وزیراعظم جناب میاں نواز شریف مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ میں ساری جماعتیں ان کے ساتھ ہیں، باالفاظ دیگر جمہوریت اور آئین کی بالادستی کے لئے سب ایک پیج پر ہیں۔ بظاہر ان کا یہ بیان صحیح معلوم ہوتا ہے ،لیکن پارلیمنٹ میں (ماسوائے ایم کیو ایم کے) ساری سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی طرح موجودہ سیاسی نظام کی وجہ سے فائدہ اٹھارہی ہیں۔ نواز شریف نے اپنی دولت کے سہارے ان تمام سیاسی جماعتوں کو اپنا ہمنوا بنا رکھا ہے جو ان کی ہا ں میں ہاں ملا رہے ہیں اور ان کے نمائندوں کو اہم عہدوں پر بھی فائز کیا ہے تاکہ وہ ان کے خلاف نہ بول سکیں۔ موجودہ پارلیمنٹ کے کسی ممبر میں یہ جرأت نہیں ہے کہ وہ وزیراعظم سے پوچھے کہ آپ پر 2013ء کے عام انتخابات سے متعلق دھاندلیوں کا جو الزام لگایا جارہا ہے وہ کس حد تک درست ہے؟ اور آپ کا اس سلسلے میں کیا جواب ہے؟مزید برآں میاں صاحب پر مالی کرپشن کے جو الزامات ثبوت کے ساتھ تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے پیش کئے ہیں‘ اس ضمن میں ان کے پاس کیا جواب ہے؟ پارلیمنٹ کے کسی ممبرمیں یہ ہمت نہیں ہے کہ وہ ان سے مالی کرپشن سے متعلق سوال کرسکے۔ اس صورتحال کے پیش نظر یہ کہنا بالکل جائز ہوگا کہ یہ پارلیمنٹ عوام کی نہیں بلکہ ایک چھوٹے سے طبقے (جعلی اشرافیہ) کی نمائندگی کررہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام میں نہ تو موجودہ پارلیمنٹ کو کوئی عملی حیثیت اور اہمیت حاصل ہے نہ ہی عوام اس کی کارروائیوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ حکمران عوام کی نگاہوں میں اپنی عزت و وقار کھو چکے ہیں۔ انہیں اس بات کا احساس ہے کہ مالی کرپشن اور عام انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات درست ہیں، یہی وجہ ہے کہ عوام کا جم غفیر عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے جلسوں میں شرکت کررہا ہے۔ لاہور اور کراچی کے جلسوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ عوام موجودہ سیاسی ومعاشی نظام سے بیزار ہوگئے ہیں اور حقیقی معنوں میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ اس پس منظر میں حیرت کی بات ہے کہ نواز شریف صاحب اپنی پارٹی کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کا اجلاس بلانے کے لئے تیار نہیں ہیں کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ وہاں ان پر تنقید کی جائے گی تو کیا ان میں تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ بھی نہیں ہے؟ نیز اگر وہ چاہیں تو دھرنوں کا سلسلہ ختم ہوسکتا ہے لیکن ان کے وزرا مثلاًخواجہ سعد رفیق اور پرویز رشید اپنے بیانات کے ذریعے سیاسی فضا میں تلخی پیدا کر دیتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری سے با معنی مذاکرات کے ذریعہ موجودہ تعطل ختم کیا جاسکے، اگر سیاسی فضا ایسی ہی رہی اور معیشت کا زوال اسی طرح جاری رہا تو عوام کے معاشی وسماجی حالات بگڑنے کی صورت میںکسی بھی حکومت کا حکومت کرنا محال ہوجائے گا۔ میاں نواز شریف کو اس اہم نکتے پر غور کرنا چاہیے اور غور کرنے کے بعد اس پر عمل کرکے حالات میں سدھار اور بہتری لانے کے لئے کوشش کرنی چاہیے۔ پورا ملک اس وقت بے یقینی کی کیفیت سے دوچار ہے اور عوام کی اکثریت یہ سوال کررہی ہے کہ آئندہ کیا ہوگا؟ عوام کو پاکستان کے مستقبل کی فکر ہے ، کیونکہ ماضی بعید میں پاکستان میںاقتدار کے مسئلہ پر سیاست دانوں کے مابین جو رسہ کشی ہوئی تھی، اس سے ملک ٹوٹ گیا تھا، آج بھی موجودہ حکومت پر دھاندلیوں اور مالی کرپشن کے الزامات کی وجہ سے جہاں حکومت کی کارکردگی متاثر ہوئی ہے، وہیں مملکت کا استحکام بھی متاثر ہورہا ہے، ان انتہائی تشویشناک حالات کے پس منظر میںوہ عناصر زیادہ متحرک ہوگئے ہیں جو نظریہ پاکستان کے شدید مخالف ہیں اور جو غیر ملکی طاقتوں کے اشارے پر اس ملک میں مزید افراتفری پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف اس پس منظر میں ایم کیو ایم کے کارکنوں کو محض شبے کی بنیاد پر گرفتار کیا جارہا ہے اور ایک مستند اطلاع کے مطابق ان پر تشدد کیا جارہا ہے ،جو انسانی حقوق کی پامالی کے زمرے میں آتا ہے۔ ایم کیو ایم نے متعدد بار یہ کہا ہے کہ سماج دشمن عناصر کے خلاف کارروائی ضرور کرنی چاہیے‘ چاہے اس کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو ، لیکن بے گناہ اور معصوم سیاسی کارکنوں کو گرفتار کرکے ان پر تشدد کرنا کسی بھی معاشرے میںجائز نہیں ہے۔ ایم کیو ایم کے بعض سرکردہ رہنمائوں کا یہ استدلال بالکل صحیح نظر آرہا ہے، کہ یہ ٹارگٹڈ آپریشن ان کی جماعت کے خلاف کیا جارہا ہے، اب تک ان کے پچاس سے زائد کارکن لاپتہ ہیں، اگر ان کا یہ بیان حق ئق پر مبنی ہے تو سندھ کے وزیراعلیٰ جناب قائم علی شاہ کو چاہیے کہ وہ فی الفور اس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائیں اور ایم کیو ایم کو اس سلسلے میں مطمئن کرنے کی کوشش کریں، کیونکہ اس ٹارگٹڈ آپریشن کے کپتان وہی ہیں اور ایم کیو ایم پی پی پی کی سندھ میں ایک اتحادی جماعت بھی ہے۔ گورنر سندھ اپنی حیثیت میں عوام میں بہت مقبول ہیں۔ انہیں بھی چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں پیش رفت کریں اور ایم کیو ایم کے گرفتار شدہ کارکنوں کو قانون کی روشنی میں چھڑوانے کی کوشش کریں۔ سندھ میں ابھی تک سیاسی ماحول بظاہر پر امن ہے، لیکن چند عناصر اس ماحول میں کشیدگی پیدا کرنا چاہتے ہیں، تاکہ اس صوبے میں بھی افراتفری کے ذریعہ عوامی مفاد اور بہبود کے کاموں میں رکاوٹ پیدا کرکے عوام میں مایوسی پیدا کی جا سکے، اس وقت پاکستان ایک ایسی صورتحال سے گزر رہا ہے جس سے متعلق صرف یہ پیشن گوئی کی جاسکتی ہے کہ آئندہ مزید خرابی اور بربادی کے آثار نظر آرہے ہیں، اس کی بڑی وجہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی ناانصافی اور ظلم ہے ، طاقتور عناصر جنہیں سیاسی جماعتوں اور بیوروکریسی کی حمایت حاصل ہے، وہ ہر طرح کی مراعات حاصل کررہے ہیںاور ظلم کررہے ہیں، جبکہ تعلیم یافتہ اور غیر ہنرمند افراد مارے مارے پھررہے ہیں ان کو کسی قسم کا سماجی ومعاشی تحفظ حاصل نہیںہے اور یہ سب کچھ اس پارلیمنٹ کے سائے میں جمہوریت اور آئین کی روشنی میں ہورہا ہے... ذرا سوچئے۔