پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت نے ضرب عضب شروع کرنے سے پہلے افغانستان کی حکومت سے کہا تھا کہ وہ شمالی وزیرستان سے متصل سرحدوں کو سیل کردے تاکہ دہشت گرد فرار ہوکر وہاں جمع نہ ہوسکیں لیکن افغانستان کی حکومت نے اس درخواست کو درخور اعتنانہیں سمجھا اور نہ ہی اس پر سنجیدگی سے غور کیا، چنانچہ افغانستان کے اس طرز عمل سے وہی ہوا جس کا خطرہ محسوس کیا جارہا تھا یعنی دہشت گرد خوست اور نورستان کے علاقوں میں جا بیٹھے ہیں اور پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیاں کررہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں 80کے لگ بھگ دہشت گردوں نے زیریں دیر میں حملہ کیا تھا۔ پاکستان کے بہادر فوجیوں نے انہیں مار بھگایا، سات کے قریب دہشت گرد واصلِ جہنم ہوئے جبکہ کچھ کو گرفتار کرلیا گیا، جن سے پوچھ گچھ جاری ہے۔ افغانستان کی طرف سے ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ سے ایک واضح نتیجہ اخذکیا جاسکتا ہے کہ افغانستان شمالی وزیرستان میں کی جانے والی فوجی کارروائی کو ناکام بنانے پر تلا ہوا ہے، اور وہ بالواسطہ دہشت گردوں کی حمایت بھی کررہا ہے۔ غیر ملکی اخباری اطلاعات کے مطابق بھارتی انٹیلی جنس کے نمائندے افغانستان میں ان بھگوڑے دہشت گردوں کو اکسا کر اور تربیت دے کر پاکستان بھیج رہے ہیں، تاکہ پاکستان میں امن قائم نہ ہوسکے۔ افغانی صدر کرزئی اس سلسلے میں بھگوڑے دہشت گردوں کی مکمل حمایت کر رہے ہیں۔ ملاّ فضل اللہ (جو تحریکِ طالبان پاکستان کا سربراہ ہے) بھی نورستان میں موجود ہے اور دہشت گردوں کی پاکستان کے خلاف کارروائی کی حوصلہ افزائی کررہا ہے۔ یقینا یہ صورتحال پاکستان کے لیے تشویش کا باعث بن رہی ہے۔ اس تشویش کا اظہار پاکستان کی عسکری قیادت نے بھی کیا ہے اور کر رہی ہے جبکہ دوست ممالک ابھی تک خاموش ہیں۔
دوسری طرف بھارت کے نئے فوجی سربراہ دلبیر سنگھ نے اپنا عہدہ سنبھالتے ہی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پاکستان کی طرف سے کنٹرول لائن پر کسی قسم کی فوجی کارروائی ہوئی تو اس کا ''فوری اور ٹھیک ٹھاک ‘‘جواب دیا جائے گا۔ بھارتی فوج کے نئے سربراہ کے اس بیان سے ان کی پاکستان دشمنی عیاں ہورہی ہے۔ اس قسم کے دھمکی آمیز بیانات بھارتی فوج کے سابق سربراہ کے بی سنگھ بھی دیا کرتے تھے۔ اس وقت جب یہ کالم لکھا جارہا ہے، کنٹرول لائن پر بھارت کی طرف سے سخت خلاف ورزی ہورہی ہے، جس کا معقول ومناسب جواب پاکستان کی فوج بھی دے رہی ہے، لیکن ایسا محسوس ہورہا ہے کہ بھارت کی انتہا پسند مودی سرکار اور ان کی فوج کیا نیا انتہا پسند سربراہ پاکستان کی اندرونی صورتحال سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ مجھے تو اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں لائن آف کنٹرول پر روایتی جنگ کا آغاز نہ ہوجائے‘ جس کے لئے بھارت خفیہ طریقے سے مسلسل کوشش کررہا ہے، اور پاکستان پر اس سلسلے میں بے بنیاد الزام عائد کررہا ہے تاکہ کسی قسم کی فوجی کارروائی کا جواز پیدا ہوسکے۔
مزید برآں شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف کی جانے والی فوجی کارروائی کے حوالے سے امریکہ کا رویہ بھی کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں دکھائی دے رہا، حالانکہ جب پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت نے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کا فیصلہ کیا تھا ، تو امریکہ اس سے پوری طرح باخبر تھا، بلکہ اس نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ اس سلسلے میں پاکستان کی بھرپور مدد کرے گا لیکن اب امریکہ کو یہ شکایت پیدا ہورہی ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی نہیں کررہا۔ پاکستان کی حکومت سے اس کا برملا اظہار بھی کیا جارہا ہے، حالانکہ امریکہ کا یہ الزام حقائق اور معروضی حالات کے قطعی بر عکس ہے۔ شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی سے قبل ساری دنیا کو معلوم تھا کہ فوجی کارروائی بلا امتیاز ہر دہشت گرد گروپ کے خلاف ہوگی اور ہو بھی رہی ہے، چنانچہ امریکہ کا یہ الزام کہ پاکستان کی عسکری قیادت حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی نہیں کررہی، بے بنیاد لغواور مہمل ہے‘ جس کا کوئی سر پیر نہیں ہے۔
قارئین کرام کو یاد ہوگا کہ امریکہ کی موجودہ قیادت پاکستان پر مسلسل دبائو ڈال رہی تھی کہ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ختم کرنے کے لئے فوری کارروائی کی جائے۔ جب پاکستان نے اپنے قومی مفاد اور ملک کی سالمیت کے حوالے سے بڑی سوچ بچار کے بعد غیر ملکی اور مقامی دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا تو امریکہ اور اس کے حواری ممالک طرح طرح کے اعتراض اور بے بنیاد نکتہ چینی کر رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان دشمنوںمیں گھر چکا ہے اور پاکستان کی سیاسی قیادت Vision lessہے‘ اس میں نہ تو ملک چلانے کی صلاحیت ہے اور نہ ہی وہ ایسے اقدامات کر رہی ہے‘ جن سے یہ ظاہر ہو کہ اس کو پاکستان کی سرحدوں پر ہونے والے واقعات کا ادراک ہے۔ جیسا کہ میں نے اپنے گزشتہ کالموں میں لکھا ہے‘ اس وقت پاکستان کو اپنی ڈپلومیسی کو زیادہ فعال اور موثر بنانے کے لیے بھر پور کوشش کرنی چاہیے تاکہ امریکہ سمیت افغانستان اوربھارت کی پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیوں کا سد باب کیا جاسکے۔ اگر حکومت نے پاکستان کے خلاف ہونے والے پاکستان دشمن ممالک کے پروپیگنڈے کا بھر پور جواب نہ دیا تو یہ ممالک ہمارے لیے بہت سے مسائل کھڑے کر سکتے ہیں۔ ایک اور مستند اطلاع کے مطابق آئی ڈی پیز
کی صفوں میں دشمن ممالک اور دہشت گردوں کے کچھ ایجنٹ گھس آئے ہیں۔ وہ انہیں بہکارہے ہیں اور خواہ مخواہ کا یہ احساس دلارہے ہیں کہ حکومت ان کی معقول و مناسب دیکھ بھال نہیں کررہی، انہیں جلد ان کے گھروں میں واپس بھیج دیا جائے۔ پاکستانی میڈیا بھی آئی ڈی پیز سے ایسے سوالات کررہا ہے جو موجودہ صورتحال کے پیش نظر نامناسب بلکہ غیر ذمہ دارانہ ہیں‘ بلکہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ سیاق و سباق سے ہٹ کر کیے جانے والے ایسے سوالات اور ان کے جوابات سے دشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
ایک اور المیہ جو گہری تشویش اور اضطراب کا باعث بنا ہوا ہے‘ وہ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان تیزی سے بڑھتا ہوا رسہ کشی کا عمل ہے۔ اس اضطرابی سیاسی ماحول کی وجہ سے پاکستان میں کوئی ڈھنگ کا کام نہیں ہورہا اور ترقیاتی کام محض کاغذی کارروائیوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ بیوروکریسی سیاست دانوں کے مابین اس چپقلش سے پورا پورا فائدہ اٹھا رہی ہے اور مال سمیٹنے میں لگی ہے‘ جس کا تذکرہ اور احوال واقعی آئے روز اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے اس افراتفری کے ماحول میں پاکستان کے دشمن بھر پور فائدہ اٹھارہے ہیں، اور ہر سمت سے ہم پر حملہ آور ہورہے ہیں۔ کیا پاکستان کی حکومت اور حزب اختلاف کے سیاست دانوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے؟ اور اگر نہیں ہے تو پھر جو ہوگا وہ ہم سب کے لئے بہت برا ہوگا، اس لئے اب بھی وقت ہے کہ ہم سنبھل جائیں اور انتہا پسندی کو ترک کرکے افہام وتفہیم سے کام لے کر موجودہ حالات میں سدھار پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اسی میں ہماری بقاء ہے۔