گرتی ہوئی دیوار وں کو؟

گزشتہ دنوں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں زیادہ تر سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے نواز شریف کی حکومت کی حمایت کرتے ہوئے آئین اور جمہوریت کے تحفظ کا عہد کیا۔ اجلاس کے خاتمے کے بعد بھی یہی عہد کیا گیا کہ آئین اور جمہوریت کو ہر قیمت پر بچایا جائے گا۔ پارلیمنٹیرین کے اس ''عہد‘‘ پر کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے، بلکہ خوشی بھی ہوئی کہ انہوں نے آئین اور جمہوریت کی بقا کے لئے اتحاد کا مظاہرہ کیا۔ لیکن کیا یہ پارلیمنٹیرین عوام کی معاشی وسماجی بھلائی اور بہتری کے لئے اتنے ہی مخلص ہیں جتنا آئین اور جمہوریت کے لئے؟ میں نہیں سمجھتا کہ پارلیمنٹ میں بیٹھنے والے کسی بھی لحاظ سے عوام کے دوست ہیں یا وہ ان کے بارے میں سوچتے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہوتا تو پھر پاکستان میں عام آدمی کے لئے دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوتیں۔ موجودہ استحصالی اور استبدادی نظام کی جگہ کوئی فلاحی نظام کام کر رہا ہوتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اس عوام دشمن نظام کو 67سالوں کے دوران مزید طاقتور بنانے کی کوششیں کی گئیں جو اب تک جاری ہیں۔ 
ذاتی مفادات پر مبنی اس گلے سڑے نظام کی وجہ سے جہاں عوام کو آئین میں دیئے گئے حقوق سے محروم کیا گیا وہیں مملکت بھی کمزور ہوئی، جس کی وجہ سے مرکز گریز قوتوں کو فائدہ پہنچا، جس کی واضح مثال بلوچستان ہے‘ جہاں پاکستان کے خلاف اندرونی و بیرونی طاقتوں نے مل کر اس صوبے کی رہی سہی ترقی کو شدید متاثر کیا۔ چنانچہ آج دھرنوں کی صورت میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری عوام کی آواز بنتے جار ہے ہیں، جنہیں گزشتہ کئی دہائیوں سے ہر سطح پر محروم رکھا گیا، جبکہ دوسری طرف ایک چھوٹا سا طبقہ( نام نہاد اشرافیہ) قابض ہے اور قیمتی وسائل کو تصرف میں لاکر خلق خدا کو محرومیوں کی تاریکیوں میں دھکیل رہا ہے، لیکن مجھے یقین ہے کہ آئندہ ایسا نہیں ہوسکے گا۔ عوام شعوری طورپر موجودہ استحصالی اور ظالم نظام کے خلاف بیزار ہو کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنوں اور جلوسوں میں عوام کی بڑی تعداد شرکت کرکے حکومت وقت کو یہ باور کرارہی ہے کہ اب ان پر کئے جانے والے ظلم وزیادتی کا دور ختم ہونے والا ہے۔ جماعت اسلامی جو کبھی اسٹیبلشمنٹ کی ہاں میں ہاں ملایا کرتی تھی اب وہ بھی سراج الحق کی سربراہی میں نظام کی تبدیلی کی موثر آواز بن کر ابھری ہے؛ کیونکہ جماعت اسلامی کو یہ ادراک ہوگیا ہے، کہ جو کچھ پاکستان کے آئین میں درج ہے، یعنی عوام کے حقوق کی بلا تفریق وامتیاز حفاظت اور پاسداری کے اصول‘ اسلامی نظام میں بھی یہی واضح کئے گئے ہیں؛ تاکہ ایک عام آدمی اپنی محنت اور کوشش کے ذریعہ تمام تر عزت واحترام کے ساتھ زندگی بسر کرسکے۔ لیکن جیسا کہ میںنے بالائی سطور میں لکھا ہے کہ ہر سطح پر آئین کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے اور جمہوریت کے نام پر دھوکہ دیتے ہوئے عوام کی تمنائوں اور امنگوں کو پیروں تلے کچلاجارہا ہے؛ تاکہ وہ اس ظالمانہ نظام کے خلاف آواز نہ اُٹھا سکیں اور نہ ہی ان کے پُرغرور رعب ودبدبے کو چیلنج کرسکیں۔ اس ضمن میں عمران خان نے صحیح کہا ہے کہ عوام نے اس استبدادی نظام کے سامنے مجرمانہ خاموشی اختیار کرلی تھی۔ اس خاموشی کو قائم رکھنے میں جاگیرداروں اور وڈیروں کا ظلم شامل تھا۔ جو گزشتہ کئی دہائیوں سے پارلیمنٹ میں ''منتخب‘‘ ہو کر آتے ہیں اور حکومت سے ہر وہ فائدہ اٹھاتے ہیں‘ جس کی نہ تو آئین اجازت دیتا ہے اور نہ ہی جمہوری اقدار میں اس کی کوئی گنجائش ہے۔ اسی لیے اس مکروہ سلسلے کو توڑنے کیلئے ایک طویل عرصے کے بعد عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی صورت میں آوازیں بلند ہوئی ہیں جس نے موجودہ عوام دشمن نظام کے درودیوار کو ہلا کر رکھ دیا ہے؛ جبکہ ناداں حکمران عوام کی اس اجتماعی سوچ کے معجزوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ 
اس سوچ کی وجہ سے پورا ملک بے یقینی کی کیفیت سے دوچار ہے۔ ہر گزرتا دن حکومت کیلئے‘ حکومت کرنا مشکل بنتا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے معیشت میں مسلسل زوال پیدا ہورہا ہے۔ حکومت کا انداز کچھ اس طرح کا ہے کہ وہ معاملات کو سلجھانے کیلئے ذہنی طور پر تیار نہیں۔ دوسری طرف اس کے وزراء سعدرفیق اور پرویزرشید اپنی کم فہمی کی وجہ سے نیز اپنے بیانات سے عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری سے دوری پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں؛ حالانکہ اس موقع پر ایک دوسرے کے قریب آنا چاہئے۔ حیرت ہے کہ میاں نواز شریف نے گزشتہ برسوں میں اپنے تجربوں سے کچھ نہیں سیکھا۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عوام کیوں ان سے دور ہوگئے ہیں۔ اگر انہیں بھار ی مینڈیٹ دھاندلی کے بغیر ملا ہے تو پھر انہیںگھبرانے کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن وہ اس حد تک گھبرا چکے ہیں کہ امریکہ کا دورہ مختصر کرکے پاکستان آگئے۔ محض اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرنے کے علاوہ انہیں کیا ملا؟ امریکہ کے صدر نے بھی ان سے ملنا گوارا نہیںکیا، حالانکہ وہ اسی ہوٹل میںقیام پذیر تھے، جس میں میاں صاحب اس غریب ملک کے ٹیکسوں پر بوجھ بن کر ٹھہرے ہوئے تھے اس وقت بھی وہ دھرنا دینے والوں سے متعلق اپنے نادان دوستوں کے مشوروں پر جس حکمت عملی پر گامزن ہیں وہ انہیں بہت مہنگی پڑے گی۔ 
ہوسکتا ہے کہ انہیں جلد استعفیٰ بھی دینا پڑجائے، جس کا مطالبہ دھرنے والے کررہے ہیں۔ قومی ادارے انہیں بچا سکتے تھے لیکن ان سے متعلق انہوں نے اسمبلی کے فلور پر خلاف واقعہ بیان دے کر اپنے اوپر تمام دروازے بند کرلئے ہیں۔ اب وہ سیاست کی بے رحم موجوں کے تھپیڑوں کے سامنے کھڑے کسی معجزے کا انتظار کررہے ہیں لیکن اب معجزے نہیں ہوا کرتے بلکہ ان کی جگہ جیسی کرنی ویسی بھرنی کا ردعمل‘ تقدیروتدبیر دونوں کا فیصلہ کرتا ہے۔
بقول شاعر:
بوجھل تھی ہر ایک سوچ ہر اک لمحہ گراں تھا
دل جیسے کوئی کارگہہ شیشہ گراں تھا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں