ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کے دھرنوں پر بعض عناصر کو اختلاف ہے۔ یہ اختلاف کرنا ان کا جمہوری حق ہے، لیکن جو عناصر اختلاف کررہے ہیں، انہیں یہ سوچنا چاہئے کہ کیا مسلم لیگ ن کی جانب سے 2013ء کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف طاہرالقادری اور عمران خان کا دھرنا غیر آئینی اورغیر جمہوری ہے؟پاکستان کے آئین کی بعض شقوں مثلاً 18اور 19کے مطابق کسی ایک جگہ جمع ہوکر حکومت وقت کے خلاف احتجاج کرنا عین جمہوری ہے، نیز یہ گزشتہ سال کے عام انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کے خلاف ایک ایسا احتجاج ہے جس کی پاکستان کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔اس احتجاج میں زیادہ تر نچلے اور متوسط طبقے کے خواتین وحضرات شریک ہیں جو گزشتہ 28دنوں سے اس فرسودہ ،سڑے ہوئے استحصالی نام نہاد جمہوری نظام کے خلاف اوراپنے مطالبات کے حق میں (جو دراصل عوام کہ اکثریت کے مطالبات ہیں) موسم کی تمام تر بے رحمیوں کے باوجود نعرہ حق بلند کررہے ہیں۔ اگر دھرنے دینے والوں کے مطالبات منظور کرلیے جاتے ہیںتو پاکستان میں حقیقی جمہوریت کا سورج طلوع ہوسکتا ہے جس میں کڑے احتساب کے ساتھ قانون کی بالادستی اور عوام کی فلاح وبہبود کو اولین ترجیح دی جائے گی اور اس فلاحی ریاست کا قیام ممکن بنایا جائے گاجس کا پاکستان کے دستور 1973ء میں بڑی وضاحت سے تذکرہ کیا گیا ہے۔
بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ 67سال گزر جانے کے باوجود مختلف ادوار میں منتخب ہونے والی اسمبلیوں میں آئین کی روشنی میں عوام کو سہولتیں پہنچانے کے سلسلے میں کسی قسم کے واضح اقدامات نہیں کیے گئے ۔اس وقت پاکستان میں معیشت اور معاشرت کے حوالے سے جو صورتحال پیدا ہوچکی ہے ،یہ ایک دن یا ایک سال کی پیداوار نہیں ہے بلکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے سیاست دانوں نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کیا ،چنانچہ آج ایک عام آدمی جمہوریت سے بیزار نظر آرہا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خا ن کے گرد یہ تمام لوگ اس لئے جمع ہوچکے ہیں کہ وہ اس نظام کو ختم کرنا چاہتے ہیں، جس میں صرف چند سو افراد کو ہر قسم کا تحفظ حاصل ہے، جبکہ عوام کی اکثریت نوے فیصد بنیادی سہولتوں سے محروم ہے ۔یہی چند سو افراد جن میں وڈیرے، جاگیردار، بیوروکرٹیس اور سرمایہ دار شامل ہیں ، پاکستان کے آئین کی روشنی میں کسی قسم کی تبدیلی
لانے کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ ان عناصر نے پاکستان کو اپنی طاقت ، ناجائز دولت اور انتظامیہ میں اپنے گہرے اثر ورسوخ سے اپنی جاگیر سمجھ لیا ہے اور اس شکنجے کو توڑنے کے لئے بڑی سخت محنت اور ریاضت کی ضرورت ہے ۔
ڈاکٹر قادری اور عمران خان جس پختہ جذبے ، عزم اور یقین محکم کے ساتھ اس سٹیٹس کو کے خلاف جنگ کررہے ہیں،وہ انتہائی قابل تعریف وتحسین ہے۔پارلیمنٹ میں اس وقت جو عناصر حکومت کی حمایت کررہے ہیں،وہ دراصل اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایسا کررہے ہیں ۔وہ اس دھن اور دولت کو بچانا چاہتے ہیں، جو انہوں نے غیر قانونی طورپر اپنے منصب سے فائدہ اٹھا کر حاصل کی ہے۔ پاکستان میں عوام کے مختلف طبقوں میں پھیلتی ہوئی غربت وافلاس اس بات کی نشاندہی کررہی ہے کہ عوام کو اپنے مفادات کی چکی میں بُری طرح پیسا گیا ہے ۔اب وہ نامساعد اور انتہائی تکلیف دہ حالات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔جبکہ حکومت کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ عوام پر کیا گزر رہی ہے، اور نہ ہی وہ خود کو عوام کے سامنے جو ابدہ سمجھتے ہیں ۔دنیا بھر کی جمہوریتوں میں پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے سیاست دان عوام کی سہولتوں اور ضرورتوں کے لیے اپنی آواز بلند کرتے ہیں۔اسی طرز عمل سے جمہوریت اور جمہور کے درمیان ایک اخلاقی وسماجی رشتہ استوار ہوتا ہے، لیکن پاکستان میں اس کے برعکس ہورہا ہے۔ یہاں کی پارلیمنٹ بسا اوقات اچھے قوانین تو بناتی ہے، لیکن ان قوانین پر کبھی اور کسی زاویے سے عمل نہیں ہوتا،چنانچہ معاشرے میں ایک قسم کا جمود طاری رہتا ہے۔ اس سیاسی جمودکی وجہ سے جہاں معاشرے میں ظلم بڑھا اور استحصال کرنے والے عناصر کا غلبہ مستحکم ہواہے، وہیں مملکت کے مختلف ستون بھی کمزور ہونا شروع ہوگئے ہیں، جو اپنی جگہ ایک گہری تشویش کا باعث ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ بعض عناصر ڈاکٹر قادری اور عمران خان کے موجودہ طرز عمل سے ناراض ونالاں ہوں، لیکن وہ جو کچھ بھی کہہ رہے ہیںیا کر رہے ہیں وہ پاکستان کی آئندہ نسلوں کے لئے ایک ایسے پاکستان کی تعمیر وتشکیل کی پاکیزہ خواہش سے مغلوب ہوکر، کررہے ہیں ۔وہ پاکستانی جس میں ہر طبقہ آئین کی روشنی میں ایک با عزت زندگی بسر کرسکے گا۔ اب تو نواز شریف بھی یہ سوچ رہے ہیں کہ محض وعدے وعید سے کام نہیں چلے گا ،عوام اپنا آئینی وقانونی حق چاہتے ہیں تاکہ وہ بھی معاشرے میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک اچھی زندگی بسر کر سکیں۔اسی قسم کی فکر پاکستان کے آئین میں بھی موجود ہے لیکن غرور اور خود غرضی میں لتھڑے ہوئے یہ ارکان اسمبلی بھلا آئین یا اس کے مندرجات کوکیوں کر خاطر میں لائیں گے؟ وہ صرف اپنے لیے، اپنے رشتہ داروں کے لیے اور اپنے دوستوں کے لیے حکومت کر رہے ہیں اور ایک ایسے سیاسی نظام کو مضبوط کررہے ہیں، جس میں ترقی اور خوشحالی کا چراغ صرف انہی کے محلات میں فروزاں رہے، باقی لوگ افلاس اور محرومی کی تاریکی میں گلتے سڑتے رہیں، ان کی بلا سے! پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے افراد کی نظر میں یہی جمہوریت ہے اور یہی جمہوریت عوام الناس کو نسل در نسل غلامی کی طرف لے جارہی ہے۔ بقول شاعر ؎
یہ کیسی بستیاں ہیں ،کون ہیں جو ان میں بستے ہیں
جہاں ہر چیز مہنگی ہے فقط انسان سستے ہیں