پاکستانی وفد کے سربراہ جناب سہیل یاسین کی قیادت میں ہمیں وہاں کی بین الاقوامی نمائش Maitexدیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ نمائش ہر سال منعقد ہوتی ہے جس میں ماریشس کے کارخانوں اور چھوٹے تجارتی اداروں کی جانب سے تیار کردہ سامان نمائش میں رکھا جاتا ہے۔ اس نمائش میں شرکت کے لئے آنے والوں کی زیادہ تعداد افریقی ممالک سے ہوتی ہے، کیونکہ ماریشس افریقہ کے ملکوں کے قریب واقع ہے۔ پاکستان اور بھارت سے اس نمائش میں آنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ نمائش کے آرگنائزر نے پاکستانی وفد کا شاندار استقبال کیا اور اپنی تقریروں میں حاضرین کو پاکستانی وفد کی موجودگی کا احساس دلایا۔ ہمارے اس وفد میں ماریشس کے سابق پاکستانی سفیر جنرل صدیقی بھی موجود تھے۔ انہوں نے اپنے سفارتی عہد کے دوران ان دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کو بڑھانے اور فروغ دینے میںاہم کردار ادا کیا تھا۔ ماریشس کے کارخانوں میں تیار کردہ سامان میں کپڑے، ہیرے، جواہرات، مختلف اقسام کے خوشبودار صابن ، مقامی طورپر تیار کردہ سرف، جوتے، خواتین کے اعلیٰ ملبوسات وغیرہ شامل تھے، جن کو پاکستانی وفد نے بہت پسند کیا۔ جناب سہیل یاسین نے Maitex کے آرگنائزرز سے کہا کہ اکتوبر میں پاکستان کی بین الاقوامی نمائش Expo منعقد ہونے والی ہے‘ اس میں آپ ضرور شرکت کریں۔ ہمیں ماریشس کی اس نمائش میں ایسے افراد سے بھی ملنے کا اتفاق ہوا جنہوں نے گزشتہ سال کراچی میں بین الاقوامی نمائش ایکسپو میں شرکت کی تھی اور آئندہ بھی شرکت کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس نمائش کو دیکھ کر میں نے یہ اندازہ لگایا کہ ماریشس میں پاکستان کے چمڑے کے لباس اور انجینئرنگ کے سامان کی خاصی کھپت ہوسکتی ہے، اگر اچھی اور مناسب مارکیٹنگ کی جائے!
نمائش کا افتتاح وہاں کے وزیر صنعت نے کیا‘ جنہیں انگریزی اور فرانسیسی زبانوں پر خاصا عبور حاصل ہے۔ جیسا کہ میں نے اپنے اس سفر نامے میں بتایا کہ ہمارے وفد میں صحافیوں کے علاوہ پاکستان کے نامی گرامی صنعت کار اور بزنس مین بھی شامل تھے، جن میں یحییٰ پولانی، رئوف تابانی، انجم نثار (سابق صدر کراچی چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری)، جناب انیس صاحب (آئی ٹی)، رحمن پنجوانی، نوجوان بزنس مین دانش اور غنی، محمد علی راجپر (شپنگ انڈسٹری)، مسز یاسمین اور جناب سہیل یاسین صاحب قابل ذکر ہیں۔ ان سب حضرات نے وہاں کے تاجروں اور صنعت کاروں سے ملاقات کرکے پاکستان اور ماریشس کے درمیان آئندہ تجارت کے فروغ سے متعلق گفتگو کی‘ جو بہت کامیاب رہی۔ محمد علی راجپرنے پاکستان اور ماریشس کے درمیان جہاز رانی سے متعلق وہاں کے متعلقہ افراد سے تبادلۂ خیال کیا اور جائزہ لیا کہ آئندہ اس ضمن میں کیسے اور کس طرح کی حکمت عملی اختیار کی جاسکتی ہے۔ یحییٰ پولانی پاکستان کی ٹریول اورٹور ازم انڈسٹری میں ایک اہم نام ہے۔ انہوں نے اس شعبے سے متعلق وہاں کے اہم افراد سے ملاقات کی اور ان دونوں ملکوں کے درمیان سیاحت کے فروغ کا جائزہ لیا۔ جناب یحییٰ پولانی نے ماریشس اور کراچی کے درمیان پی آئی اے کی سروس کے اجرا سے متعلق بھی تفصیلی گفتگو کی۔ اگر پاکستان کے سیاسی حالات نے اجازت دی تو ماریشس کے لئے پی آئی اے کی سروس شروع ہوسکتی ہے۔ انجم نثار نے بھی پاکستان اور ماریشس کے درمیان تجارت کے فروغ کے امکانات کا جائزہ لیا۔ انہیں پاکستان کے وسائل سے متعلق اعداد وشمار ازبر ہیں‘ جس کو سن کر کوئی بھی شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ روف تابانی کا ہوا بازی کی صنعت میں خاصا تجربہ ہے۔ انہوں نے بھی اس سلسلے میں ماریشس کے متعلقہ افراد سے بات چیت کی‘ جس کے نتائج آئندہ دنوں میں سامنے آئیں گے۔ پاکستانی وفد میں شامل ان تاجروں اور صنعت کاروں نے ماریشس میںپاکستان کے امیج اور وقار کو بلند کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کے سفیر جناب الفت حسین نے ہر جگہ اور ہر موقع پر پاکستانی وفد کی رہنمائی کی اور انہیں اپنے قیمتی مشوروں سے بھی نوازا۔
پاکستانی سفیر ماریشس میں پاکستان کے مجموعی امیج کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ انہوں نے ماریشس کے میڈیا کو بھی اپنے حسن اخلاق سے متاثر کیا اور اپنا ہمنوابنا لیا۔ ماریشس کے میڈیا پر بھارت کا بہت اثر ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں بھارتی سفارت خانہ بہت فعال اور متحرک ہے اور ایک ایجنڈے کے تحت بھارت کے امیج کو خوبصورت سے خوبصورت تر بنا کر پیش کرتا ہے۔ بھارت کے سفارت خانے میں 80افراد کام کرتے ہیں جن میں چار فوجی بھی شامل ہیں۔ دوسری طرف پاکستانی سفارت خانے میں صرف تین افراد کام کررہے ہیں۔ ان تین افراد کے ساتھ پاکستان کی بہتری کے لئے کام کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، لیکن الفت حسین بڑی مہارت ، ذہانت اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہوکر سفارتی ذمہ داریاں پوری کررہے ہیں۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کو چاہیے کہ نہ صرف ماریشس بلکہ دوسرے ممالک میں قائم پاکستانی سفارت خانوں میں لائق اور فاضل افراد کی تعداد میں اضافہ کرے تاکہ دنیا بھر میں پاکستان کے تجارتی اور ثقافتی مفادات کا تحفظ کیا جاسکے۔ ماریشس کے پاکستانی سفارت خانے میں کامرس منسٹری کا کوئی نمائندہ موجود نہیں ہے۔ چند روز پہلے تک ایک افسر موجود تھا لیکن اس کو بھی کامرس منسٹری نے فارغ کردیا ہے؛ چنانچہ ان نامساعد حالات میں کس طرح ماریشس اور پاکستان کے درمیان تجارتی تعلقات میں اضافہ ہوسکتا ہے؟
ماریشس میں اسلام کا فروغ عربوں کی موجودگی سے شروع ہوا تھا ‘جنہوں نے اس جزیرے کو دریافت بھی کیا تھا۔ اس کے بعد مشہوروممتاز عالم دین جناب عبدالعلیم صدیقی نے یہاں اسلامی تعلیمات کی بڑھ چڑھ کر تبلیغ کی اور کئی سو افراد کو مشرف بہ اسلام کیا۔ انہوں نے یہاں ایک بڑی جامع مسجد کا سنگ بنیاد بھی رکھا جس میں اب سینکڑوں مسلمان روزانہ پانچ وقت کی نماز ادا کرتے ہیں۔ جناب عبدالعلیم صدیقی کی وفات کے بعد اس سلسلے کو ان کے فرزنداور مشہور عالم دین اور سیاست دان مرحوم شاہ احمد نورانی نے جاری رکھا اور اسلام کی اعلیٰ اور ارفع تعلیمات کو فروغ دینے اورپھیلانے میںکوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا تھا۔ جناب شاہ احمد نورانی کی وفات کے بعد ان کے فرزند انیس نورانی نے اس سلسلے کو جاری رکھا ہوا ہے۔ وہ اکثر ماریشس آتے رہتے ہیں۔ آئندہ ماریشس اور پاکستان کے درمیان پائیدار معاشی وثقافتی تعلقات کے فروغ کے سلسلے میں ذمہ داریاں ماریشس میں پاکستان کے اعزازی قونصل جناب سہیل یاسین پرعائد ہوتی ہیں جو یقینا اپنے اعلیٰ اخلاق اور کارکردگی سے یہ ذمہ داریاں بہ حسن و خوبی انجام دے سکیں گے۔ ان کے ساتھ ان کی مدد کے لئے ان کے ایک افسر جناب سجاد صاحب موجود ہیں جنہوں نے ماریشس میں پاکستانی وفد کے قیام کے دوران تمام ارکان کا اس قدر خیال رکھا اور اتنی تواضع کی کہ سب کے دل موہ لیے۔ پاکستان ماریشس دوستی زندہ باد۔ (ختم)