افغان صدر کا دورۂ پاکستان

افغان صدر اشرف غنی کا حالیہ دورۂ پاکستان بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔اشرف غنی سابق صدر کرزئی کے برعکس پاکستان سے اپنے تعلقات بہتر بلکہ خوشگوار بنانا چاہتے ہیں۔ انہیں اس بات کا ادراک ہوچکا ہے کہ جب تک ان کا ملک پاکستان سے اپنے سیاسی ومعاشی تعلقات بہتر نہیں بنائے گا،اس وقت تک نہ تو دہشت گردوں کے خلاف جنگ جیتی جاسکتی ہے اور نہ ہی افغانستان میں دیرپا امن قائم ہوسکتا ہے۔ دہشت گرد دونوں ملکوں کے مشترکہ دشمن ہیں۔ اس وقت بھی افغانی طالبان افغانستان میں افغان حکومت کے خلاف مسلح جنگ لڑرہے ہیں ۔اشرف غنی کی یہ خواہش ہے کہ ان طالبان سے دوبارہ امن مذاکرات کئے جائیں تاکہ جہاں افغانستان میں امن کے امکانات پیدا ہوسکیں، وہیں امن کے قیام کی صورت میں ان کے ملک میں اقتصادی سرگرمیوں کے ایک نئے دور کا آغاز ہوسکے اورساڑھے تین کروڑ کی آبادی کے اس ملک سے بتدریج غربت ،بے روزگاری اور جاہلیت کا خاتمہ ہوسکے۔ پاکستان کا افغانستان کے ضمن میں موقف بڑا واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر افغانستان میں امن قائم ہوگا تو پاکستان میں اس کے انتہائی خوشگوار اثرات مرتب ہوسکیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت ماضی کو فراموش کرتے ہوئے افغانستان میں قیا م امن کے سلسلے میں اپنا دست تعاون دراز کررہی ہے ، چنانچہ اشرف غنی کے حالیہ دورہ ٔپاکستان سے پاک افغان دوستی کے نئے سفر کا آغاز ہوا ہے ۔ مزید برآں اشرف غنی کو جی ایچ کیو میں جو بریفنگ دی گئی ہے، اس کی وجہ سے اشرف غنی کو اس بات کا شدت سے احساس ہوا ہے کہ پاکستان کی فوج شمالی وزیرستان میںتحریک طالبان کے خلاف جو فوجی کارروائی کررہی ہے، اس کی وجہ سے پاک افغان سرحد پر دہشت گردوں کی متشددانہ کارروائیوں پر بھی خاصا اثر مرتب ہوا ہے، بلکہ بہت حد تک یہ عناصر ایک دوسرے کی سرحد کو عبور نہیں کر پارہے جس سے دہشت گردی کے واقعات میں نمایا ں کمی واقع ہورہی ہے۔اس کا سہرا ضربِ عضب کو جاتا ہے۔ افغان صدر نے جنرل راحیل شریف سے ملاقات کے دوران اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی قابل تحسین ہے اور انہیں اس کا بھی احساس ہے کہ پاکستان کی فوج کے علاوہ پاکستان کے عوام نے دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہوئے بے پناہ جانی و مالی قربانیاں دی ہیں۔ جہاں تک افغان طالبان کی افغان حکومت سے بات چیت کا تعلق ہے تو یہ خالصتاً افغانستان کا اندورنی معاملہ ہے ۔پاکستان افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں ایسے فارمولے کو قبول کرے گا جسے افغانستان کی حکومت اور عوام پسند کریں گے؛تاہم ماضی میں پاکستان نے افغان طالبان اور افغانستان کی حکومت کے درمیان بات چیت کرانے کے سلسلے میں ثالثی کا کردار ادا کیا تھا ۔قطر میں افغان طالبان کا ایک سیاسی دفتر بھی کھلوا دیا تھا، لیکن کرزئی کی منفی سوچ اور پاکستان دشمنی کی وجہ سے پاکستان کی یہ کوشش با ثمر ثابت نہیں ہوسکی۔ دراصل گزشتہ بارہ برسوں کے دوران افغانستان کے عوام نے جو مصائب جھیلے ہیں ، ان کی ذمہ داری سابق صدر کرزئی پر عائد ہوتی ہے جو بھارت اور امریکہ کے اشارے پر جنگجوافغان طالبان کے ساتھ حقیقی معنوں میں بات چیت نہیںکرنا چاہتا تھا بلکہ وہ پاکستان کے خلاف اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ پاکستان میں خود کش حملے کرارہا تھا،دوسری طرف کرزئی کی طرف سے پاکستان پر افغانستان کے اندر دہشت گردی کرانے کے تواتر کے ساتھ لگائے جانے والے الزامات کی وجہ سے بھی افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات اچھے نہیں ہوسکے، اور چونکہ کرزئی سی آئی اے کے اشارے پر ہندوستان نواز پالیسی پر گامزن تھا اور کسی بھی صورت میںپاکستان اور افغانستان کے درمیان اچھے تعلقات کا قیام نہیں چاہتا تھا ، اس لئے ان دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کشیدہ رہے ۔ افغان طالبان کرزئی سے اتنی ہی نفرت کرتے ہیں جتنی امریکہ سے۔ کرزئی کا پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگانے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ وہ جانتا تھا کہ اگر پاکستان اور افغانستان کے مابین دوستی کی صورت میں اگر امن قائم ہوگیا تو امریکی امداد بھی رک جائے گی۔ اس صورت اس کی ناجائز دولت میں کمی واقع ہوجائے گی جو اس نے اور اس کے دوستوں نے کرپشن کی صورت میں جمع کی ہے اور افغان عوام کا حق مارا ہے۔ اب تو خود امریکہ کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ افغانستان کو دی جانے والی امداد کا بیشتر حصہ کرزئی اور اس کے دوست ہڑپ کرگئے ہیں جبکہ کسی قسم کا ترقیاتی کا م نہیں ہوسکا ہے ، یہی وجہ ہے کہ امریکہ افغان طالبان کو زیر نہیں کرسکا ۔
لیکن اب صورتحال بد ل چکی ہے ۔اشرف غنی اور کسی حد تک عبداللہ عبداللہ بھی افغانستان میں حقیقی امن کے خواہش مند ہیں اور دونوں رہنما افغان طالبان کے ساتھ قیام امن کے سلسلے میں بات چیت کرنا چاہتے ہیں اور پاکستان کے ساتھ بھی سیاسی ومعاشی تعلقات بہتر بناکر افغان عوام کو درپیش سنگین معاشی وسماجی مسائل حل کرنے کے خواہش مند ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اشرف غنی نے وفاقی وزیر اسحق ڈار سے اپنی ملاقات کے دوران یہ امید ظاہر کی ہے کہ پاکستان کے ساتھ تجارت کو 2ارب ڈالر سے بڑھا کر پانچ ارب ڈالر تک لے جایاسکتا ہے۔ اس تجارت کا فروغ روایتی راستے کے علاوہ ابھی حال ہی میں جنوبی وزیرستان میں تعمیر ہونے والی سڑک Central Trade Corridor(جو 705کلو میٹر لمبی ہے) سے بھی افغانستان اور فاٹا کے درمیان تجارتی روابط بڑی تیزی کے ساتھ فروغ پاسکتے ہیں۔ اگر قیام امن کی صورت میں اس نئے راستے سے فاٹا اورافغانستان کے درمیان تجارت شروع ہوجائے گی تو سرحد کے دونوں طرف معاشی سرگرمیوں کے آغاز سے ان علاقوں میں بہت زیادہ سماجی و ثقافتی تبدیلیوں کا باعث بنے گا ، جنوبی وزیرستان میں یہ سڑک تعمیر کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ فاٹا میں معاشی سرگرمیوں کے ذریعہ اس علاقے میں غربت کو ختم کیا جاسکے اور نوجوان نسل کو معاشی طورپر با اختیار بنانے کی بھر پور کوشش کی جائے ، اس سڑک کاا فتتاح جنرل راحیل شریف نے گزشتہ دنوںکیا ہے ۔
پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت دونوں افغانستان میں قیام امن کے علاوہ سیاسی تعلقات اور باہمی تجارت کے فروغ کے سلسلے میں ایک ہی پیج پر ہیں، لیکن ایک مسئلہ جس پر اشرف غنی کو سوچنا چاہیے ۔ وہ یہ ہے کہ بھارت افغانستان میں سرمایہ کاری کے پس منظر میں پاکستان پر افغان طالبان کی حمایت کرنے کا بے بنیاد الزام بھی لگا رہا ہے تاکہ پاکستان اورافغانستان دونوں ایک دوسرے کے قریب نہ آسکیں ۔مزید برآں اس نے افغان فوج کے بعض یونٹس کو فوجی تربیت بھی دی ہے اور تربیت دینے کے دوران ان افغان فوجیوں کو پاکستان کے خلاف برین واش بھی کیا ہے ۔اگر اشر ف غنی نے بھارت کو پاکستان کے خلاف اس کی ان مذموم کارروائیوں سے نہیں روکا تو پاکستان اور افغانستان کے درمیان دیر پا امن قائم نہیں ہوسکتا جس کا نقصان اس پورے خطے کو ہوگا ۔چین کو بھی افغانستان کے رہنمائوں کو یہ بات باور کرانی چاہے کہ ان کو پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی برابری کی بنیاد پر قائم کرنی چاہیے۔پاکستان اور افغانستان دونوں باہم مل کر اب تاریخ بد ل رہے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں