تھر کا مسئلہ اور سندھ حکومت

سندھ کی صوبائی حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے ایک سروے شائع ہوا ہے جس میں سندھ کی حکومت کو انتہائی نااہل اور ناقص قرار دیا گیا ہے۔ صوبائی حکومت کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ 82 سال کے بزرگ ہیں اور غالباً فیصلہ کرنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں۔ وہ اسمبلی کے اجلاس کے دوران سوتے رہتے ہیں حتیٰ کہ یہ بھول بھی جاتے ہیں کی ان کی نشست کون سی ہے۔ اس کے باوجود وہ ابھی تک اپنے عہدے پر براجمان ہیں۔ شاید کچھ لوگوں کو ایسے ہی شخص کی ضرورت ہے جو صرف ان کے احکامات پر عمل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، سندھ کے عوام یا سندھ کی حکومت بھاڑ میں جائے۔ اس پس منظر میں تھر میں جو کچھ بھی ہورہا ہے اس کی براہ راست ذمہ داری سندھ حکومت کے علاوہ اس علاقے کے منتخب نمائندوں پر عائد ہوتی ہے۔ اس وقت تھر سے قومی اسمبلی کے 2 اور صوبائی اسمبلی کے 4 نمائندے ہیں۔ صوبائی اور قومی اسمبلی کے ان نمائندوںکو تھر کے عوام اس لئے ووٹ دیتے ہیں کہ وہ ان کے دیرینہ مسائل حل کرنے میں کوتاہی نہیںبرتیں گے، لیکن ان میں تو اتنی بھی انسانی ہمدردی نہیں کہ تھرکے ان بھوکوں اور افلاس زدہ افراد کے لئے معقول خوراک اور علاج معالجے کا بندوبست ہی کرسکیں۔ تھر گزشتہ تین برسوں سے خشک سالی کا شکار ہے، اس دوران بارشیں نہیں ہوئیں جس کی وجہ سے جہاں زرعی پیداوار شدید متاثر ہوئی وہاں مویشیوں کے لئے چارہ بھی نایاب ہوچکا ہے۔ چنانچہ بھوک اور بیماری سے جہاں بوڑھے اور بچے ہلاک ہورہے ہیں وہاں جانور بھی مر رہے ہیں۔
حکومت سندھ اور خاص طور پر اس علاقے کے منتخب نمائندوں کو معلوم تھا کہ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے تھر کے حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں ، لیکن انہوں نے اس کے تدارک کے لئے کوئی معقول اقدامات نہیں کئے جس کی وجہ سے اب تک 100سے زیادہ معصوم بچے اپنی زندگیوں کی بازی ہار چکے ہیں۔ اس ضمن میں حیر ت کی بات یہ ہے کہ تھر کے قحط زدہ علاقوں کاجائزہ لینے اور عوام کی مشکلات اور مصائب کو دور کرنے کے سلسلے میں وزیراعظم میاں نواز شریف بھی گئے تھے جن کا استقبال بلاول زرداری نے کیا تھا۔ میاں نواز شریف تھر کی صورت حال اورغربت وافلاس کے مناظر دیکھ کر بہت دل گرفتہ ہوئے تھے اور سندھ حکومت کو تاکید کی تھی کہ وہ ان مصیبت زدہ افراد کے مسائل حل کرنے میں جنگی بنیادوں پرکام کرے۔ وزیراعظم کے چلے جانے کے بعد حسب روایت ان کی ہدایات کو درخور اعتنانہیں سمجھا یا گیا اور تھر کے باسیوں کے لئے خوراک کی 
