ماریشس بحرہند میں جنوبی افریقہ اور مڈغاسکر کے قریب ایک جزیرہ نما ملک ہے جو اپنے فطری حسن کی وجہ سے پوری دنیا میں سیاحت کے حوالے سے بے پناہ کشش رکھتا ہے۔ گزشتہ دنوں پاکستان میں ماریشس کے اعزازی قونصل جناب سہیل یاسین کی قیادت میں دنیا ٹی وی کے اینکر کامران شاہد سمیت چند صحافیوںکا وفد ماریشس میں ہونے والے ایک ایکسپو میں شرکت کے لئے گیا تھا۔ پاکستان کا اتنا بڑا وفد پہلی بار ماریشس گیا تھا جس نے اپنی عمدہ کارکردگی اور حسن اخلاق سے اس چھوٹے سے جزیرے میں پاکستان کا اچھا امیج اجاگر کیا۔ اس جزیرے کو صدیوں پہلے عربوں نے دریافت کیا تھا، بعد میںفرانس نے اس پر قبضہ کرلیا، جب فرانس کی اس جزیرے پر گرفت کمزور ہوئی تو برطانیہ نے اس پر اپنی حاکمیت کا جھنڈا گاڑ دیا۔ اس جزیرے کی آبادی تیرہ لاکھ کے قریب ہے جس میں ہرمذہب کے ماننے والے لوگ مل جل کر رہتے ہیں۔ مسلمانوں کی آبادی 22 فیصد ہے جن کا دل پاکستان کے لئے اور پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ میں نے ماریشس کے مسلمانوں میں پاکستان کے لئے محبت کے جو جذبات اور احساسات دیکھے‘ انہیں لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔اس چھوٹے سے جزیرے میں چھوٹی بڑی ملا کر دو سو مساجد ہیں جبکہ اتنی ہی تعداد مندروں کی بھی ہے۔ بعض جگہ مسجد اور مندرکی دیواریں ملی ہوئی ہیں جس سے عملی طورپر باہمی مذہبی رواداری اور برداشت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ ہندو اور مسلمانوںکے درمیان کبھی نہ کوئی تنازع ہوا نہ جھگڑا، ہر شخص اپنے اپنے عقیدے کے مطابق زندگی بسر کرتاہے۔ یہاں دیگر مذاہب کے ماننے والوں مثلاً عیسائیت اور بدھ مت کے پیروکاروں میں بھی اختلاف نہیں پایا جاتا۔ دوسرے لفظوں میں یہاں ہر لحاظ سے اور ہر سطح پر مذہبی ہم آہنگی، برداشت اور رواداری پائی جاتی ہے۔،حقیقت میں یہی ان کی زندگیوں کا طرہ امتیاز ہے۔ پاکستانی وفد کے لئے رواداری کا یہ منظر حیرت کا باعث تھا۔ یہاں کے سفیر الفت حسین اور اعزازی قونصل جناب سہیل یاسین کے توسط سے ماریشس کے وزیراعظم اور صدر سے بھی ملاقات ہوئی جنہوں نے پاکستان سے اپنی بے پناہ محبت اور عقیدت کا اظہارکیا۔
اس جزیرے کا سیاسی اور سماجی نظام پارلیمانی طرزپرچلایا جاتاہے۔ ہر پانچ سال کے بعد عام انتخابات ہوتے ہیں، اس وقت لیبر پارٹی برسراقتدار ہے جس نے اپنے منشور کے مطابق جزیرے کے ہر باشندے کے لئے تعلیم اور صحت کی سہولتیں مفت فراہم کی ہوئی ہیں۔ بے روزگاری زیادہ نہیں اور نہ ہی حکومتی سطح پر کرپشن ہوتی ہے۔ حکومت نے سیاحت کو فروغ دے کر بے روزگاری کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے، ہر سال تقریباً پانچ لاکھ کے قریب سیاح سیر وتفریح کے لئے یہاں آتے ہیں۔ ماریشس کے ساحل بے حد خوبصورت ہیں، سمندر کا پانی شفاف اورہر قسم کی آلودگی سے پاک ہے۔ سیاحوں کے لئے بہترین ہوٹلوں کی چین موجود ہے جہاں سیاحوں کے ذوق کے مطابق ہر قسم کے کھانے مہیا کئے جاتے ہیں۔ پاکستان کی بریانی بہت مشہور ہے ۔ پاکستان کے باسمتی چاول کو ماریشس کے عوام بہت پسند کرتے ہیں اور اس کی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔ سیاحت کے لئے آنے والوں میں زیادہ تر یورپی، چینی، جاپانی، امریکن شامل ہوتے ہیں جبکہ پاکستان اور ہندوستان سے اس ملک میں آنے والے سیاحوں کی تعداد زیادہ نہیں ہوتی، شاید طویل ہوائی سفر کی وجہ سے! ماریشس میں جناح مارکیٹ اور علامہ اقبال سے منسوب سڑکیں موجود ہیں۔ اردو زبان بہت تیزی سے پھیل رہی ہے بلکہ ماریشس کے مسلمانوں کی دوسری زبان اردو ہے جس کے فروغ کے لئے یہ لوگ کوشاں رہتے ہیں۔ پاکستان کے سفیر جناب الفت حسین اردو زبان کے فروغ کے لئے یہاں کے لوگوں کی بھر پور مدد کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے اعزازی قونصل جناب سہیل یاسین اور وفد کے دیگر ارکان کی موجودگی میں اردو مرکز (Urdu Speaking Union) کی بنیاد رکھی۔اس اردو مرکز کے لئے ماریشس کی حکومت نے 12کنال زمین مفت فراہم کی ہے جس کی تعمیر پر تقریباً پانچ کروڑ روپے لاگت آئے گی۔ وفد میں شامل پاکستان کے صنعت کاروں نے ماریشس کے اردو دان طبقے کو یہ یقین دلایا کہ وہ پاکستان جاکر اس رقم کا انتظام کرنے کی کوشش کریں گے ۔ اعزازی قونصل نے بھی اس سلسلے میں اپنے بھر پور تعاون کا یقین دلایا اور امید ظاہرکی کہ پانچ کروڑکی رقم جمع کرنا کوئی مشکل مسئلہ ثابت نہیں ہوگا۔ جناب الفت حسین ماریشس میں 23 مارچ کو پاکستان ڈے منانے کا اہتمام کرتے ہیں جس میں ماریشس کی اعلیٰ سیاسی و سماجی افراد شرکت کرکے پاکستان سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ 14اگست کو یوم آزادی کی تقریبات بھی منعقد کی جاتی ہیں۔ ماریشس کی بعض سماجی تنظیمیں اپنے انداز میں پاکستانی سفارت خانے کے تعاون سے پاکستان کا یوم آزادی مناتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے ماریشس کے طلبہ کے لئے سکالر شپ کا انتظام بھی کیا ہواہے جس سے ماریشس کے طلبہ فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے اعلیٰ درسگاہوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ان طلبہ و طالبات کی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں موجودگی سے ان دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں آہستہ آہستہ اضافہ ہورہا ہے۔ جناب سہیل یاسین نے ماریشس کی حکومت کو یقین دلایا کہ طلبہ کے لئے وظائف میں مزید اضافہ کرنے کی کوشش کی جائے گی تاکہ بڑی تعداد میں ماریشس کے طلبہ تعلیم حاصل کرسکیں۔
کچھ ایسے ڈاکٹروںسے بھی ملاقات ہوئی جنہوں نے پاکستان کے میڈیکل کالجوں سے اپنے وسائل سے طب کی تعلیم حاصل کی تھی ، اب وہ اپنے عوام کی خدمت کررہے ہیں۔کچھ ایسے نوجوان ڈاکٹروں سے بھی ملنے کا اتفاق ہوا جنہوں نے پاکستانی لڑکیوں سے شادی کی ہے اور خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں۔ میڈیا کے ایک نوجوان ناصرالدین سے بھی ملاقات ہوئی جس نے راولپنڈی کے ایک معززگھرانے میں شادی کی ہے۔
ماریشس میںایک اسلامک سینٹر بھی قائم ہے جہاں اہم مذہبی تقریبات منعقد ہوتی ہیں، ہماری موجودگی میں عید ملن پارٹی کا اہتمام کیا گیا جس میں ماریشس کے مسلمانوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ عید ملن پارٹی کے مہمان خصوصی وزیراعظم ماریشس سے تھے جنہوں نے اس موقع پر نہایت ہی بصیرت افروز تقریر کرتے ہوئے غزہ کی پٹی میں فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیل کے بہیمانہ ظلم کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں کہا کہ اسرائیلی مظالم کے سامنے مسلمان ملکوں کی بے بسی اور بے حسی دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے۔ اگر اسلامی ملک باہم مل جائیں تو 80 لاکھ کی آبادی پر مشتمل اسرائیلی ملک کو اس کے ظلم کا مزہ چھکایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سامراج مسلمانوں کے درمیان مذہبی منافرت پھیلارہا ہے اور مسلمان اس کا آلہ کار بن رہے ہیں، ہر خطے میں صرف مسلمان ہی ایک دوسرے کو تباہ و برباداور اپنے تہذیبی نشیمن کو آگ لگا رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی موجود ہ صورت حال پر بھی اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا، لیکن اپنی گفتگو میں احتیاط کو ملحوظ خاطر رکھا کہ مبادا پاکستانی وفد کی دل آزاری نہ ہوجائے۔ ہر چند کہ وزیراعظم کا تعلق ہندو مذہب سے ہے لیکن تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا ، سب نے انتہائی مہذب انداز میں کلام ربانی سنا اور اس کے روحانی پیغام سے فیض یاب ہوئے۔ (جاری)