کرزئی نے کم از کم گیارہ سال افغانستان میں حکومت کی ہے۔ اس دوران اس نے امریکہ کو ہر قسم کی سہولتیں فراہم کیں تاکہ افغان طالبان کی جدوجہد کو طاقت کے ذریعے دبایا جاسکے، لیکن اب تک نہ تو کرزئی کی کوئی حکمت عملی کام آئی اور نہ ہی امریکہ اور اس کی اتحادی فوجیں طالبان کو زیر کرسکی ہیں، بلکہ حالیہ دنوں میں جب امریکی اور ناٹو کی فوجیں افغانستان سے واپسی کا سفر باند ھ رہی ہیں، طالبان کی سرگرمیاں مزید بڑھتی جارہی ہیں، خصوصیت کے ساتھ ہلمندصوبے میں انہوںنے ایک بار پھر اپنے پیر جما لئے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کرزئی افغانستان میںامریکہ کی مدد سے صرف حکومت کرنا چاہتا تھا ، اس نے کبھی طالبان کو شکست دینے کے سلسلے میں کوئی ٹھوس حکمت عملی اختیار نہیں کی بلکہ اس نے امریکی امداد‘ جو دراصل افغانستان میں غربت ختم کرنے اور جمہوریت کی احیاء کے لئے آئی تھی‘ کو اپنے اور اپنے رشتہ داروں کے لئے استعمال کیا، جبکہ ایک عام افغانی کو اس امداد سے کوئی فائدہ نہیں ملا، خصوصیت کے ساتھ افغانستان کے دیہات غربت اور افلاس کی منہ بولتی تصویر یں بنی ہوئے ہیں۔ امریکی اخباروں نے بھی کرزئی کی کرپشن کی داستانوں کو بھر پور انداز میں بے نقاب کرتے ہوئے بڑی وضاحت سے لکھا ہے کہ طالبان کی افغانستان کے دیہات میں کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے باسیوں کو ہر قسم کا تحفظ (جان و مال کا ) طالبان نے ہی بہم پہنچایا ہے، جبکہ کرزئی کی حکومت صرف کابل تک محدود اور لوٹ مار میں مصروف تھی، یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ امریکہ نے اب تک افغانستان میں 100بلین ڈالر خرچ کئے ہیں، اور اس وقت بھی اس کی امداد جاری ہے‘ مگر امریکہ کی جانب سے کرزئی حکومت کو ملنے والی امداد سے افغان کلچر میں کسی قسم کی واضح تبدیلی رونما نہیں ہوسکی، اگر تھوڑی بہت تبدیلی آئی ہے تو وہ صرف کابل میں نظر آتی ہے یا پھر افغانستان میں کسی حد تک بچوں میں تعلیم کا تناسب بڑھا ہے‘ وہ بھی اس لئے کہ تعلیم کے شعبے کو امریکی حکام زیادہ سے زیادہ موثر بنانا چاہتے تھے تاکہ قبائلی نظام کے اثرات کو ختم کیا جاسکے لیکن اب تک یہ ممکن نہیں ہو سکا؛ تاہم یہ ضرور ہوا ہے کہ سکول جانے والے بچوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے لیکن تمام تر امریکی امداد اور امریکی اور ناٹو کی فوجوں کی موجودگی کے باوجود افغانستان آج بھی دنیا کا پسماندہ ترین ملک ہے اور اس کی حالت میں کوئی تبدیلی نہ آنے کی تمام تر ذمہ داری کرزئی اور اس کے کرپٹ ساتھیوں پر عائد ہوتی ہے۔
اب کیونکہ کرزئی افغانستان کا صدر نہیں ہے‘ جس کا اس کو یقینا بہت افسو س ہے‘ کیونکہ اس کی کوشش تھی کہ کسی طرح عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کے درمیان کوئی سمجھوتہ نہ ہوپائے ،لیکن امریکہ اور اقوام متحدہ نے فیصلہ کرلیا تھا کہ کسی بھی صورت میں کرزئی کو صدارت کے منصب پر نہیں رہنے دیا جائے گا کیونکہ امریکی حکام کو یہ اشارہ مل رہا تھا کہ کرزئی عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کے درمیان سمجھوتہ نہ ہونے کی صورت میں ایمرجنسی لگا کر مزید ایک سال کے لئے صدارتی منصب پر فائز رہ سکتا ہے، بہر حال اب وہ جارہا ہے اور جاتے جاتے اس نے اپنی الوداعی تقریر میں پاکستان کے خلاف جو زہر اگلا ہے اس پر وہاں موجود سفارت کاروں کو بہت دکھ پہنچا ہے‘ کیونکہ پاکستان نے گذشتہ کئی سالوں سے دہشت
