کیا افغانستان کا صدارتی مسئلہ حل ہوگیا؟

5اپریل کو افغانستان میں صدارتی منصب کے لئے عام انتخابات ہوئے، جس میں کسی بھی صدارتی امیدوار کو پچاس فیصد ووٹ نہ ملے، اصل مقابلہ سابق وزیر خارجہ عبداللہ عبداللہ اور پروفیسر اشرف غنی کے درمیان تھا، ابتدا میں عبداللہ عبداللہ کو ورلڈ بینک کے ماہر معاشیات پروفیسر غنی پر سبقت حاصل تھی، لیکن جب رن آف الیکشن ہوئے تو اس میں پروفیسر غنی بھاری ووٹ لے کر جیت گئے۔ عبداللہ عبداللہ نے انتخابات کے نتائج مسترد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن اور کرزئی پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے دھاندلی کی مدد سے پروفیسر غنی کو کامیاب کرانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے انتخابی دھاندلیوں کے خلاف مہم کی دھمکی بھی دی۔ ان کی دھمکی کا یہ اثر ہوا کہ ووٹوں کی دوبارہ گنتی اقوام متحدہ کی نگرانی میں کرائی گئی۔ گنتی کے دوران پروفیسر غنی کے امکانات ظاہر ہونے لگے تو عبداللہ نے ایک بار پھر گنتی کو مسترد کردیا اور دھاندلیوں کے خلاف ملک گیر مہم چلانے کے موقف پر ڈٹ گئے۔ اس صورتحال پر امریکہ کو سخت تشویش ہوئی کیونکہ اگر انتخابی دھاندلیوں کے سلسلے میں ملک گیر مہم چلائی جاتی تو افغانستان دوبارہ خانہ جنگی کی لپیٹ میں آجاتا۔ جبکہ افغان طالبان بھی ایسا ہی چاہتے تھے کہ پروفیسر غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان کوئی معاہدہ نہ ہونے پائے، اس لئے انہوںنے 
بھی اپنی جنگ جو یانہ مہم تیز کردی جس میں افغان پولیس اور فوج کے بہت سے افراد مارے گئے؛ چنانچہ امریکی صدر بارک اوباما نے سیکرٹری خارجہ جان کیری کو کم از کم دو مرتبہ افغانستان بھیجا تاکہ انتخابات میں ہونے والی دھاندلی سے متعلق الزامات کی چھان بین کراکر دونوں امیدواروں کے لئے کوئی مصالحتی فارمولا طے کیا جائے۔ جان کیری کی فعال ڈپلومیسی کے ذریعہ‘ جس میں اقوام متحدہ کی کوششیں بھی شامل تھیں۔ مصالحتی فارمولا طے پایا‘ جس کے تحت تک عبداللہ عبداللہ افغانستان کی حکومت میں چیف ایگزیکٹو (بلحاظ عہدہ وزیراعظم)؛ جبکہ پروفیسر غنی صدر ہوں گے، یعنی وہ کرزئی کی جگہ آئندہ پانچ برسوں کے لئے افغانستان کا نظم ونسق سنبھالیں گے۔ افغان آئین کے تحت زیادہ تر اختیارات صدر کے پاس ہوتے ہیں۔ صدر ہی تمام معاملات پر کابینہ کے مشوروں کے بعد جب کوئی فیصلہ صادر کرتا ہے جسے سبھی کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ عبداللہ عبداللہ کے لئے چیف ایگزیکٹو کی نئی آسامی پیدا کی گئی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ ثانوی حیثیت قبول کرلیں گے؟ طبعاً وہ سخت گیر اور بہت زیادہ اُمنگیں رکھنے والے ہیں۔ 
