سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ 28اکتوبر تک نئے چیف الیکشن کمشنر کا تقرر کردے تاکہ آئندہ ہونے والے انتخانات کے لئے لازمی اصلاحات سے متعلق کارروائی کی جاسکے۔ اس وقت چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ سابق سی ای سی جناب فخرالدین جی ابراہیم کے استعفیٰ کی وجہ سے ابھی تک خالی پڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ 28اکتوبر تک اس اہم آسامی کو پرُ کیاجائے۔ قانون اور روایت کے مطابق آئندہ جو بھی چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا جائے گا،اس کاتعلق عدلیہ سے ہوگا اور وہ سپریم کورٹ کا ریٹائرڈ جج ہوگا ، لیکن پارلیمنٹ کے موجودہ حزب اختلاف کے رہنما جناب خورشید شاہ نے وزیراعظم میاں نواز شریف سے درخواست کی ہے کہ آئندہ چیف الیکشن کمشنر کسی بیورو کریٹ یا سیاست دان کو بنایاجائے۔ خورشید شاہ کا یہ مطالبہ ایک ایسے وقت آیا ہے، جب پوری قوم انتخابی اصلاحات کا پر زور مطالبہ کررہی ہے، تاکہ آئندہ انتخابات میں دھاندلیوں کے امکانات کو کم سے کم کیا جاسکے، چنانچہ اگر خورشید شاہ کی اس نامناسب اور نا معقول تجویز کو مان لیا جاتا ہے تو ایک بار پھر پاکستان میں نئے چیف الیکشن کمشنر کی تقرر ی سے متعلق ایک بحران پید ا ہوگا جس کی وجہ سے حکومت ایک بار پھر متنازع ہوجائے گی۔ پاکستان میں بیورو کریٹس کا کردار زیادہ اچھا نہیں رہا ہے۔ ان حضرات کی اکثریت نے حکومت وقت کے
ساتھ مل کر اپنے ذاتی مفادات کے لئے کام کیا ہے اور غلط مشوروں کے ذریعے سیاسی ومعاشی حالات میں بگاڑ پیدا کرنے میں ان کا کردار نمایاں رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ عوام اور خواص کی اکثریت ان کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتی بلکہ ان سے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ یہ عناصر معمولی کا موں میں بھی رکاوٹ پیدا کرتے ہیں، جس کی وجہ سے غیر معمولی تاخیر ہوتی ہے، جو بعد میں ترقی کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہے۔ مزید برآں بیوروکریٹ کسی بھی لحاظ سے غیر جانبدار نہیں ہوتا ۔اس کے سیاست دانوں اور معاشرے کے با اثر طبقات سے گہرے مراسم ہوتے ہیں، بعض بیوروکریٹ ریٹائر ہونے کے بعد ان ہی کے اداروں میں ملازمت اختیار کرلیتے ہیں، اس لئے کسی بھی بیوروکریٹ کی چیف الیکشن کمشنر کی حیثیت سے تعیناتی مناسب نہیں ہے، اور نہ ایسا ہونا چاہئے۔
جہاں تک کسی بھی سیاست دان کو چیف الیکشن کمشنر بنانے کی تجویز پیش کی گئی ہے، وہ بھی زمینی حقائق کے خلاف ہے کیونکہ سیاست داں چاہے وہ کتنا ہی مخلص یا دیانت دار ہو ، اس کا جھکائو کسی ایک سیاسی پارٹی کی طرف ہوتا ہے جس سے اس کا ماضی یا پھر حال میں وابستگی رہی ہوتی ہے، اس لئے وہ اتنے بڑے عہدے پر براجما ن ہوکر سارے انتخابی عمل کو متنازع بنانے کا سبب ہوسکتا ہے ۔ اس لئے کسی بھی سیاست دان کو الیکشن کمشنر کے عہدے پر فائز کرنا ایک بڑی غلطی ہوگی۔ خورشید شاہ اس قسم کی تجویز اس لئے پیش کررہے ہیں تاکہ وہ آئندہ انتخابات میں اپنی پارٹی کو دوبارہ ''بھاری اکثریت‘‘ سے کامیاب کراسکیں اور یہ کام اس وقت ہی ہوسکتا ہے، جب چیف الیکشن کمشنر سیاست دان ہو یا بیورو کریٹ ، جسے وہ بہ آسانی ہر قسم کے مادی لالچ کے ذریعے اپنا ہم خیال بنا کر عام انتخابات میں اپنی من مانی کراسکیں اور نتائج کو اپنے حق میں استوار کراسکیں ۔بیشتر ترقی پذیر ممالک میں چیف الیکشن کمشنر سپریم کورٹ کا ریٹائرڈ جج ہوتا ہے ۔ یہ طریقہ کار بلکہ روایت بھارت میں بھی ہے جہاں دنیا کے سب بڑے پارلیمانی انتخابات ہوتے ہیں اور دھاندلی کے امکانات بھی کم سے کم ہوتے ہیں۔ پاکستان میں تمام تر انتخابات سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی رہنمائی میں ہوئے تھے۔ یہی روایت 2013ء کے عام انتخابات میں بھی اختیار کی گئی تھی، یہ دوسری بات ہے کہ فخرالدین جی ابراہیم اس حیثیت میں کمزور ثابت ہوئے جس سے صوبائی الیکشن کمشنر نے بھرپور فائدہ اٹھایا تھا جس کی وجہ سے بعد میں انتخابات متنازع بن گئے ہیں۔ خورشید شاہ سے متعلق یہ بات بتانا ضروری ہے کہ وہ اس وقت میاں نواز شریف کے اصل ترجمان ہیں۔ وہ جس جمہوریت کو بچانے کا دعویٰ کر رہے ہیں، وہ خود اس کی بد نامی کا باعث بننے ہیں، مزید برآں جس طرح انہوں نے جمہوری اقدار کو کرپشن کے ذریعے پامال کیا ہے اس سے پاکستان کے باشعور عوام بخوبی واقف ہیں۔ اس وقت بھی خورشید شاہ پر نیب میں مقدمات زیر سماعت ہیں ۔ اس شخص نے اپنے ایک ذاتی دوست جو کسی زمانے میں نیب کے سربراہ رہے تھے، ان کی مدد سے اپنے خلاف مقدمات ختم کرانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے، اگر ان کے خلاف نیب میں زیر سماعت مقدمات ختم ہوجاتے تو ان کی دوسری کوشش یہ تھی کہ زرداری صاحب کو (جو اس وقت صدر پاکستان تھے) کسی طرح بہلا پھسلا کر راجہ پرویز اشرف کی جگہ ان کو وزیراعظم بنادیں، لیکن زرداری صاحب جانتے ہیں کہ ماضی کا سرکاری ادارے کا ایک ملازم (میٹر ریڈر) کس طرح آگے بڑھنے کی کوشش کررہا ہے ،چنانچہ انہوں نے اس سلسلے میں اس کی کسی طرح کی مدد کرنے سے انکار کردیا تھا۔
اب یہ شخص جناب نواز شریف سے اپنی حالیہ وفاداری کا صلہ لینے کی کوشش کررہاہے اور ایسے مطالبات پیش کررہا ہے جو پاکستان میںمزید انتشار پید ا کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔یہ بات اپنی جگہ ناقابل تردید ہے کہ عدلیہ نے بعض ایسے اچھے اور باکردار نامور جج پیدا کئے ہیں جن کی وجہ سے عدلیہ کا نام روشن ہوا ہے ۔اس وقت بھی عدلیہ میں اچھے ججوں کی کمی نہیں ہے، جو بڑی ایمانداری اور جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہوکر انصاف کے ترازو کو بلند کئے ہوئے ہیں۔ بیوروکریٹ اور سیاست دانوں کو کسی بھی صورت میں چیف الیکشن کمشنر نہ بنایا جائے کیونکہ ان حضرات نے پاکستان کو جس طرح اپنے انداز حکمرانی سے برباد کیا ہے ، اس پر مزید کسی قسم کا تبصرہ کرنا مناسب نہیں ہے۔ آج پاکستان کی بدنامی اور پاکستان کے ٹوٹنے کے ذمہ دار بھی یہی لوگ ہیں جو ذاتی مفادات کی خاطر ملک کے مفاد کو دائو پر لگانے میںذرہ برابر دیر نہیں کرتے ۔