وزیراعظم میاں نواز شریف کو شکر ادا کرنا چاہئے کہ انہوں نے ایک اہم شخصیت کی مدد اور اشتراک سے ملتان کے جاوید ہاشمی کو مسلم لیگ (ن) کا حمایتی بنا لیا ہے اور بقول محترمہ کلثوم نواز کے ''دھرنے والوں کی قوت کو توڑ دیا ہے‘‘ لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ جاوید ہاشمی نے ایسی سیاست کرکے دراصل خود اپنی سیاسی قوت اور حیثیت کو اس حد تک متاثر کیا ہے کہ ملتان کے نوجوان اب انہیں عجیب القابات سے یاد کررہے ہیں۔ جاوید ہاشمی نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران تحریک انصاف کے اپنے پرانے ساتھیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا یہاں تک کہ انہوں نے دھرنا دینے والوں پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ احساس اداروں کے ایما پرایسا کررہے ہیں، حالانکہ ابھی کچھ دن قبل وہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور موجودہ کرپٹ سیاسی نظام کے خلاف تحریک انصاف کے پلیٹ فارم پر انتہائی جذباتی تقریر کرکے پاکستان میں نئے سماجی ومعاشی انقلاب لانے کے لئے پختہ عزم کا اظہار کیا کرتے تھے، لیکن جیسے ہی انہیں پرانے آقائوں نے آواز دی اور مبینہ طور پر ''چمک ‘‘کے بہت سے ذرائع ان کے قدموں پر نچھاور کردیئے تو انہوں نے اخلاقیات کے تمام تر تقاضوں کو پیروں تلے روندتے ہوئے دھرنا دینے والوں کی تحریک کے خلاف اپنی اختلافی آواز بلند کی جس کی وجہ سے وہ نہ صرف اپنی نظروں میںبے توقیر ہوگئے ہیں بلکہ پاکستان کی سیاست میں ان سیاست دانوں کی صف میں شامل ہوگئے ہیں جو اپنے معاشی مفادات کی خاطر سیاسی جماعتیں بدلتے رہتے ہیں اور سیاسی جمود اور کرپٹ سیاسی نظام کو برقرار رکھنے میںاپنا حصہ ڈالتے رہے ہیں۔ چنانچہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جاوید ہاشمی نے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو دھوکہ دیا ہے اور ان کی پشت پر خنجر گھونپا ہے بلکہ اس سے پہلے بھی وہ اپنے ضمیرکے خلاف ایسا ہی کرتے چلے آئے ہیں۔ سب سے پہلے جماعت اسلامی میں اسلامی نظام کے قیام کے لئے شامل ہوئے ، لیکن وہاں بھی زیادہ دیر تک نہیں رہ سکے، کیونکہ ان میں اسلامی نظام کے قیام کے سلسلے میں وہ صبر نا پید تھا جو کہ ایسی تحریکوں میں درکار ہوتا ہے، جب انہوں نے جماعت اسلامی کو خیرباد کہا تو انہیں زبردست تنقید کا سامنا کرنا پڑا ، لیکن کیونکہ موصوف بہت زیادہ موقع پرست واقع ہوئے ہیں، اس لئے انہوں نے اپنے اوپر ہونے والی تنقید کی پروا نہیں کی اور نہ ہی اسلامی نظام کے قیام کے سلسلے میں جماعت اسلامی کے رہنمائوں سے جو وعدے کئے تھے، اس کا بھی پاس رکھا۔ جماعت اسلامی سے علیحدہ ہونے کے بعد وہ تحریک استقلال میں شامل ہوگئے۔ اس زمانے میں اصغر خان کی تحریک استقلال ایک انتہائی مقبول سیاسی جماعت بن کر ابھری تھی۔ اصغر خان پاکستان میں سیاسی قیادت کے پس منظر میں اپنے آپ کو جناب بھٹو مرحوم کا متبادل خیال کیاکرتے تھے، بلکہ عوام میں ان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے بہت سے لوگوں کا بھی یہی خیال تھا ، لیکن جب تحریک استقلال میں ان کی دال نہیں گلی تو انہوں نے تحریک استقلال کو بھی خیرباد کردیا اور ضیاالحق کے اشارے پر قائم ہونے والی مسلم لیگ میں شامل ہوگئے اور ان کی کابینہ میں نوجوانوں کے وفاقی وزیر کے منصب پر بھی فائز ہوگئے۔ ضیاالحق نے اپنے ساتھیوں کو ہدایت کی تھی کہ جاوید ہاشمی کو ریاست کے اہم فیصلوں سے نہ تو با خبر رکھا جائے اور نہ ہی انہیں اہم اجلاسوں میں شرکت کے لئے بلایا جائے کیونکہ انہیں ان کی نیت پر شبہ تھا، لیکن اس کے باوجود وہ کچھ عرصے تک ضیا الحق کے ساتھ چمٹے رہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف بننے والی آئی جے آئی کو تشکیل دینے میں بھی ان کا اہم کردار تھا۔ دوسری طرف قومی اداروں کے خلاف ایک جعلی خط اور اس کی تشہیر کے سلسلے میں سابق صدر جناب پرویز مشرف نے انہیں جیل بھیج دیا تھا۔ اپنی گرفتاری سے قبل جاوید ہاشمی کو امید تھی کہ میاں نواز شریف ان کی مدد کریں گے اور ان کو رہا کرانے کے لئے کوشش کریں گے ، لیکن میاں صاحب نے ان پر کوئی خاص عنایت نہیں کی بلکہ وہ خود رات کی تاریکی میں ملک چھوڑ کر چلے گئے جہاں ان کی مصروفیات میں ایک اہم مصروفیت اپنے خاند ان کی تجارت کو پھیلانا تھا، وہیں ان کے والد محترم نے ایک نئی اسٹیل مل تعمیر کی جو آج بھی چل رہی ہے۔ اس دور میں عمران خان کی تحریک انصاف بڑی تیزی سے مقبولیت حاصل کررہی تھی اور ملک میں تیسری بڑی سیاسی قوت کی حیثیت سے سیاسی افق پر نمودار ہورہی تھی۔ چنانچہ انہوںنے حسب معمول شاطرانہ سیاست کے ذریعے میاں نوازشریف کو بھی الوادع کہتے ہوئے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی ، جہاں کچھ عرصے کے بعد انہوں نے یہ محسوس کیا کہ انہیں شاہ محمود قریشی کے مقابلے میں زیادہ اہمیت نہیں دی جارہی بلکہ انہوں نے اپنے چند دوستوں سے اس کی شکایت بھی کی تھی۔ جب میاں نواز شریف کو یہ معلوم ہوا کہ جاوید ہاشمی تحریک انصاف کی قیادت سے بد دلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو انہوں نے ایک اہم شخصیت کو جاوید ہاشمی سے رابطہ کرنے کو کہا جس کے لئے ایک اور صاحب کی مدد لی گئی۔ میاں صاحب جاوید ہاشمی کو تحریک انصاف سے ہٹانے میں کامیاب تو ہوگئے لیکن انہوں نے جاوید ہاشمی کا سیاسی کیریئر بھی ختم کردیا ہے۔ اب سوشل میڈیا میں انہیں اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا جا رہا۔ وہ ایک کٹی پتنگ کی مانند ہوا میں ہچکولے کھارہے ہیں، تاہم وہ اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لئے اخباری بیانات داغنے کے علاوہ پریس کانفرنس بھی کرتے رہتے ہیں، اور ایسی بے بنیاد پیشین گوئیاں کر رہے ہیں جن کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر۔ انہوںنے 15ستمبر کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اگر مارشل لا لگا تو ملک ٹوٹ جائے گا۔ سبحان اللہ کون مارشل لا لگا رہا ہے انہیں یہ خبر کس نے دی؟ نیز کیا پاکستان ایک Banana Republic ہے جو گھروندے کی مانند بیٹھ جائے گا؟ کاش وہ اپنی زبان سے مارشل لا کے پس منظر میں ملک توڑنے کی باتیں نہ کریں۔ پاکستان انشاء اللہ تاقیامت قائم رہے گا۔ دراصل بہت سے پاکستانی سیاست دان جو غیر ملکی طاقتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں‘ ان کا مفاد اسی میں ہے کہ یہ ملک کسی بڑی ناگہانی آفت کا شکار ہوجائے۔ ایسے میر جعفراور میر صادق برصغیر کی سیاسی تاریخ میں اپنا نام گنوا چکے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا یہ بہت بڑا المیہ رہا ہے کہ یہاں ایسے عناصر اقتدار میںآتے رہے ہیںجو پاکستان کے نہیں بلکہ واشنگٹن اور لندن کے زیادہ قریب اور دوست رہے ہیں اور جنہوں نے پاکستان کے کروڑوں عوام کو ان کے آئینی اور سماجی حقوق سے محروم رکھا ہے اور یہ بھی نہیں چاہتے کہ یہ سڑا ہوا نظام شکست سے دوچار ہو، جس کے لئے پاکستان کے غریب، محروم و مفلس عوام ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کے ساتھ شامل ہوکر حقیقی جمہوریت اور منصفانہ سیاسی نظام کے قیام کے لئے دن رات آواز بلند کررہے ہیں۔