2009ء میں افغانستان میںہونے والے عام انتخابات میں عبداللہ عبداللہ نے کرزئی کے خلاف انتخاب لڑا تھا لیکن جب انہیں احساس ہوا کہ امریکہ اور دیگر ممالک کرزئی کو دوبارہ صدر دیکھنا چاہتے ہیں تو انہوںنے عام انتخابات کا بائیکاٹ کردیا؛ تاہم انہوں نے کرزئی کی مخالفت جاری رکھی۔ یاد رہے عبداللہ عبداللہ تاجک ہیں ، انہوں نے احمد شاہ مسعود کے ساتھ مل کر شمالی اتحاد تشکیل دیا اور طالبان حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد جاری رکھی۔ اب بھی وہ طالبان کی سرگرمیوں کے سخت خلاف ہیں ، وہ پاکستان کے بھی خلاف ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ افغان طالبان کو پاکستان سے مدد مل رہی ہے۔ پاکستان نے ان کا یہ الزام مسترد کردیا ہے۔ عبداللہ عبداللہ کو شمال اور مغربی صوبوں کی حمایت حاصل ہے، جبکہ پروفیسر غنی پختون ہونے کے ناتے جنوب اور مشرقی صوبوں میں بے پناہ مقبولیت رکھتے ہیں، 
افغانستان میں پختونوں کی آبادی 42فیصد سے زیادہ نہیں، لیکن لسانی وتہذبی بنیادوں پر پختون‘ افغانستان میں اپنی اکثریت رکھتے ہیں، مزیدبراں افغانستان کے آئین میں چیف ایگزیکٹو کی کوئی گنجائش نہیں، اس منصب کے لئے افغان آئین میں آئندہ پارلیمنٹ کے اجلاس میںترمیم کرنا ہوگی، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ دونوں سیاسی رہنما اس ''یونٹی حکومت‘‘ کے تحت اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے افغانستان کی تعمیر وتشکیل میں یکجہت ہو کر کوئی نمایاں کام کرسکیں گے؟ بعض افغانی تجزیہ کاروں کا استدلال ہے کہ یہ آگ اور پانی کا ملاپ ہے جو زیادہ عرصہ تک قائم نہیں رہ سکے گا۔ بہ حیثیت صدر پروفیسر غنی کے سامنے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا وہ طالبان کو ہتھیار پھینکنے پر راضی کرلیں گے؟ اور کیا وہ طالبان کے مابین آئندہ ہونے والے مذاکرات کے لئے عبداللہ عبداللہ کو راضی کرلیں گے؟نیز پروفیسر غنی کے سامنے دوسرا اہم مسئلہ کرپشن کا ہے۔ کرزئی نے امریکی امداد جس طرح رشتہ داروں اور دوستوں کیلئے استعمال کی تھی، اس کی وجہ سے عام باشعور افغانی کو بہت زیادہ صدمہ پہنچا۔ اس بے لگام کرپشن کی وجہ سے افغانستان میں غربت کا گراف اور زیادہ بڑھا۔ خصوصیت کے ساتھ دیہی علاقوں میں! مزید برآں کرزئی نے بیوروکریسی کو بھی کرپٹ کردیا، جو امریکی امداد کے ثمرات ایک عام آدمی تک نہیں پہنچنے دیتی۔ پروفیسر غنی بہ حیثیت ماہر معاشیات افغانستان کو ملنے والی امریکی امداد منصفانہ طورپر استعمال میں لانے کا عہد کرچکے ہیں تاکہ خوشحالی کا سورج افغانستان کے گوشے گوشے کو منور کرسکے، ورنہ ان کے صدر رہنے کا کوئی ٹھوس جواز نہیں ہوگا۔ اس ضمن میں عبداللہ عبداللہ کا تعاون ناگزیر ہوگا، جن کی کوشش ہوگی کہ امریکی امداد کا زیادہ حصہ شمال اور مغربی صوبوں میں خرچ ہو‘ جنہوں نے طالبان کے خلاف جنگ میں بے پناہ قربانیاں دیں۔ 
پاکستان‘ افغانستان کی موجودہ صورتحال پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہے‘ اُسے خوشی ہے کہ وہاں ایک یونٹی حکومت قائم ہوچکی ہے‘ جسے افغانستان کے عوام کی حمایت حاصل ہے؛ تاکہ قیام امن کے لئے بھرپور کوششیں کی جاسکیں۔ حقیقت میں افغانستان اور پاکستان کا مفاد اس میں ہے کہ یہاں دیر پا اور پائیدار امن قائم ہو تاکہ افغانستان کو خانہ جنگی سے ہمیشہ کے لیے نجات دلائی جاسکے۔ اس لئے یونٹی حکومت کو تمام تر رکاوٹوںاور ذاتی رنجشوںکے باوجود قائم رہنا چاہے تاکہ اس خطے میں حقیقی امن قائم ہوسکے ، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا ایسا ہوسکے گا؟ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں