یکم اکتوبر 2014ء سے بھارتی فوج بین الاقوامی ورکنگ بائونڈری اور لائن آف کنٹرول پر مسلسل گولہ باری کر رہی ہے، اب تک بیس سے زائد پاکستانی شہری شہید ہوچکے ہیں۔تادم تحریر فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے، جس کی وجہ سے سرحد کے قریب دیہات کی سماجی زندگی مفلوج ہو گئی ہے۔ جبکہ 145سے زائد چھوٹے بڑے سکول بھی بند ہوگئے ۔تعلیم کا سلسلہ بری طرح متاثر ہوا ہے،ابھی تک کسی بھی ملک کی جانب سے بھارت کی اس غیر علانیہ جارحیت کی نہ تو کھل کر مذمت کی گئی ہے، اور نہ ہی ایسے قدم اٹھائے گئے ہیں کہ جو اس جارحیت کو روکنے میں مدد گار ثابت ہو سکیں، اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری بان کی مون نے صرف اتنا کہا ہے کہ دونوں طرف سے فائرنگ کے سلسلہ کو روک کر مذاکرات کا آغاز کیا جائے، ان کا یہ بیان ایک عام سا بیان ہے جس سے یہ تاثر نہیں ملتا کہ وہ بھارت پر دبائو ڈال کر اس عریاں جارحیت کو روکنے کے لئے کسی بھی قسم کے ٹھوس اقدامات کرناچاہتے ہیں۔ دراصل اقوام متحدہ موجودہ عالمی صورتحال کے تناظر میں امریکہ کے زیر اثر ہے۔ خصوصیت کے ساتھ جب سے سوویت یونین ٹوٹ کر مختلف ریاستوں میں بٹا ہے۔ اس کی بین الاقوامی سطح پر طاقت اور حیثیت شدید متاثر ہوئی ہے؛ چنانچہ اب امریکہ دنیا کا بے تاج بادشاہ بن گیا ہے۔پوری دنیا میں اس کے
رعب و دبدبے کا سکہ بیٹھ گیا ہے،یہاں تک کہ اقوام متحدہ کا کردار بھی اس کے زیر اثر آگیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ عالمی اور علاقائی سطح پر جارحیت کو روکنے یا پھر دو ملکوں کے درمیان سرحدی جھگڑوں کو طے کرانے میں ناکام نظر آرہی ہے؛چنانچہ بھارت اور پاکستان کے مابین ورکنگ بائونڈری اور لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کی وجہ سے اس خطے میں حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑی جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں،جبکہ ان دونوں ملکوں کے درمیان حالات خراب کرنے میں کلیدی کردار نریندرمودی کا ہے ،جو اب عام انتخابات میں فتح حاصل کرنے کے بعد جنگی جنون میں مبتلا ہوچکا ہے ۔اس کی دیرنیہ خواہش ہے کہ کسی طرح بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے محاذ پر ایک اور جنگ چھڑ جائے تاکہ وہ مغربی طاقتوں کی مدد اور اشتراک سے کشمیر پر قبضہ کرکے بھارت کی تاریخ میں امر ہوجائے۔ نریندرمودی کے جنگی جنون پر مبنی سوچ ورکنگ بائونڈری اور لائن آف کنٹرول پر جاری برہنہ جارحیت اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ پاکستان کو جنگ کرنے پر مجبور کررہا ہے۔ حالانکہ
