جس روز جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ جناب فضل الرحمن پر کوئٹہ میں خود کش حملہ کیا گیا ،اسی روز صبح کو ہزارہ کمیونٹی کے چند افراد کو بھی ٹارگٹ کرکے شہید کردیا گیا۔ یہ صورت حال بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں وقوع پذیر ہوئی جس کا ابھی تک کوئی تدارک نہیں کیا گیا۔ ڈاکٹر مالک کی حکومت لاء اینڈ آرڈر کو بہتر بنانے اور سماج دشمن عناصر کی بیخ کنی کے سلسلے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن ایک عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک محب وطن پاکستانی ہیں جو اپنے سیاسی فلسفہ کے تحت پاکستان میں جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لئے اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ پاکستان کے بہت سے سیاست دان اور سول سوسائٹی کے ارکان ان کی سیاست سے اتفاق نہیں کرتے بلکہ انہیں ایک موقع پرست سیاست دان کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہر حکومت کے ساتھ شامل ہونے میں اپنی سیاسی بقا تصور کرتے ہیں بلکہ حکومت کے ساتھ رشتہ ناتہ استوار کرکے وہ سیاسی منظر میں ہر لمحہ موجود بھی رہنا چاہتے ہیں، لیکن ان کی تمام خوبیوں اور خامیوں کے باوجود ان کا پاکستان کی سیاست میں ایک بڑا نام اور مقام ہے۔ کسی بھی شخص کو محض سیاسی اختلافات کی بنیاد پر قتل کرنے یا سیاسی منظر سے ہٹانے کا کوئی حق نہیں پہنچتا اور نہ ہی اس کا جواز بنتا ہے، اس لئے بلوچستان کے صوبائی وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک کا یہ فرض ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمن پر ہونے والے خودکش حملے کی غیر جانبدارانہ عدالتی تحقیقات کرائیں اور ان عناصر کو گرفتار کرکے عدالتوں میں پیش کریں تاکہ قانون کے تقاضے پورے ہوسکیں تو دوسری طرف اس گروہ کو بھی بے نقاب کیاجاسکے جو بلوچستان میںتخریبی کارروائیاں کرکے بلوچستان کی ترقی کے درپے ہے۔
مولانا فضل الرحمن پر ہونے والے خودکش حملے کی تحقیقات میںہزارہ کمیونٹی کے معصوم اور بے گناہ افراد کو ٹارگٹ کرنے والے گروہ کو بھی شامل کیا جانا چاہیے کیونکہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ہزارہ کمیونٹی کے سیکڑوں بے گناہ افراد کو شہید کیا جاچکا ہے لیکن اس کے باوجود اس گروہ کو بے نقاب یا گرفتارنہیں کیا جاسکا ،جو اپنے مسلمان بھائیوں کا خون بہارہے ہیں ۔ اس ضمن میں ڈاکٹر مالک کا یہ کہنا ہے کہ بلوچستان میںغیر ملکی طاقتیں اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ گھنائونا اور مکروہ کھیل کھیل رہی ہیں۔ ان کا یہ بھی ارشاد ہے کہ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک صرف تین اضلاع تک محدود ہیںحالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ علیحدگی پسند عناصر غیر ملکی اسلحہ اور پیسے کے ذریعہ پورے جنوبی بلوچستان میں پھیل گئے ہیں اور موقع ملتے ہی اپنی تخریبی کارروائیاں کرکے غائب ہوجاتے ہیں۔ ہزارہ کمیونٹی کے افراد کو قتل کرنے میں ان تمام عناصر کا ہاتھ ہے جنہیں بلوچستان میں تخریب کاری کے سلسلے میں کثیر رقوم باہر سے مل رہی ہیں اورکچھ پاکستان کے اندر سے بھی، نیز جنوبی افغانستان میں انہیں بلوچستان میں تخریب کاری کے سلسلے میں تربیت بھی دی جارہی ہے۔ ہزارہ کمیونٹی کے علاوہ غیر بلوچیوں کو بھی قتل کرکے صوبے میں خوف وہراس کی فضا پیدا کی جارہی ہے۔ ابھی حال ہی میں رحیم یار خان کے آٹھ محنت کشوں کو جس بے دردی سے قتل کیا گیا ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ان تخریب کاروںنے ان محنت کشوںکو قتل کرکے یہ پیغام دیا ہے کہ بلوچستان میں دیگر صوبوں کے لوگ نہیں آسکتے حالانکہ بلوچستان کا ایک عام بلوچی ایسا نہیں سوچتا، یہ منفی اور بین الصوبائی نفرت پر مبنی سوچ بلوچستان میں بھارت نواز عناصر پھیلارہے ہیں تاکہ پاکستان کو اندر سے کمزور کرکے ریاست کی مشینری کو ناکام بنادیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اس صوبے میں ترقیاتی کام پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پاتے بلکہ یہ صوبہ معاشی ترقی کے لحاظ سے جمودکا شکار ہوچکا ہے۔ مزید برآں ، سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جناب اسلم رئیسانی کی طرح ڈاکٹر مالک کی حکومت میںبھی غیر معمولی کرپشن ہورہی ہے جس کی وجہ سے ایک عام آدمی ان کی حکومت سے ناراض ہے۔ اس کی کارکردگی میں نہ تو گڈ گورننس کا تصور مل رہا ہے اور نہ ہی ایسے امکانات نظر آرہے ہیں کہ آئندہ چند برسوں میں اس چھوٹی سی آبادی کے اس صوبے کے دیرینہ مسائل حل ہوسکیں گے۔ ڈاکٹر مالک بلوچستان میں موجود خرابی کی تمام تر ذمہ داری سابق صدر جناب پرویز مشرف پر ڈال رہے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ مشرف صاحب کے دور میں جتنا فنڈ بلوچستان کو ملا تھا اتنا کسی اور صوبے کو نہیں ملا ۔ خود ڈاکٹر مالک اس کا اعتراف کرتے ہیں ، لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مشرف صاحب بلوچیوں کا دل نہیں جیت سکے تھے، لیکن اب تو مشرف صاحب اقتدار میں نہیں ہیں اور نہ ہی ان کا ا س صوبے میں کسی قسم کا اثر ورسوخ ہے تو پھر صوبہ کیوں تخریب کاروں کی آما جگاہ بن گیا ہے؟ کیوں جمہوری حکومتیں صوبے میں جمہوری کلچرکو فروغ دینے میںناکام نظر آرہی ہیں؟ مالی کرپشن کوکون روکے گا؟ کیوں ڈاکٹر مالک اور ان کے رفقاء ناراض بلوچوں سے بات چیت کرکے صوبے کے سیاسی ومعاشی حالات کو بہتر بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے اورکیا کبھی اس صوبے کو ملنے والے فنڈزکا آڈٹ ہوا ہے؟ اور اگر نہیں ہوا ہے تو کیوں؟
دراصل بلوچستان میں تخریب کاری کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کو روکنے کے لئے حکومت کے پاس کوئی ٹھوس حکمت عملی موجود نہیں ہے جس پر عمل پیرا ہوکر حالات کی اصلاح کی جاسکے۔ لاء اینڈ آرڈرکو بہتر بنانے کی تمام تر ذمہ داری ایف سی پر ڈال دی گئی ہے جو ملک دشمن اور سماج دشمن عناصر سے لڑ بھی رہے ہیں اور اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کررہے ہیں ؛ حالانکہ سیاسی حکومتوں پر لاء اینڈ آرڈرکو بہتر بنانے کے علاوہ سیاسی ومعاشی حالات میں تبدیلی لانے کے سلسلے میں بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جبکہ عوام بہت حد تک انہی پر انحصار کرتے ہیں ، لیکن صوبے کی موجودہ جمہوری حکومت ماضی کا رونا روکر اپنی ذمہ داریوں سے دامن چھڑانا چاہتی ہے جو کہ اس کی ذہنی شکست کی غمازی کررہی ہے۔ بلوچستان کا مسئلہ نہ تو سنگین ہے اور نہ ہی پیچیدہ بلکہ اس کو خود بلو چ سیاست دانوں نے پیچیدہ اور گمبھیر بنادیا ہے بالکل اُس ضدی مگر اناڑی کھلاڑی کی طرح جو نہ خود کھیلنا چاہتا ہے اور نہ ہی دوسروں کو کھیلنے دینا چاہتا ہے۔ بلوچ سیاست دانوں کو وفاق سے شکایات رہی ہیں اور یہ شکایتیں بہت حد تک جائز بھی ہیں ؛ تاہم ان کا ازالہ کرنا بھی بلوچستان کی صوبائی حکومت کی ذمہ داری میں شامل ہے جو وفاق کے ساتھ بہت سے قومی امور اور معاملات کے سلسلے میں رابطے میںرہتی ہے۔ ڈاکٹر مالک ترقی پسند سوچ کے حامل ہیں ، انہیں کشادہ دلی اور روشن خیالی کا راستہ اختیار کرتے ہوئے صوبے میں احتساب کا موثر نظام رائج کرنا چاہئے تاکہ کرپشن کو روکا جاسکے ، نیز انہیں اپنے وزرا کو تلقین کرنی چاہیے کہ کچھ روپیہ بلوچستان کے عوام کی بہتر ی کے لئے بھی خرچ کریں ورنہ احساس محرومی کے گمراہ کن نعروں سے صرف اور صرف علیحدگی پسند فائدہ اٹھائیں گے۔