گردی کی روک تھام کے لئے افغانستان کی حکومت کے ساتھ خاصا تعاون کیا ہے اور افغانستان میں بہت حد تک پُرامن انتخاب کرانے میں بھی پاکستان کا اہم کردار تھا‘ جس کو بین الاقوامی کمیونٹی نے بہت سراہا ہے۔ کرزئی کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی سے یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی ہے کہ اس شخص نے محض پاکستان پر الزام تراشیاں کرکے اپنے آپ کو افغان عوام میں مقبول بنانے کی کوشش کی ہے جس میں اس کو کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ اس احسان فراموش شخص نے امریکہ پر بھی زبردست تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''ہم پر جنگ مسلّط کی گئی ہے‘‘۔ بہت خوب! گیارہ سال تک وہ امریکی امداد کو اپنے تصرف میں لاتا رہا اور عیش کرتا رہا ، اب جبکہ وہ صدر نہیں رہا ہے اور طالبان اس کو کسی طرح معاف نہیں کریں گے تو وہ امریکہ کے خلاف بھی زہر اگل رہا ہے۔ کرزئی کے امریکہ کے خلاف ریمارکس پر افغانستان میں امریکی سفیر نے کہا ہے کہ ''مجھے اس کی تقریر سن کر بہت دکھ ہوا ہے، وہ ایک احسان فراموش شخص ہے‘‘۔ اگر امریکہ افغانستان کی مدد نہ کرتا تو طالبان کو اقتدار میں دوبارہ آنے سے کون روک سکتا تھا۔ دراصل یہ شخص
امریکہ اور پاکستان پر بیک وقت تنقید کرتے ہوئے طالبان کے دلوں میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کررہا ہے جو وہ نہیں کرپائے گا۔ طالبان کو جب بھی موقع ملے گا وہ اس کو قتل کردیں گے، کیونکہ اس کے ہاتھ ہزاروں افغان عوام کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ مزید براں کرزئی نے اپنے آپ کو قوم پرست ثابت کرنے کے لئے امریکہ اور افغانستان کے مابین سکیورٹی معاہدے پر دستخط نہیں کئے، لیکن اس کے باوجود افغان طالبان اس کو سی آئی اے کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں، اور اس کو معاف نہ کرنے کا عہد کرلیا ہے۔ کرزئی کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی پر پاکستان کی وزارت خارجہ نے افسوس کا اظہار کیا ہے، اور کہا ہے کہ اسی کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات معمول پر نہیں آسکے، لیکن اب پاکستان افغانستان کی نئی قیادت صدر اشرف غنی کے ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ افغانی صدر اشر ف غنی کو دو مرتبہ پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ امید ہے وہ بہت جلد پاکستان کا دورہ کرکے پاکستان افغان تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوشش کریں گے۔ کرزئی نے افغان عوام کے ساتھ جو کچھ بھی کیا ہے وہ ایک ناقابلِ معافی جرم ہے‘ جس کی پاداش میں اس کو گرفتار کرکے عالمی عدالت میں مقدمہ چلایا جانا چاہئے۔