پاکستان ایسا نہیں کرنا چاہتا ؛بلکہ صبر وتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بار پھر اقوام متحدہ سے ملتمس ہے کہ وہ اس ننگی جارحیت کو بند کرانے میں اپنا کردار ادا کرے، لیکن اقوام متحدہ امریکہ کی مرضی کے بغیر ایسا نہیںکرسکے گی۔ نریندرمودی کو پاکستان کے خلاف جنگی جنون کی شہ امریکی قیادت دے رہی ہے ۔ امریکہ بظاہر پاکستان کا دوست ہے لیکن اندر سے وہ ایسی تمام قوتوں کا ساتھ دے رہا ہے جو پاکستان کو کسی نہ کسی طرح عدم استحکام سے دوچارکر کے اس کے جوہری اثاثوں پر قبضہ کرکے پاکستان کی طاقت کو پارہ پارہ کرنا چاہتا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ پاکستان کے باشعور افراد مریکہ اور بھارت کی اس پالیسی اور حکمت عملی کو سمجھ چکے ہیں۔وہ ہر سطح اور ہر فورم پر ان دونوں ملکوں کی منافقانہ پالیسیوں کا پردہ چاک کررہے ہیں۔
نریندرمودی کی پاکستان کے خلاف سوچ کا اندازہ اس موصوف کی تقریروں سے ہوگیا تھا جوگزشتہ سال عام انتخابات جیتنے کے سلسلے میں انتہا پسند ہندوئوں کو راغب کرنے کے لئے کی گئیں ۔اس نے انتہا پسند ہندوئوں سے پاکستان دشمنی کا ووٹ حاصل کیا تھا اور اب وہ ان ووٹروں کو خوش کرنے کے لیے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی پالیسی پر چل رہا ہے۔ مودی کی ان پالیسیوں کی بدولت دونوں ملکوں کے درمیان دوبارہ عدم اعتماد کی فضا پیدا ہوگئی ہے اور سرحدوں پر بلااشتعال فائرنگ نے ماحول کو سخت کشیدہ کردیا ہے۔
بھارت کے جارحانہ رویے کے مقابلے میں وزیراعظم کی سیاسی سوجھ بوجھ کی کمزوری نمایاں ہوگئی ہے۔وہ ابھی تک اس خطرناک صورتحال کو سمجھنے سے قاصر نظر آرہے ہیں ان کے بیانات میں سیاسی تدبر کا فقدان ہے ۔ نیز ان کا جھکائو ہمیشہ بھارت کی جانب رہا ہے ،جس سے ان کے تجارتی مفادات وابستہ ہیں۔ مزید برآں انہوں نے ابھی تک کسی کو وزیرخارجہ بھی مقرر نہیں کیا ہے جبکہ سرتاج عزیز کے بیانات بھی دونوں ملکوں کے درمیان حالات کو معمول پر لانے کا باعث نہیں بن رہے ہیں۔ پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ حکومت کی خارجہ پالیسی کا فوکس صرف اور صرف بھارت ہے جو آئے روز پاکستان کے لئے معاشی و فوجی مسائل کھڑے کرتا رہتا ہے۔ جس کی تازہ مثال ورکنگ بائونڈری اور لائن آف کنٹرول پر بھارت کی جانب سے غیر اعلانیہ جارحیت ہے ۔ چین کے ساتھ ہمارے روابط انتہائی اچھے اور خوشگوار ہیں لیکن ہمارے اندرونی سیاسی ومعاشی حالات کے بگاڑ کی وجہ سے پاکستان چین دوستی متاثر ہورہی ہے، جو پاکستان دشمن ممالک کے لئے خوشی کا باعث بن رہی ہے۔ ہمارا سیاسی ماحول سیاست دانوں کی بے لگام کرپشن کی وجہ سے بدتر ہوگیا ہے ۔ ہر سطح پر قانون ،انصاف اور میرٹ کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس صورتحال سے بھارت سمیت وہ تمام ممالک بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں، جو پاکستان اور اس کے عوام کی جان کے درپے ہیں۔
فوج شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف کامیاب کارروائی کررہی ہے لیکن فوج کے لیے عوام کی حمایت ضروری ہوتی ہے، فوج کی تمام اخلاقی قوت عوام کے ساتھ وابستہ وپیوستہ ہوتی ہے، لیکن پاکستان کے موجودہ پریشان کن سیاسی ومعاشی حالات اور حکومت کی نا اہلی اور بے سمت خارجہ اور داخلی پالیسیوں کی وجہ سے اعلیٰ عسکری قیادت متفکر نظر آرہی ہے۔حکمرانوں کو اس حوالے سے سنجیدگی اختیار کرنا ہوگی۔