دستیابی اور بیماریوں کے علاج معالجے کے ضمن میں صورت حال خراب سے خراب تر ہوتی گئی۔ وزیراعظم کے علاوہ وزیر اعلیٰ نے تھر کے کئی دورے کئے ہیں۔ وہ 50 سے زیادہ بڑی گاڑیوں کے قافلے کی صورت میں مٹھی تشریف لے گئے جہاں ان کے لئے اور ان کے وفد میں شامل افراد کے لئے فائیواسٹار ہوٹل کے معیار کے کھانے کا اہتمام کیا گیا۔ غریب اور نادار لوگ بڑی حسرت سے یہ منظر دیکھتے رہے۔ اس وقت بھی شاہ صاحب 90 بڑی گاڑیوں کے ساتھ سندھ اسمبلی کے بعض ارکان کو لے کر تھر کے دورے پر گئے ہوئے ہیں، وہاں کچھ دیر بیٹھ کر وہ کچھ ہدایات دے کر واپس آجائیں گے۔ بعد میں چھوٹے درجے کے کرپٹ بیوروکریٹ اپنے روایتی انداز میں شاہ صاحب کے احکامات کو نظر انداز کر کے اپنی معمول کی مصروفیات میں لگ جائیں گے۔ تھرکا یہ المیہ ہے کہ حکومت سندھ کے علاوہ یہاں کے منتخب نمائندوںکو اس دکھی انسانیت کا اتنا بھی درد نہیں ہے کہ ان کے لئے ہنگامی بنیادوں پر روٹی اور علاج کا بندوبست کرسکیں ؛ چنانچہ اس مجرمانہ غفلت کی وجہ سے قیمتی انسانی جانیں ضائع ہورہی ہیں۔
تنقید کرنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں،چونکہ تھر کی آبادی کی اکثریت اقلیتوں پر مشتمل ہے (تقریباً 52 فیصد) اس لئے ان کو درپیش مشکلات اور مصائب کا حل تلاش کرنے کے سلسلے میں حکومت غفلت اور پس وپیش سے کام لے رہی ہے۔ یہاں بعض این جی اوز بھی کام کررہی ہیں جن کی کاوشوں سے یہاں کے باسیوں کو تھوڑی بہت مددمل رہی ہے۔ ایم کیو ایم کا ایک وفد بھی تھرگیا تھا جہاں انہوںنے مصیبت زدہ اورغربت کے ستائے ہوئے لوگوں میںراشن تقسیم کیا اورانہیں یقین دلایا کہ وہ آئندہ بھی تھرکے قحط زدہ باسیوں کی بلا امتیاز مذہب وملت مدد کرتے رہیں گے۔ اس موقع پر ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر خالد مقبول صدیقی نے وزیراعظم سے استدعا کی کہ وہ اولین فرصت میں تھر کا دورہ کر کے اس آفت میںگرفتار لوگوںکی نہ صرف دلجوئی کریں بلکہ ان کے لئے دیرپا بنیادوں پر ایسا حل تلاش کریں کہ زندہ رہنے والوں کی زندگی بچ سکے۔ جماعت اسلامی کے وفد نے بھی تھر کا دورہ کیا ہے اور وہاں کے لوگوں میں راشن اور ادویات تقسیم کی ہیں۔
حکومت سندھ اور ان کے بعض ترجمانوں کا یہ استدلال بالکل بے بنیاد ہے کہ مرنے والے افراد بھوک یا بیماری سے نہیں مر رہے بلکہ یہ طبعی موت مررہے ہیں؛ یہ کھلا جھوٹ ہے، اس کھلے جھوٹ کی وجہ سے سندھ کی حکومت کی ناقص کارکردگی اور زیادہ نمایاں ہوگئی ہے۔ صحافیوں کی بڑی تعداد نے اسی دوران تھرکے مختلف علاقوں کا دورہ کیا ہے اور بھوک وافلاس اور پیاس کے مارے ہوئے قحط زدہ لوگوں کے دلخراش حالات سے اخبارات اور ٹی وی کے ذریعہ حکومت سندھ کے علاوہ عوام کو بھی آگاہ کیا ہے تاکہ ٹال مٹول سے کام نہ لیا جائے بلکہ ان کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں تاکہ ان کے دکھوں اور تکلیفوں کا مداوا ہوسکے۔
دراصل تھر میں عوامی قوت کے ذریعہ حکومت کی اس غفلت کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی کمی ہے نیز اس علاقے کی با اثر اشرافیہ انہیں اپنے تشدد آمیز رویے سے ایسا نہیں کرنے دے گی ، صرف میڈیا ہی وہ طاقت ہے جو تھرکے مصیبت زدہ لوگوں کے دکھوں کو اجاگر کر رہی ہے جس کی وجہ سے حکومت پر دبائو بڑھ رہا ہے اور وہ ان کی مدد کرنے کی کوشش کررہی ہے ، جس میں ابھی تک اسے کامیابی حاصل نہیںہوسکی اور تھر میں ہلاکتیں جاری ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں