’’طاقت‘‘ کا غرور اور حالات کے تقاضے

لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر ابھی تک بھارتی جارحیت جاری ہے حالانکہ دونوں طرف کے ملٹری کمانڈروںنے ہاٹ لائن پر اس سلسلے میں بات چیت بھی کی ہے، لیکن بھارت ''طاقت‘‘ کے غرور میں لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر مسلسل فائرنگ کررہا ہے۔ اس کا وزیردفاع میڈیا میں یہ بیان داغ رہا ہے کہ پاکستان کو مزید تکلیف پہنچائی جائے گی۔ پاکستان کی جانب سے سرتاج عزیز کا یہ بیان بالکل درست اور بر وقت ہے کہ کسی صورت میں پاکستان اس خطے میں بھارت کی بالادستی قبول نہیں کرے گا بلکہ برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی جائے گی۔دراصل جب سے نریندر مودی بھارت کا وزیراعظم بنا ہے‘ اس کا تمام تر فوکس کشمیر اور پاکستان دشمنی پر ہے۔ یہ انتہا پسند ہندو وزیراعظم روزِ اول ہی سے پاکستان کے خلاف زہر اگل رہا ہے اور دل میں بغض اور کینہ رکھتا ہے۔ اس کا بس چلے تو وہ پاکستان پر حملہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گا لیکن چونکہ پاکستان کی اپنی دفاعی صلاحیتیں بھارت کی جارحیت کو روکنے کے لئے نہ صرف کافی ہیں بلکہ مضبوط اور مستحکم بھی ہیں اس لئے بھارت خوف زدہ بھی ہے۔ پاکستانی فوج کے سربراہ راحیل شریف نے بھی دوٹوک الفاظ میں بھارت کو خبردارکیا ہے کہ وہ پاکستان کو دھمکیاں دینے سے باز رہے ۔ پاکستان بھارت کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دوسری طرف بھارت لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر غیر اعلانیہ جارحیت کا ارتکاب کرکے پاکستان کے صبر اور تحمل کو آزمارہا ہے بلکہ وہ پاکستان کو مسلسل مشتعل بھی کررہا ہے تاکہ جنگ کے شعلوں کو بھڑکا یا جاسکے ۔ بھارت کا پاکستان کے خلاف یہ طرز عمل دراصل ان غیر معروضی اطلاعات پر مبنی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اندرونی طورپر کمزور ہوچکا ہے ، اسے مزید کمزور کرنے اور ہراساں کرنے کاایسا موقع پھر کبھی ہاتھ نہیں آئے گا چنانچہ ان گمراہ کن اطلاعات کے پیش نظر بھارت پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ بھارت بہت طاقتور ملک بن چکا ہے اور وہ اس خطے کا بادشاہ ہے۔ظاہر ہے پاکستان بھارت کی ان گیدڑ بھبکیوں سے نہ تو خوف زدہ ہے اور نہ ہی وہ اس خطے میں اس کی معاشی یا سیاسی بالادستی کو قبول کرے گا، جبکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی یہ خواہش ہے کہ کسی طرح پاکستان کو مجبور کیا جائے کہ وہ کشمیر کے مسئلہ سے دستبردارہوجائے اور تجارت کے ذریعے دوستانہ تعلقات اور مراسم کو آگے بڑھانے کی کوشش کرے ، لیکن پاکستان کشمیر کے مسئلہ پر جس موقف پر قائم ہے اس سے ہٹنے کا سوال ہی پید انہیں ہوتا ۔مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں ایک متنازعہ مسئلہ ہے اور اس مسئلہ کو حل کرنے کے سلسلے میں دونوں ملکوں نے مذاکرات بھی کئے ہیں۔ ماضی میںبھارت کی تمام حکومتوں نے کشمیر کو بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازعہ مسئلہ قرار دیا ہے۔ جناب بھٹو مرحوم اور مسز اندراگاندھی کے درمیان شملہ معاہدے میں بھی کشمیر کو بھارت اور پاکستان کے مابین ایک متنازعہ مسئلہ تسلیم کیا گیا تھا، جسے حل کرنے کے لئے دوطرفہ مذاکرات کرنے پر زور دیا تھا۔ نریندرمودی اس مسئلہ پر پاکستان سے بات چیت کرنے کے لئے دل سے راضی نظر نہیں آتے ، حالانکہ انہوں نے بھی مسئلہ کشمیر کو ایک متنازعہ مسئلہ قرار دیا اور بات چیت کے ذریعہ حل کرنے کا بھی ارادہ ظاہر کیا ہے ، لیکن حال ہی میں ان کا پاکستان کی جانب طرز عمل جارحیت پر مبنی ہیں۔ اس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات انتہائی نچلی سطح پر پہنچ چکے ہیں جبکہ پاکستان کی کوشش ہے کہ ان تعلقات کو بات چیت کے ذریعہ نارمل سطح پر لایا جائے۔ بھارت کا موجودہ جارحانہ انداز شاید اس وجہ سے بھی نظرآرہا ہے کہ نریندرمودی مقبوضہ کشمیر میں آئندہ ہونے والے انتخابات جیتنا چاہتے ہیں تاکہ وہاں اپنی جماعت کی حکومت قائم کرسکیں اور ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی اس حکمت عملی میں کامیاب بھی ہوجائیں لیکن اس کے باوجود کشمیر کا مسئلہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازعہ مسئلہ بنا رہے گا، جسے حل کرنے کے بعد ہی جنوبی ایشیا میں امن قائم ہوسکتا ہے۔جنرل راحیل شریف نے اپنے بیان میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر میں کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے کیلئے عالمی برادری کی مدد مانگی ہے۔ خصوصیت کے ساتھ امریکہ سے استدعا کی ہے کہ وہ اس اہم مسئلہ پر ثالثی کا کردار ادا کرے ، جیسا کہ اس نے ماضی میں بھی کیا تھا۔بھارت نے میاں نواز شریف کی اس تقریر کا بہت برا منایا تھا اور کہا تھا کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے ، تاہم یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مقبوضہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے تو پھر وہاں اس کی سات لاکھ فوج کیا کر رہی ہے اور اس کی کیا ضرورت ہے؟ اس سوال کا بھارت کے پاس کوئی جواب نہیں ہے ، بھارت اس سات لاکھ فوج کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو دبا کر رکھنا چاہتا ہے تاکہ وہ اپنے آئینی حقوق کا مطالبہ نہ کرسکیں اور بھارت کے غیر قانونی قبضے کو تسلیم کرلیں لیکن مقبوضہ کشمیر کے غیور اور بہادر عوام نے بھارتی فوج کے بہیمانہ ظلم اور تشدد کے خلاف اپنی جدوجہد سے دستبردار ہونے سے صاف انکار کردیا ہے۔ آج تک وہ اپنی اس غیر معمولی تاریخی جدوجہد کو بڑے استقلال اور پامردی کے ساتھ جاری وساری رکھے ہوئے ہیں جس میں اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیری عوام نے‘ جن میں خواتین بھی شامل ہیں‘ اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ کشمیری عوام کی یہ تاریخی جدوجہد کبھی بھی نہیں رک سکے گی، بھلا خون سے سینچی ہوئی جدوجہد آزادی کبھی ظالمانہ کارروائیوں سے سامنے رکی ہے ؟ کبھی نہیں!
بھارت کی موجودہ انتہا پسند ہندو قیادت صرف کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر ہی پاکستان کے لئے مسائل پیدا نہیں کررہی ہے ، بلکہ اس نے اپنے زرخرید ایجنٹوں کے ذریعہ بلوچستان کے بعض جنوبی علاقوں میںبھی اس قسم کی صورتحال پیدا کررکھی ہے۔ پاکستان کے پاس جنوبی بلوچستان میں بھارت کی مداخلت کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں ۔ مزیدبرآں افغانستان کے بعض علاقوں میں بھی بھارت پاکستان دشمن عناصر کو فوجی تربیت دے کر بلوچستان میں گڑبڑ پیدا کررہا ہے۔ حال ہی میں ایران کی سرحدوں کے قریب ہونے والے جھگڑوں میںبھی بھارتی ایجنٹ کی کارستانیوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا جس کا مقصد صرف یہ ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات بگڑ جائیں۔ تاہم ایرانی قیادت کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہئے کہ ایرانی اور پاکستانی بلوچستان کی سرحدوں پر ہونے والی تخریبی کارروائیوں سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ رہا ہے۔ ایرانی اور پاکستانی سرحدوں کے قریب پر تشدد کار روائیاں کرنے والے خود پاکستان کے اندر بھی ایسی قابل مذمت تخریبی کارروائیاں کررہے ہیں جنہیں روکنے کیلئے ایف سی اپنی صلاحیتوں کے ساتھ بھر پور کوشش کر رہی ہے اور قربانیاں بھی دے رہی ہے۔ پاکستان اور ایران کی دوستی تمام تر اتار چڑھائو کے باوجود برقرار رہی ہے بلکہ دائمی ہے اس باہمی تعلقات کو خراب کرنے میں بھارت جیسے ملک کی تمام ریشہ دوانیاں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکیں گی۔ پاکستان ایک آزاد اور طاقتور ملک ہے جو اپنی آزادی اور سالمیت کی حفاظت کرنا خوب جانتا ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں