ڈاکٹر طاہرالقادری اور جناب عمران خان کا عام انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف 14اگست سے احتجاج جاری ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا، دھرنوں کی صورت میں یہ سب سے بڑا احتجاج ہے۔ جس کا پیغام سارے پاکستان میں پہنچ گیا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اور جناب عمران خان کا پیغام بالکل واضح اور صاف ہے یعنی ملک میں جمہوریت کے فروغ اور استحکام کے لئے انصاف اور قانون کی بالادستی اور اس کی ہر سطح پر عمل داری اور احتساب لازمی ہے۔ پاکستان کا آئین بھی یہی کہتا ہے بلکہ دنیا بھر میں جمہوریت کا فروغ انصاف اور قانون کی بالادستی سے مربوط اور وابستہ رہا ہے۔ پاکستان میں فوجی حکومتیں بھی آئیں اور جمہوری حکومتیں بھی، ان سب نے اپنے تئیں آئین کی روشنی میں انسانی حقوق کی پاس داری اور عوام کو انصاف فراہم کرنے کے لیے کوششیں کیں لیکن توقع کے مطابق باثمر نہ ہوئیں،فوجی حکومتوں کی اولین ترجیحات ملک میں نظم ونسق قائم کرنے اور اسے بہتر بنانے پر مرکوز تھیں، جس کی وجہ سے ان کے ادوار میں اقتصادی ترقی کا گراف اونچا ہوگیا تھا۔ جمہوری حکومتوں نے اپنے ادوار میں کرپشن اور اقربا پروری کو فروغ دیا جس کی وجہ سے معاشرے کے محدود طبقے کو فائدہ پہنچا؛ جبکہ خلق خدا انصاف اور معاشی ثمرات سے محروم رہی، حالانکہ جمہوریت کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ عوام کو معاشی ومعاشرتی طورپر زیادہ سے زیادہ فائدہ اور سہولتیں بہم پہنچائی جائیں۔ پاکستان میں جمہوریت کی ناکامی کے کئی اسباب ہیں اور سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ منتخب ہونے والی حکومتوں نے صرف اپنا اور اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کا خیال رکھا اور ان ہی کو زیادہ معاشی فوائد پہنچانے کی کوششیں کیں ۔ پاکستان میں جمہوریت کے سائے میں کرپشن کا سب سے بڑا دور جناب آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی کی حکومت میں شروع ہوا جس نے کرپشن کو سوسائٹی میں کلچر کی صورت عطاکردی ۔ یہاں تک کہ بیوروکریسی نے بھی کرپشن کی بہتی گنگامیں ہاتھ دھونے شروع کردیے۔ آج پاکستان میں جس قسم کی جمہوریت رائج ہے، وہ دراصل طاقت ور اور با اثر عناصر کا مضبوط گروہ ہے‘ جو نا جائز دولت وثروت کے ذریعہ اقتدار پر قابض ہے۔ انتخابات میں عوام کو سبز باغ دکھا کر اقتدار میں دوبارہ آجاتا ہے۔ پھر وہ نہ تو آئین کی روشنی میں حکومت چلاتا ہے اور نہ ہی اس کے ذہن میں انصاف یا قانون کا کوئی تصور ہوتا ہے۔اگر ہوتا بھی ہے تو وہ اس پر عمل درآمد کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ آج عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے جس جذبے سے دھرنے دیئے ہوئے ہیں، وہ دراصل جمہویت کو اس کی اصل شکل میں رائج کرنے کی کوشش ہے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں بے پناہ دھاندلیاں ہوئیں، میاں نواز شریف پیسے کے بل بوتے پر انتخابات جیتنے اور اقتدار میںآنے کے قائل ہیں۔ ماضی میں شہید بے نظیر بھٹو نے انہیں اس انتخابی دھاندلیوں کے خلاف چیلنج کیا تھا لیکن بے سود۔ بعد میں وہ نواز شریف حکومت کی طرف سے گرفتاری کے خوف سے دوبئی چلی گئیں۔
چنانچہ میاں نواز شریف نے دھرنے کی صورت میں پیدا ہونے والی پیچیدہ صورتحال کے حل کے لئے قومی اسمبلی کا مشترکہ اجلاس طلب کیا ہے، جس میں صرف فوج اور دھرنا دینے
والوں کی کردار کشی کی جارہی ہے ، قومی اسمبلی میں یہ صورتحال معاشرے میں نفرت پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہے جس کی وجہ سے مسئلہ مزید پیچیدہ ہوگیا ہے۔زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ حزب اختلاف کے قائد خورشید شاہ‘ نواز شریف کے ساتھ مل کر دھرنا دینے والوں اور فوج کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ حزب اختلاف کا یہ کردار نہیں ہونا چاہئے، تمام باشعور افراد خورشید شاہ کے اس رویے پر تنقید کررہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جو عناصر نوازشریف کی‘ نام نہاد جمہوریت کے حوالے سے حمایت کررہے ہیں، وہ پہلے اپنا احتساب کریں کہ انہوں نے پاکستان کو کتنا نقصان پہنچایا؟ اور کس طرح کرپشن کا حصہ رہے۔ آج گھر گھر بحث ہو رہی ہے کہ دھن دھونس اور دھاندلی کے ذریعہ وجود میںآنے والی جمہوریت، جس سے صرف چند خاندانوں کو فائدہ پہنچتا ہو ، کیا واقعی جمہوریت ہوتی ہے؟ اور کیا ایسی جمہوریت کے ذریعہ عوام کی سماجی ، معاشی زندگیوں میں کوئی تبدیلی آسکتی ہے؟ یقینا نہیں؛ چنانچہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری مل کر نہ صرف 2013ء کی انتخابی دھاندلیوں
کے خلاف پُر زور احتجاج کررہے ہیں بلکہ ایسی تبدیلی کے لیے کوشاں ہیں جس میں عوام کو ان کے آئینی، جمہوری اور قانونی حقوق میسر آسکیں۔یہ درست ہے کہ ان احتجاجی دھرنوں کی وجہ سے ملک کی اقتصادیات پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، اور یہ اثرات دیر تک جاری رہیں گے ، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یقینا پاکستان کو اس نہج پر پہنچانے اور دھکیلنے کی ساری ذمہ داری مسلم لیگ ن کی حکومت پر عائد ہوتی ہے، اگر میاں صاحب عمران خان کے چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کرانے کا مطالبہ منظور کرلیتے تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی ۔
میاں نواز شریف موجودہ اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں اپنے ساتھیوں سے فوج پر بلاجواز اور بلا مقصد تنقیدکرارہے ہیں۔ جمشید دستی نے بالکل صحیح کہا ہے کہ ''ایسا محسوس ہورہا ہے کہ قومی اسمبلی کا یہ مشترکہ اجلاس ملک کو بحران سے نکالنے کی بجائے فوج پر تنقید کرنے کے لئے بلا یا گیا ہے‘‘۔ میاں صاحب، جمشید دستی کے ریماکس پر غور کریں اور اپنی انا کے حصار سے نکل کر براہ راست عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری سے ملاقات کرکے حالات میں سدھار لانے کی صدق دلی سے کوشش کریں۔ ورنہ ہماری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں!