے ہیں، اسرائیل ٹینک غزہ میں گھس کر رہائشی علاقوں پر گولہ
باری کررہے ہیں تو ہوسکتا ہے کل ان کی باری ہو؟ اور ایسا ہوکر رہے گا، ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات نہیں تو اور کیا ہے؟ پاکستان‘ اسرائیلی جارحیت کو چیلنج کر سکتاہے، لیکن یہاں پر بھی صورتحال خود اپنی بقا اور سلامتی کے لحاظ سے کچھ اچھی نہیں۔ اپنوں اور دشمنوں نے مل کر اس جنت نگاہ ملک کو ایسی جنگ میںدھکیل دیا ہے جس کا فی الحال کوئی انت نظر نہیں آرہا۔ یہاں پر بھی سامراج نے وہی کھیل کھیلا ہے جو مشرق وسطیٰ میں کھیلا گیا۔ لیکن کیونکہ پاکستان کے عوام اور مسلح افواج حالات حاضرہ پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہیں اور اپنے وطن کی سالمیت اور خودمختاری کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں، اس لئے اس آگ کے پھیلنے کے زیادہ امکانات نظر نہیں آرہے، جبکہ غیر ملکی اور مقامی دہشت گرد جو چند سکوں کی خاطر اس بھیانک کھیل میں سامراج کا حصہ بنے ہوئے ہیں، واصل جہنم ہو چکے ہیں اور اب بھی ہورہے ہیں، یقینا اگر پاکستان میں حالات پر سکون ہوتے تو یہاں سے اسرائیلی جارحیت کے سلسلے میں عالمی سطح پر کوئی نہ کوئی ٹھوس قدم اٹھایا جاسکتا تھا، بلکہ اسرائیل کی غزہ پر جارحانہ کارروائیوں کی ہر فورم پر مذمت کی جاسکتی تھی۔ اس کی توسیع
پسندانہ حکمت عملی کو بھی بے نقاب کیا جاسکتا تھا، لیکن معروضی حالات کی زنجیروں نے پاکستان کی پیش روفت کو روک رکھا ہے ویسے بھی ہمارے سیاسی قائدین عرب ممالک کے رہنمائوں سے کسی طرح بھی کم نہیں ہیں‘ ان کے بھی اقتدار کے ڈانڈے پاکستانی عوام سے نہیں بلکہ سامراج سے ملتے ہیں اس لئے ان سے یہ امید وابستہ رکھنا کہ یہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف اپنی آواز بلند کریں گے، ایک امید موہوم کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
تو پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ حرم کی پاسبانی کون کرے گا؟ اسرائیل کی غزہ میں بڑھتی ہوئی جارحیت اور سامراج کے ایجنٹوں کی مسلم ممالک میں سازشیں اور ان کے ایجنٹوںکی بھر مار ہمیںکیا کرنے اور سوچنے پر مجبور کررہی ہیں؟ مسلم ممالک کے عوام میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف غم وغصہ ، نفرت اور جوش جذبہ پایا جاتا ہے لیکن انہیں تقسیم کردیا گیا ہے، اور ان کی طاقت آپس میں خون بہانے میں صرف ہورہی ہے تو پھر جارحیت کو روکنے کے سلسلے میں کس طرح پیش رفت ہوسکتی ہے؟ چنانچہ سوال اپنی جگہ تمام تر گہرائیوں اور سیاق وسباق بلکہ اضطراب کے ساتھ اپنی جگہ موجود ہے کہ حرم کی پاسبانی کون کرے گا؟ سوچ سوچ کر ذہن تھک گیا ہے، افطار کا وقت آن پہنچا ہے اور قریبی مسجد سے اذان کی آواز آرہی ہے، اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر... لا الہ الا اللّٰہ۔