نئے صوبے ملک کی ضرورت

ایم کیو ایم کے قائد جناب الطاف حسین نے اپنی 61ویں سالگرہ کے موقع پر کراچی میں اپنے کارکنوں سے ٹیلی فونک خطاب میں واشگاف الفاظ میں مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان میں انتظامی بنیادوں پر مزید صوبے بننے چاہئیں، کم از کم 20 تاکہ ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر عوام کے بنیادی معاشی وسماجی مسائل بہ احسن خوبی حل ہوسکیں۔ انہوں نے صوبہ سندھ میں بھی انتظامی بنیادوں پر مزید صوبوں کا مطالبہ کیا تاکہ شہری سندھ کے عوام کے مسائل حل کرنے میں بھر پور توجہ دی جاسکے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں یہ بھی مطالبہ کیا کہ سندھ کی حکومت میں مہاجر کو بھی وزیراعلیٰ بنانا چاہئے تاکہ سندھ میں لسانی وثقافتی ہم آہنگی پیدا ہوسکے۔ پاکستان میں مزید صوبوں کا مطالبہ حقائق پر مبنی ہے، کیونکہ جب تک پاکستان میں مزید صوبے نہیں بنائے جائیں گے، عوام کے معاشی وسماجی مسائل حل نہیں ہوسکیں گے ۔ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر نئے صوبے اور نئے اضلاع بنائے جارہے ہیں تاکہ قومی وسائل کو منصفانہ طورپر تقسیم کرکے معاشرتی وتہذبی ہم آہنگی پیدا کی جاسکے۔ بھارت جب 1947ء میںآزاد ہوا تو اس وقت اس کے صرف آٹھ صوبے تھے اور آبادی چالیس کروڑ کے قریب تھی ، لیکن اب بھارت میں 36صوبے بن چکے ہیں اور آبادی ایک ارب بیس کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ بھارت میں آزادی کے بعد جتنے بھی صوبے بنے ہیں، ان کی تشکیل لسانی بنیادوں پر نہیں، بلکہ خالصتاً انتظامی ومعاشی بنیادوں پر کی گئی تھی یہی وجہ ہے جب بھارت میںنئے صوبے بنے تو آبادی کے کسی بھی طبقے کی جانب سے مزاحمت نہیں کی گئی اور نہ ہی کوئی فساد برپا ہوا۔ ہمارے ایک اور پڑوسی ملک افغانستان میں بھی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر کئی صوبے بن چکے ہیں، جسکی وجہ سے وہاں غربت وافلاس کا گراف نیچے آیاہے، اس قسم کا تجربہ بنگلہ دیش میں بھی ہوا ہے، اس لئے اگر پاکستان میں بھی مزید صوبے بن جاتے ہیں جس کا پاکستان میں کئی دہائیوں سے مطالبہ کیا جارہا ہے تو اس پر سنجیدگی سے غور وغوض کرنے کی ضرورت ہے ۔یہاںیہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اس وقت پاکستان کی موجودہ آبادی اٹھارہ کروڑ نہیں بلکہ اب بیس کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ اس بیس کروڑ کی آبادی میں بارہ کروڑ عوام خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، پاکستان کے قیام کے بعد سب سے زیادہ آبادی پنجاب اور سندھ میں بڑھی ہے، اور یہی دو بڑے صوبے ہیں جہاں بے پناہ معاشی وسماجی مسائل کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے ۔مزید براں ہمارا سیاسی نظام چند خاندانوں کی اجارہ داری تک محدود ہوچکا ہے، جبکہ ایک عام آدمی صرف ووٹ دینے کی حد تک تو ''جمہوریت‘‘ کے نام سے آشنا ہے، لیکن کوئی اسے حقوق دینے کے لئے تیار نہیں ہے ۔ وسائل کی گردش بھی چند خاندانوں تک محدود ہے، اس لئے اگر پاکستان میں مزید صوبے بن جاتے ہیں جیسا کہ ہمارے پڑوسی ممالک میںہوا ہے، تو اس میں تشویش یا گھبرانے کی کیا بات ہے؟ دراصل مزید صوبوں کے مطالبے سے موجودہ سیاسی نظام کے تحت بننے اور پرورش پانے والے چند خاندان الرٹ ہوگئے ہیں اور غیر منطقی انداز میں مزید صوبوں کے قیام کے مطالبے کو رد کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگر انتظامی بنیادوں پر سرائیکی صوبہ، ہزارہ صوبہ، یا پھر سندھ میں کراچی صوبہ بن جاتا ہے تو اس میں حرج کیا ہے؟ اگر یہ صوبے بن جاتے ہیں تو ان کی وجہ سے عوام کے بہت سے مسائل حل ہوسکیں گے، نیز سیاست میں چند خاندانوں کی اجارہ داری بھی ٹوٹ سکے گی، جن کی زیادتیوں کی وجہ سے عوام ہر سطح پر مجبور ومحکوم نظر آرہے ہیں، سندھ میںمزید صوبوں کے قیام کے خلاف بیان دیتے ہوئے سندھ کے وزیر اعلیٰ جناب قائم علی شاہ نے'' طنزا ًکہا ہے‘‘ کہ سندھ کسی کا برتھ ڈے کیک نہیں ہے، بچہ بچہ اسکی حفاظت کرے گا۔ قائم علی شاہ کا یہ بیان دراصل ان کی ترجمانی کررہا ہے جو سندھ کے موجودہ استحصالی نظام کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ عناصر عوام کو ان کے بنیادی حقوق دینا نہیں چاہتے ۔حالانکہ سندھ میں مزید صوبوں کا قیام خود سندھیوں کے حق میں انتہائی با ثمر اور سود مند ثابت ہوگا۔ قائم علی شاہ سندھ میں مزید صوبوں کے قیام کو لسانی انداز میں دیکھ رہے ہیں اور یہی ان کے بعض دوستوں کی بھی سوچ ہے۔وہ خود بھی اس حقیقت سے واقف ہیں کہ جب تک پاکستان میںبھارت کی طرز پر انتظامی بنیادوں پر صوبے نہیں بنیں گے، بڑھتی ہوئی آبادی کے سیاسی ، معاشی اور سماجی مسائل حل نہیں ہوسکیں گے۔ تاہم اگر قائم علی شاہ اور ان کے بعض انتہا پسند ساتھی مزید صوبوں کی تشکیل کے خلاف ہیں تو پھر وہ کراچی سمیت سندھ میں عوام کے مسائل کو حل کرنے میں مسلسل کوتاہی کیوں برت رہے ہیں؟ اگر پیپلز پارٹی کی قیادت سندھ کے عوام سے اتنی ہی مخلص ہے تو اسے آئین کے آرٹیکل 401-Aکے تحت فی الفور بلدیاتی انتخابات کرادینے چاہئیں، تاکہ اقتدار نچلی سطح تک منتقل کیا جاسکے اور انہیں ان کی دہلیز پر انصاف فراہم کیا جاسکے ۔ لیکن چھ سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے، سندھ میں بلدیاتی انتخابات نہیں ہوسکے ، کسی نہ کسی بہانے سے انہیں التوا میںرکھا جاتاہے، حالانکہ اب توسپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آچکا ہے ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ جب فوجی حکومتیں آتی ہیں تو وہ بلدیاتی انتخابات کراکر نچلی سطح پر عوام کو اقتدار میں شامل کرلیتی ہیں۔ لیکن یہ نام نہاد جمہوریت کے متوالے ایسا کوئی قدم نہیںاٹھانا چاہتے ، جس سے عوام کو فائدہ پہنچ سکے یا پھر ان کے دیرینہ تکلیف دہ معاشی مسائل حل ہوسکیں۔ چنانچہ الطاف حسین نے پاکستان میںمزید صوبوں کے قیام کا مطالبہ آئین اور عوام کی بڑھتی ہوئی معاشی ومعاشرتی ضروریات کے پیش نظر کیا ہے ۔ اس سے قبل کراچی کے ایک سیاسی رہنما اور دانشور ظفر انصاری مرحوم نے بھی پاکستان میں مزید صوبوں کے قیام کو پاکستان کی ترقی اور قومی یکجہتی کے ساتھ لازم وملزوم قرار دیا تھا۔اس وقت مرحوم نے تیرہ صوبوں کے قیام کی تجویز پیش کی تھی جبکہ پاکستان کی آبادی بارہ کروڑ سے زیادہ نہیں تھی۔ اب پاکستان کی آبادی بیس کروڑ تک پہنچ گئی ہے، وسائل سکڑتے جارہے ہیں ، غیر منصفانہ سیاسی نظام کی وجہ سے محرومیوں میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے، جبکہ جعلی اشرافیہ عوام کے ٹیکسوں پر نہ صرف عیش کررہی ہے بلکہ اپنی دولت وثروت میں بے پناہ اضافہ بھی کررہی ہے ۔اگر پاکستان میں مزید صوبوں کا قیام عمل میں آجاتا ہے تو جہاں جعلی اشرافیہ کے ظلم و جور کا خاتمہ ہوسکے گا، وہیں عوام اپنے سیاسی ومعاشرتی شعور کی روشنی میں ایک نئے منصفانہ سماجی نظام کے قیام کی بھر پور کوشش کریں گے جس میں ہر ایک کو اس کی کوشش اور صلاحیت کے مطابق رزق اور روزگار مل سکے گا جس کی پاکستان کے آئین میںبھی ضمانت دی گئی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں