ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کا دورۂ امریکہ پاکستان کے عظیم تر مفادات کی روشنی میں ناکام ثابت ہوا ہو، لیکن کشمیریوں کے کاز کو اس دورے سے بہت فائدہ پہنچا ہے۔ وزیراعظم صاحب نے جنرل اسمبلی میں پہلے سے لکھی ہوئی تقریر میںانتہائی دھیمے انداز میں (جو ان کا اصل لب ولہجہ ہے) کشمیر کے مسئلے کو اُجاگر کرتے ہوئے کہا کہ جب تک یہ قدیم مسئلہ حل نہیں ہوگا‘ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات نارمل نہیں ہوسکتے۔ کشمیری عوام اپنے معاشی ، مذہبی اور سماجی حقوق کے لیے گزشتہ 67سالوں سے جدوجہد کررہے ہیں، جبکہ 1947ء کے بعد سے لے کر اب تک ایک لاکھ سے زائد نوجوان کشمیریوں نے جن میں خواتین بھی شامل ہیں، اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے اس تحریک کو زندہ رکھا ہے۔ تقسیم ہند کے فارمولے کے مطابق کشمیر ہر لحاظ سے پاکستان کے ساتھ شامل ہونا تھا، لیکن لارڈ مائونٹ بیٹن اور نہرو کی سازشوں کی وجہ سے اس حصے کو متنازعہ بنادیا گیا اور آج تک یہ جنت نظیر خطہ اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے آگ و خون کے دریا سے گزر رہا ہے۔ بھارت کو میاں نواز شریف سے یہ امید نہیں تھی کہ وہ عالمی فورم پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کریں گے، لیکن انہوں نے ایسا کرکے دکھا دیا اور عالمی برادری سے پر زور اپیل کی کہ وہ اس معاملہ کی سنگینی پر غور کرتے ہوئے اس کو حل کرانے میں ہماری مدد کریں۔ واضح رہے کہ کشمیر کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی شہ رگ سے تعبیر کیا تھا۔ اس مسئلہ پر تین جنگیں ہوچکی ہیں، لیکن اب تک اس کا کوئی معقول حل نہیں نکل سکا۔
بھارت اپنی فوجی طاقت کے ذریعہ کشمیر کے عوام کی تحریک کو دبانے کی کوشش کررہا ہے، لیکن اسے اب تک اس میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ نریندرمودی دوماہ قبل مقبوضہ کشمیر گئے تو سرینگر سمیت تمام علاقوں میںان کی آمد کے خلاف مکمل ہڑتال تھی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیری عوام بھارتی تسلط کو انتہائی نا پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کا مودی کے لیے یہ پیغام واضح تھا کہ کشمیر کی آزادی کے لیے ان کی جدوجہد جاری رہے گی۔ مودی اپنی سوچ کے مطابق پاکستان پر ایک اور جنگ مسلط کرکے اس قدیم مگر اہم مسئلہ کا حل نکالنا چاہتے ہیں جس کا وہ بار بار عندیہ بھی دیتے رہتے ہیں۔ وہ اپنی انتہا پسند ہندو ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے برملا کہتے رہے ہیں کہ ''پاکستان میں زمینی مقابلہ کرنے کی سکت نہیں ہے‘‘۔ یہ الفاظ مودی کے اپنے نہیں ہیں بلکہ انہیں بھارتی فوج کی انتہا پسند قیادت ا یسا کہنے پر مجبور کررہی ہے‘ جس کی وجہ سے ان دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی مزید بڑھ رہی ہے۔ یہ صورتحال دونوں ملکو ں کے لیے کسی بھی لحاظ سے سازگار ثابت نہیں ہوگی۔
میاں نواز شریف کے جنرل اسمبلی میں کشمیر کے متعلق آواز اٹھانے سے جہا ں بھارت کی سوچ میں کچھ تبدیلی کے آثار نمایاں ہورہے ہیں‘ وہیں انتہا پسند ہندو‘ جو نریندر مودی کے اردگرد جمع ہوچکے ہیں‘ ایک بار پھر مطالبہ کر رہے ہیں کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو جو خصوصی اسٹیٹس (آرٹیکل 370کے تحت) دے رکھا ہے، اس کو ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے دیا جائے، لیکن ایسا ہو نہیں سکے گا ، کیونکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازعہ علاقہ ہے‘ جس کو کشمیری عوام کی رائے (استصواب رائے) کے ذریعہ حل کیا جانا چاہیے۔ پاکستان روز اول سے اس کے لیے تیار ہے لیکن بھارت ایسا کرنے سے گریز اں نظر آرہا ہے، کیونکہ اس کو اس حقیقت کا ادراک ہوچکا ہے کہ جس دن کشمیر سے متعلق کشمیریوں کی رائے معلوم کی گئی‘ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرلیں گے یا پھر مکمل آزادی کی طرف جائیں گے۔ دونوں صورتوں میں کشمیر ی عوام کا جھکائو پاکستان کی طرف ہوگا جس کو بھارت کبھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہوگا۔ رہا سوال یہ کہ نریندر
مودی فوجی طاقت کے بل بوتے پر کشمیر پر مکمل قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان کی فوج 1971ء کی فوج نہیںہے۔ اب جہاں اس کے پاس نیوکلیئر طاقت ہے‘ وہیں اس کی زمینی فوج نئے ہتھیاروں سے لیس ہو چکی ہے اور کسی بھی بڑی طاقت کا مقابلہ کرسکتی ہے ، نیز روایتی یا نیوکلیئر جنگ بھارت اور پاکستان دونوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوگی‘ اس لیے بہتر اور مناسب راستہ مذاکرات کا ہی ہے، جس کا پاکستان اکثر مطالبہ کرتا رہتا ہے، بلکہ نواز شریف نے عالمی برادری سے درخواست کی ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلہ پر ثالثی کا کردار ادا کرے۔
گزشتہ اگست میں دونوں ملکوں کے سیکرٹری خارجہ کے درمیان ملاقات ہونے والی تھی‘ جس میں آئندہ کا لائحۂ عمل طے ہونا تھا، لیکن بھارت میں پاکستان کے سفیراور کشمیری قیادت کے مابین ملاقات کی وجہ سے بھارت نے سخت ردعمل کا مظاہر ہ کرتے ہوئے سیکرٹری خارجہ کی ملاقات کومنسوخ کردیا تھا، جس پر امریکہ سمیت سب کو بہت دکھ ہوا تھا۔ خود بھارت کے ممتاز صحافیوں اور دانشوروں نے اس ملاقات کے التوا پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ بھارت اور پاکستان کے مابین تعلقات کی بحالی کے سلسلے میں ایک اور موقع ضائع ہوگیا۔ اس وقت نریندرمودی نواز شریف کی اقوام متحدہ میں کی جانے والی تقریر سے بھی ناراض ہیں‘ جس کی شکایت انہوں نے باراک اوباما سے اپنی ملاقات میں کی۔ باراک اوباما نے ان کی شکایت پر کوئی دھیان نہیں دیا کیونکہ امریکہ بھارت میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ وہ بھارت کو ہر شعبے میں مدد کرنے کے لیے تیار ہے، تاکہ وہ چین سے مقابلہ کرسکے۔ بھارت کا اس وقت تمام تر جھکائو امریکہ کی طرف ہے، اور وہ امریکہ کی جدید جنگی ٹیکنالوجی سے بھر پور فائدہ اٹھا کر ایشیا میں اپنا منفرد مقام بنانے کی کوشش کررہا ہے، اور اس کے ساتھ ہی وہ چین کے ساتھ گہرے تجارتی اور سیاسی تعلقات استوا ر کرنے کا بھی خواہش مند ہے، لیکن بھارت کی یہ سوچ حقیقت کے برعکس ہے کہ چین کے ساتھ تجارت کی وجہ سے سیاسی تعلقات بھی بہتر ہوجائیں گے۔ اگر ایسا ہوتا تو لداخ میں چین اور بھارت کی فوجیں آمنے سامنے کیوں کھڑی ہوتیں ؟ ملکوں کے درمیان تجارت کسی بھی ملک کی اکانومی پر اثرانداز تو ہوسکتی ہے لیکن سیاسی تعلقات میں تبدیلی کا باعث نہیں ہوتی۔ صرف مذاکرات اور کچھ لو اور کچھ دو کے تحت ہی حالات میں تبدیلی وقوع پذیر ہوسکتی ہے۔ کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان کھلے دل اور ذہن کے ساتھ بھارت کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتا ہے بلکہ اس کی خواہش ہے کہ ان مذاکرات میں مقبوضہ کشمیر کی قیادت کو بھی شامل کرنا چاہئے ، کیونکہ وہ اس مسئلہ کے ایک اہم فریق ہیںاور ان کی مرضی کو شامل کئے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