عالمی خبروں سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ آئی ایس آئی ایس کے انتہا پسند افغانستان اور پاکستان میں داخل ہوگئے ہیں۔ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انہوں نے حال ہی میں افغانستان کے صوبہ غزنی میں ایک گائوں میں 100سے زائد افراد کو بڑی بے دردی اور بے رحمانہ انداز میں قتل کر دیا ہے، یقینا یہ انتہائی دلخراش خبر افغانستان کی حکومت کے لئے ایک بڑے چیلنج سے کم نہیں ہے، جس نے حال ہی میں امریکہ کے تعاون اور ایما پر یونٹی حکومت قائم کی ہے مزید یہ کہ اس نوزائیدہ حکومت کو پہلے ہی افغان طالبان کا چیلنج ہے جو بڑی سرعت کے ساتھ جنوبی افغانستان میں اپنی حاکمیت قائم کررہے ہیں۔ داعش جو شام اور عراق میں اپنی متشددانہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے، اب وہ افغانستان اور پاکستان کی جانب رخ کررہی ہے کیونکہ داعش کو ''گائیڈ‘‘ کرنے والوں نے انہیں یہ باور کرایا ہے کہ افغانستان اور پاکستان دونوں اس وقت سیاسی ومعاشی بحران کا شکار ہیں۔ پاکستان میں اگرچہ ایک حکومت موجود ہے اور ریاست کے تمام ادارے اپنی جگہ کام کررہے ہیں، لیکن دھرنوں کی وجہ سے میاں نواز شریف کی حکومت ٹھیک طرح سے کام نہیں کرپا رہی ہے، جبکہ تمام ترقیاتی منصوبوں پر بھی کسی قسم کا عمل درآمد نہیں ہورہا۔ اس طرح حکومت ہونے کے باوجود حکومت کاوجود کہیں نہیں ہے۔ مزیدبرآں سیلاب کی وجہ سے پنجاب اور آزاد کشمیر میں جو تباہی پہلی ہے اس نے بھی پاکستان کی
کمزور اور ناتواں معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ اس طرح ماہر معاشیات یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر سیاسی معاملات کو سیاست دانوں نے باہم مل کر ٹھیک نہیں کیا تو معاشی وسماجی طورپر صورتحال اور زیادہ خراب ہوسکتی ہے، جس کی وجہ سے عوام میں بے چینی بڑھنے کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ پاکستان کی موجودہ معاشی ومعاشرتی صورتحال سے نہ صرف وہ تمام قوتیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں جو پاکستان کو تباہ کرکے اس کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ عالمی سامراج کے پاکستان کے خلاف یہ ارادے اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں، اب اس ناپاک اور مکروہ عزائم میں بھارت بھی شامل ہوگیا ہے۔ جس کے انتہا پسندوں کا یہ عقیدہ ہے کہ کسی طرح پاکستان کو دوبارہ بھارت میں ضم کرلیا جائے اور اگر ایسا نہ ہوسکے تو اسے اندر سے اتنا کمزور کردیا جائے کہ یہ بھارت کا دست نگر بن کر اس کے رحم وکرم پر زندہ رہے۔ داعش کو کس نے تشکیل دیا ہے؟ یہ انتہا پسند عناصر کو ن ہیں؟ انہیں کس نے جدید اسلحہ فراہم کیا ہے؟ ان تمام سوالات کے جوابات دینا کوئی زیادہ مشکل نہیں ہے، اس قسم کی ساری انتہا پسند تنظیمیں سامراج کے تعاون اور ان کی جارحانہ حکمت عملی سے تعمیر وتشکیل پاتی ہیں۔
مشرق وسطیٰ کو آگ اور خون کی ہولی میں سامراج ہی نے دھکیلا ہے،دوسری طرف عرب ممالک نے ان کاساتھ دیا ہے اور اب بھی دے رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی حکومتوں کو صرف سامراج ہی بچا سکتا ہے، اس طرح یہ ممالک بغیر کسی منطقی سوچ کے سامراج کی مرتب کردہ داعش جیسی تنظیموں کو مالی مدد فراہم کرتے رہے ہیں جو بہت جلد ان عرب ممالک کی طرف ہی اپنا رخ کرلیں گی۔
پاکستان میں داعش کے بعض نمائندوں نے فاٹا اور پشاور کے بعض علاقوں میں پمفلٹ تقسیم کئے ہیں جس میں لکھا گیا ہے کہ صرف خلافت ہی مسلمان ملکوں میں عوام کو بلا تفریق انصاف فراہم کرسکتی ہے۔ ایسے ہی پمفلٹ بھار ت میں خصوصیت کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں بھی تقسیم کئے گئے ہیں، جس میں بھارت کو باور کرایا گیا ہے کہ وہ اپنی مسلمان دشمنی ترک کردے۔ بھارت کی حکومت بھی داعش سے چوکس ہوگئی ہے، دوسری طرف پاکستان کی حکومت اپنی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے سیاسی معاملات کو ابھی تک حل کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ پاکستان میں انتہا پسند سوچ اور اس سے وابستہ تنظیموں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ کراچی سمیت پاکستان کے بعض علاقوں میں‘ جن میں جنوبی بلوچستان کے بعض علاقے شامل ہیں انتہا پسندوں کی آماجگاہ بن چکے ہیں جس کا بنیادی ایجنڈا یہ ہے کہ پاکستان کے (خاکم بدہن) حصے بخرے کردیئے جائیں ، پاکستان دشمن اس سوچ سے متعلق بعض نقشے بھی چھپائے گئے ہیں جس میں 2015ء تک پاکستان میں مزید صورتحال خراب ہونے کے امکانات کا اشارہ دیا جارہا ہے، ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ اس لئے ہورہا ہے کہ موجودہ حکومت عقل ودانش سے محروم ہوچکی ہے، اس کے سامنے صرف ایک ہی مقصد ہے کہ کسی طرح اپنی حکومت اور اقتدار کو بچایا جاسکے چاہے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے مخالفین کو تہس نہس بھی کردیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے، (سانحہ ماڈل ٹائون یاد رہے) سامراجی طاقتیں موجودہ حکومت کو یقین دلارہی ہیں کہ ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے، یہ وہی طاقتیں ہیں جنہوں نے شیخ مجیب الرحمن کو چھ نکات سے نوازا تھا (پاکستان کی بیوروکریسی کے کچھ لوگ بھی اس سازش میں شامل تھے) اور جس کی وجہ سے مشرقی و مغربی پاکستان میں تنائو پیدا ہوا تھا جو بعد میں پاکستان کے ٹوٹنے پر منتج ہوا تھا۔ اس بربادی اور تباہی کا حال اب تاریخ کا ایک المناک باب بن چکا ہے، جسے پڑھ کر سوائے ندامت اور شرمندگی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ داعش کے لیے پاکستان اور افغانستان دونوں ایسی زرخیز جگیں ہیں جہاں سے اسلا م کے نام پر عوام کو خلافت کے پر کشش نعرے سے ہم خیال بنایا جاسکتا ہے اورکیونکہ دونوں ملکوں میں انتہا پسند افراد کی کمی نہیںہے ، وہ فوراً ان کا ساتھ دینے میں کوئی پس وپیش نہیں کریں گے۔ پاکستان میں پہلے ہی سے حزب التحریر کے ذریعہ خلافت کے نفاذ کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ پاکستان کی فوج فاٹا میں انتہا پسند اور دہشت گردوں کیخلاف نبردآزما ہے اور کامیابی کے ساتھ اپنا مشن پورا کررہی ہے؛ تاہم اس گمبھیر اور تشویشناک صورتحال کے پیش نظر داعش کی پیش رفت کو روکنے کے سلسلے میں پاکستان اور افغانستان کو ایک دوسرے کے ساتھ بھرپور تعاون کرنا چاہیے ورنہ یہ دونوں ممالک ایک بار پھر معصوم اور بے گناہ لوگوں کا مقتل بن جائیں گے جبکہ سامراج اس صورتحال سے پورا پورا فائدہ اٹھائے گا۔