یہ کہاں کی دوستی ہے؟

پینٹاگان نے اپنی اس سال کی دوسری ششماہی رپورٹ امریکی کانگریس کو پیش کردی ہے جس میں پاکستان پر الزام لگایا ہے کہ اس وقت بھی فاٹا اور دیگر شمالی علاقوں میں دہشت گرد چھپے ہوئے ہیں جہاں سے وہ افغانستان اور بھارت پر حملہ کررہے ہیں۔ اس سے قبل بھی نئے سال کے آغاز کے موقع پر اپنی پہلی رپورٹ میں پینٹاگان نے لکھا تھا کہ پاکستان میں طالبان اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں بہت زیادہ فعال ہیںاور وہ افغانستان اور پاکستان سے ملحق سرحدوں سے افغانستان کے اندر حملہ کررہی ہیں، لیکن اس رپورٹ میں بھارت کا ذکر نہیں تھا۔ اس تازہ رپورٹ میں افغانستان کے ساتھ بھارت کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو اپنی جگہ انتہائی حیرت انگیز ہونے کے علاوہ مضحکہ خیزبھی ہے۔ پینٹاگان کی اس رپورٹ پر پاکستان کی حکومت اور عوام میں سخت غم وغصہ پایا جارہا ہے کیونکہ پاکستان کی بہادر فوج شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف زمینی وفضائی کارروائی کررہی ہے اور اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کررہی ہے۔ نیز کئی لاکھ افراد کی معاشی دیکھ بھال بھی کررہی ہے جو وزیرستان سے فوجی آپریشن کی وجہ سے اپنے گھروں کو چھوڑ کر خیموں میںپناہ گزین ہوگئے ہیں، چنانچہ پینٹاگان کی اس غیر ذمہ دارانہ رپورٹ پر دفتر خارجہ نے امریکی سفیر جناب اولسن کو طلب کیا اور سخت احتجاج کرتے ہوئے قومی سلامتی کے مشیر جناب سرتاج عزیز نے کہا کہ اس رپورٹ سے امریکہ اور پاکستان کے درمیان بہتر ہوتے ہوئے تعلقات دوبارہ متاثر ہوسکتے ہیں۔ انہوںنے بڑی وضاحت سے کہا کہ پاکستان افغانستان کے اندر ونی معاملات میں مداخلت نہیں کررہا بلکہ وہ وہاں قیام امن کے سلسلے میں کئی بار اپنا دست تعاون بڑھا چکا ہے۔ اس وقت بھی پاکستان کی یہی خواہش ہے کہ افغانستان میںپائیدار امن کا قیام ممکن ہوسکے، کیونکہ افغانستان میں امن کا قیام خود پاکستان کے مفاد میں ہے۔ امریکی سفیر نے سرتاج عزیز کی بات سے اتفاق کیا اوروعدہ کیا کہ وہ پاکستان کی حکومت کے جذبات امریکی حکومت اور کانگریس کو ضرور آگاہ کریں گے۔
تاہم پینٹاگان کی اس رپورٹ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ امریکہ بھر پور طریقے سے اب بھارت نواز پالیسی پر گامزن ہے، یہی وجہ ہے کہ اس نے افغانستان پر دہشت گردوں کے مبینہ حملوں سے متعلق پاکستان پر الزام تراشی کرتے ہوئے بھارت کو بھی اس فہرست میں شامل کرلیا ہے، حالانکہ امریکہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر پاکستان کے خلاف کون بلا اشتعال کارروائیاں کررہا ہے؟ نیز مقبوضہ کشمیر میں پاکستان نہیں بلکہ وہاں کی مقامی آبادی اپنی آئینی حقوق کے لئے جدوجہد کررہی ہے، جہاں بھارت کی سات لاکھ فوج ان پر ظلم وجبر کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔ ماہ محرم الحرام کے موقع پر مقبوضہ کشمیر میں جلوسوں پر مکمل پابندی لگادی گئی تھی، حالانکہ مقبوضہ کشمیرمیں ہر سال بڑی عقیدت و احترام سے محرم الحرام میں عزاداری کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یومِ عاشور کے موقع پر سرینگر میں ایک بڑا تاریخی جلوس برآمد ہوتا ہے، جس میں ہزاروں مسلمان شرکت کرکے نواسہ رسول امام حسینؓ کو نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ یوم عاشور کے موقع پر جلوس نکالنے پر پابندی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت مسلمانوں کی مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کررہاہے، جبکہ اسے انسانی حقوق کا بھی کوئی پاس یا احترام نہیں ہے۔ امریکہ کی بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں اس کھلی انسانی اور مذہبی حقوق کی خلاف ورزی پر خاموشی اس حقیقت کو ظاہر کررہی ہے کہ امریکہ اپنے علاقائی معاشی و سیاسی مفادات کی خاطر بھارت پر تنقید کرنے سے گریزاں ہے اور اسے ناراض نہیں کرنا چاہتا۔ بلکہ پاکستا ن پر بھارت کے اندرونی معاملات پر مداخلت کا جھوٹا ، لغو اور بے بنیاد الزام عائد کرکے بھار ت کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا ہے، اور اس خطے میں پاکستان کے خلاف ایک محاذ کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارت امریکہ کی ایما پر افغانستان کی 
حکومت کو پاکستان کے خلاف جو غلط مشورے دے رہا ہے وہ نہ تو افغانستان کے قومی مفادات میں ہیں اور نہ ہی امریکہ کے‘ جو 2016ء کے بعد بھی افغانستان میں موجود رہنا چاہتا ہے، تاکہ اس خطے میں چین اور روس کی نگرانی کی جاسکے۔ چنانچہ پینٹاگان کی پاکستان کے خلاف اس رپورٹ پر عوام اور حکومت کا ناراض ہونا ایک فطری امر ہے اور اب پاکستان کے عوام کو یہ یقین ہوتا جارہا ہے کہ امریکہ پاکستان کا نہ تو دوست ہے اور نہ ہی اسے اس خطے میں پاکستان کا مفاد عزیز ہے ، بلکہ ہر موقع پر وہ پاکستان کو اس خطے میں دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دے رہا ہے، جبکہ دوسری طرف ضربِ عضب کے ذریعے پاکستان شمالی وزیرستان میںدہشت گردوں کے اڈوں کا خاتمہ کررہا ہے۔ اب تک ایک ہزار دہشت گرد مارے جاچکے ہیں اور یہ عناصر ردعمل کے طورپر پاکستان کے اندر دھماکے کررہے ہیں جس میں واہگہ بارڈر پر ہونے والا تازہ خودکش حملہ بھی شامل ہے۔ اس حملے میں 60سے زائد پاکستانی شہید ہوئے ہیںاور 120کے قریب زخمی ہوئے ہیں، ابھی کچھ دن قبل امریکہ پاکستانی فوج کی دہشت گردوں کے خلاف ان کارروائیوں کی تعریف کررہا تھا لیکن اب اچانک وہ پینٹاگان کی رپورٹ کے حوالے سے پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت کا الزام عائد 
کررہا ہے۔ امریکہ کو اب اس حقیقت کا اعتراف کرلینا چاہئے کہ پاکستان کی بہادر فوج شمالی وزیرستان میں جو کارروائی کررہی ہے وہ خود پاکستان کے اپنے قومی مفاد میں ہے، کیونکہ ان دہشت گردوں نے غیر ملکی آقائوں کی مالی مدد کے ذریعے پاکستان کو غیر معمولی نقصان پہنچایا ہے اور پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کی ہے جو بھارت کا اصل ایجنڈا ہے۔ جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے پاکستان ہر قیمت پر افغانستان میں امن کا قیام چاہتا ہے، اس کے لئے پاکستان افغان حکومت سے ہر سطح پر تعاون کرنے کو تیار ہے۔ چنانچہ گزشتہ جمعرات کو پاکستان کی بری فوج کے سپہ سالار جناب راحیل شریف نے افغانستان کا ایک روزہ دورہ کرکے افغان صدر کے علاوہ دیگر اہم شخصیات سے ملاقات کی اور ایک بار پھر پاکستا ن کی پیش کش کو دہرایا ہے کہ پاکستان افغان سکیورٹی فورسز کو تربیت دینے کے لئے تیار ہے بلکہ اگر اسے اسلحہ کی ضرورت ہے تو وہ بھی دینے کو تیار ہے۔ پاکستان نے ایسی ہی پیش کش 2010ء اور2011ء میں برسلزمیں نیٹو کانفرنس میں کی تھی جس کا مثبت جواب نہیں ملا تھا۔ اب ایک بار پھر پاکستان افغانستان کو اس خطے میں ترقی اور امن کے عظیم مفادات کی خاطر دوبارہ اپنا تعاون پیش کررہا ہے اور اس امید کے ساتھ کہ افغان حکومت اس پر غور کرکے اس کا مثبت جواب دے گی۔ امریکہ کو پاکستان کی ان کوششوں کی تعریف کرنی چاہئے نہ کہ اس پر الزام لگانا چاہیے کہ وہ بھارت اور افغانستان کے خلاف دہشت گردوں کی حمایت کررہا ہے... یہ کہاں کی دوستی ہے؟ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں