آج کل پاکستان میں جو کچھ بھی ہورہا ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ نام نہاد جمہوری قوتیں پاکستان کی تعمیر نو اور عوام کی فلاح وبہبود کے سلسلے میں برُی طرح ناکام نظر آرہی ہیں ۔اس کی ایک مثال گزشتہ جمہوری حکومت تھی جس نے بے نظیر بھٹوکے خون ناحق کی بنا پر اقتدار حاصل کیا اور پھرارباب اختیار ملک کے وسائل کوبُری طرح لوٹنے میں جُت گئے۔ ان کے '' حسن کارکردگی ‘‘ کے تمام تر قصے اور کہانیاں پاکستان کے علاوہ دنیا بھر کے اخبارات میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ میاں نواز شریف کی ماضی اور حال کی حکومت بھی کرپشن کے الزامات سے مبرّانہیں ہے ،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے خلاف نیب میں 71سے زائد مقدمات زیر تفتیش ہیں۔اگر ان میں سے چند ایک کے فیصلے بھی ایمانداری سے ہوجاتے ہیںتو حکمرانوں کی سیاسی ساکھ کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا۔
1990ء کی دہائی میں پی پی پی اور مسلم لیگ باری باری اقتدار پر فائز رہی تھیں ۔ اس عرصے کے اخبارات کی فائلیں اٹھا کر دیکھ لیں ۔معلوم ہوجائے گا کہ اس دس سالہ دور میں حقیقی معنوں میں کسی بھی قسم کے ترقیاتی کام نہیں ہوئے تھے بلکہ وہ پورا دور جمہوری قوتوں کے درمیان باہمی لڑائی جھگڑے میں گزر گیا تھا،جس کا سراسر نقصان ملک اور عوام کو ہوا تھا۔اس کے بعد ان جمہوری قوتوں نے اپنی بقاء کی خاطر (عوام کے لئے نہیں) معاہدہ کرلیا، جسے میثاق جمہوریت کا نام دیاگیا۔طے پایا کہ جمہوری قوتیں ایک دوسرے کو اقتدار سے ہٹانے کی کوشش نہیں کریں گی۔ اس معاہدے میں بے نظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف پیش پیش تھے( آصف علی زرداری کا اس سلسلے میں کوئی کردار نہیں تھا) لیکن ابھی اس معاہدے کے اثرات پاکستان کے سیاسی افق یا عوام کے ذہنوں پر مرتب بھی نہیں ہوئے تھے کہ بے نظیر بھٹو نے امریکہ اور یو اے ای کے تعاون اور رہنمائی میں سابق صدر جناب پرویز مشرف کے ساتھ اقتداری فارمولا طے کرلیا تھا، یہ دوسری بات ہے کہ بے نظیر بھٹو کو کچھ اپنوں اور کچھ غیروں نے مل کر ایک گہری سازش اور منصوبہ بندی کے ساتھ اس دنیائے فانی سے رخصت کردیا ۔اس طرح پاکستان کی سیاسی صورتحال یکسر بدل گئی اور بعد میں ایک ایسا شخص پاکستان کا صدر بن گیا،جسے پاکستان کے سیاسی اور عوامی حلقوں میں کوئی پذیرائی حاصل نہیں تھی،بلکہ جب آصف علی زرداری کو پاکستان کا صدر منتخب کیا گیا تو اس خطے کے تمام ممالک حیران رہ گئے ، کیونکہ آصف علی زرداری کی خصوصیت صرف یہ تھی کہ وہ بے نظیر بھٹو کے شوہر تھے اور بے نظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں ہی ان پر کرپشن کے الزامات عائد ہونا شروع ہوچکے تھے۔ان کے اقتدار میں آنے کے ابتدائی دنوں میں خود موجودہ حکمرانوں نے ذہنی طور پر انہیں قبول نہیں کیا تھا بلکہ اپنے مالی ذرائع استعمال کرتے ہوئے آصف علی زرداری کے خلاف میڈیا پر زبردست مہم چلائی گئی تاکہ ان کی ذات اور ان کی حکومت کو عوام کی نگاہوںمیں بے توقیر کیا جاسکے، لیکن بعد میں جناب آصف علی زرداری نے میاں صاحب کو رام کرلیا اور ان سے وعدہ کیا کہ آئندہ ان کو اقتدار میں لانے کے لئے ان کی پارٹی ان سے تعاون کرے گی۔جناب آصف علی زرداری ملک کو مضبوط نہ کرسکے ،یہاں تک کہ معیشت کی موجودہ صورتحال انہی کی کارکردگی کا نتیجہ ہے (اخبارات کی فائلیں اٹھا کر دیکھ لیں)۔
آج پاکستان معاشی، سیاسی اورسماجی طورپر ایک انتہائی کمزور ملک بن چکا ہے۔ اس صورتحال سے پاکستان دشمن طاقتیں (بیرونی اور اندرونی بھی) پورا پورا فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ یہ ہے کارکردگی ان نام نہاد جمہوری قوتوں کی جو عوام کو سبز باغ دکھا کر اور اپنی ناجائز دولت کے بل پر عام انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے اقتدار میں آتی ہیں ، چنانچہ پولیٹیکل سائنس کا ایک باشعور
طالب علم یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ کیا ملک کے وسائل کو لوٹنے اور عوام کو ان کے جائز آئینی وقانونی حقوق سے محروم کرنے والے ''جمہوری قوتیں ‘‘کہلاسکتے ہیں؟دوسری طرف ''غیر جمہوری قوتوں‘‘ جن کو فوجی حکومت کو کہا جاتا ہے، کے دور میں جتنی بھی صنعتی، معاشی اور معاشرتی ترقی ہوئی ہے ،اس کی مثال ملنی مشکل ہے ۔ ان غیر جمہوری حکومتوں میں عوام کے ایماندار سیاسی نمائندے بھی شامل رہے ہیں۔ اگر پاکستان کی اقتصادی ترقی کے حوالے سے ڈاکٹر عشرت حسین کی کتاب ' Key Issue of Pakistan Economy‘کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ پاکستان کو معاشی طورپر مضبوط بنانے اور ترقی دینے میں ایوب خان ، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے دور کو سنہری دور سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ ان تین فوجی سربراہوں کی حکومت کے دوران پاکستان نے غیر معمولی معاشی ترقی کی تھی اور عوام کی غربت میں نمایاں کمی ہوئی تھی(ورلڈ بینک رپورٹ) ۔مزید برآںعالمی سطح پر پاکستان ایک انتہائی معتبر ملک کے طور پر جانا جاتا تھا اور اس کے وقار میں اضافہ ہوا تھا۔ پاکستان کی تمام تر نیوکلیئرترقی فوجی حکومتوں کے دوران ہوئی ۔(ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کو پاکستان لانے میں بھٹو مرحوم کا بھی نہایت اہم کردار ہے) ،
چنانچہ انہی غیر جمہوری قوتوں نے پاکستان کو معاشی،سیاسی اورمعاشرتی استحکام سے ہمکنار کیاہے ۔
اس مختصر کالم کو پڑھ کہ قارئین خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ نام نہاد جمہوری قوتوں نے پاکستان کو کتنا نقصان پہنچایا ہے، اور وہ اب بھی اس سلسلے میں سرگرم ہیں۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے خلاف میاں نواز شریف کی خدمت اور معاونت کرنے میں کون سی ''جمہوری قوتیں ‘‘پیش پیش ہیں؟ کیا عوام ان کے چہرے نہیں پہچانتے ؟ یہ لوگ اسی لیے میاں صاحب کے گرد جمع ہوگئے ہیں کہ ایک ''غیر جمہوری ‘‘طاقت یعنی فوج اقتدار میں نہ آجائے اور اگر وہ آگئی تو ان کی کرپشن کا سخت ترین بلکہ بے رحمانہ احتساب کیا جائے گا ۔اسی لیے یہ خوف زدہ ہیں اور اپنے کرتوتوں کو چھپانے اور ان پر پردہ ڈالنے کے لئے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف متحدہوگئے ہیںتاکہ دھاندلیوں کے ذریعے قائم ہونے والی حکومت کو سہارا مل سکے۔ تاہم میں یہاں وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ فوج موجودہ حالات میں اقتدار میں آنے کا سوچ بھی نہیں سکتی ،کیونکہ نام نہاد جمہوری قوتوں نے اس ملک کو بُری طرح برباد کردیا ہے اور عوام کو افلاس اور محرومیوں کے گہرے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔ جو نام نہاد جمہوری حکومتیں بلدیاتی انتخابات نہیںکراسکتیں، وہ جمہوریت اور عوام کی خدمت کرنے کا دعویٰ کس طرح کر سکتی ہیں؟