لاڑکانہ میں عمران خان کی آمد

جمعہ21 نومبر کو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنے اعلان کے مطابق لاڑکانہ پہنچیں گے اور عوام سے خطاب کریں گے۔ میری اطلاع کے مطابق لاڑکانہ میں عمران خان کا زبردست استقبال کیا جائے گا کیونکہ بھٹو مرحوم کے اس سیاسی مرکزمیں عوام کی فلاح و بہبود کے سلسلے میں کوئی قابل ذکرکام نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ لاڑکانہ اور اس کے گردونواح میںرہنے والے عوام خصوصیت کے ساتھ نوجوانوں میں‘ وبا کی طرح پھیلی ہوئی بے روزگاری اور غربت کی وجہ سے ان کے ذہنوں میںموجودہ پی پی پی حکومت کے خلاف سخت نفرت اور بیزاری پائی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عمران خان کی لاڑکانہ میں آمدکا بڑی بے چینی سے انتظار کررہے ہیں جن میں پی پی پی کے تمام بڑے بڑے افراد شامل ہیں جو اس وقت یاتو پی پی پی سے قطع تعلق کرچکے ہیں یا پھر اس کی ناقص اور کرپٹ طرز حکمرانی کی وجہ سے ناراض ہیں۔ ان میں سندھ کے سابق وزیراعلیٰ جناب ممتاز بھٹو ، صفدر عباسی، ناہید عباسی کے علاوہ دیگر اہم شخصیات بھی شامل ہیں۔۔۔۔۔ بعض قبل از وقت اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ بعض رہنما نہ صرف اپنے مخالفین کے خلاف غیر جمہوری ہتھکنڈے استعمال کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ وہ ماضی میں ایسا کرتے بھی رہے ہیں ، نیز اس وقت آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف کے درمیان ہر قسم کی اور ہر سطح پر مفاہمت پائی جاتی ہے۔ اس لئے بعض باخبر سندھی صحافیوں کا خیال ہے کہ یہ دونوں باہم مل کر عمران خان کی لاڑکانہ میں زبردست مزاحمت کریں گے اور ہوسکتا ہے کہ ان کے جلسے کو ناکام بنانے کی کوشش بھی کریں۔ سندھی دانشوروں کا خیال ہے کہ پی پی پی کھل کر عمران خان کے جلسے کو ناکام بنانے کی کوشش نہیں کرے گی کیونکہ اگر اس نے اس قسم کا غیر جمہوری قدم اٹھایا تو اس کی پہلے ہی سے کھوئی ہوئی ساکھ مزید خراب ہوجائے گی، لہٰذا اس کی کوشش ہوگی کہ عمران خان کے جلسے کو دیکھے، اس کا مشاہدہ کرے اور یہ جاننے کی کوشش کرے کہ عمران خان کا پاکستان کے عوام‘ خاص طور پر سندھ میں مقبولیت کا گراف کیوں بڑھ رہا ہے؟ جیسا کہ میں نے بالائی سطور میں لکھا ہے، پی پی پی کاناراض گروپ عمران خان کے جلسے کو کامیاب بنانے کے لئے بہت زیادہ فعال اور محترک ہوگیا ہے۔ اس کا یہ استدلال خاصا وزن رکھتا ہے کہ آصف علی زرداری نے اپنی پانچ سالہ صدارت کے دوران بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کا نہ تو سراغ لگایا اور نہ ہی شبے کی بنیاد پر کسی کو گرفتار کرایا؛ حالانکہ یہ ناراض گروپ خصوصاً صفدر عباسی اور ان کی بیگم ناہید عباسی مسلسل آصف علی زرداری پر دبائو ڈالتے رہے کہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کا سراغ لگا کر انہیں عدالت کے سامنے پیش کیا جائے، لیکن آصف علی زرداری ایسا نہ کرپائے۔ 
مزید برآں ، یہ ناراض گروپ یہ سوچنے میں حق بجانب ہے کہ بلاول زرداری کا پی پی پی سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے، محض بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کا بیٹا ہونے کے ناتے اس کا یہ استحقاق نہیں بنتا کہ وہ پی پی پی کی قیادت کرے۔ پی پی پی کی قیادت کا حق اگر کسی کا بنتا ہے تو وہ مرتضیٰ بھٹو کے بیٹے ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کا ہے جسے آصف علی زرداری اوراس کے کرپٹ دوستوں نے ڈرا دھمکا کر خاموش کررکھا ہے۔ 
پی پی پی کا پاکستان کی سیاست میں زوال پذیر کردار سندھی بھائیوں کی اکثریت کو اس بات پر مجبور کررہا ہے کہ وہ عمران خان کا ساتھ دیں جو پاکستان میں ایم کیو ایم کی طرح ''سٹیٹس کو‘‘ کی سیاست کو توڑنے کے لئے سرگرم ہیں۔ عمران خان نے پورے ملک میں عوامی جلسے کرکے عوام کے ذہنوں کو موجودہ کرپٹ اور فرسودہ نظام کے خلاف ایک نئی سوچ سے ہم آہنگ 
کیا ہے۔ چالیس سال قبل ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اسی فرسودہ اور استبدادی نظام کو ختم کرنے کے لئے نعرہ حق بلند کیا تھا۔ مرحوم کی پُرجوش تقریروں نے غریب اور کچلے ہوئے لوگوں کے دلوں میں نئی روح پھونکی تھی اور انہیں جعلی اشرافیہ کے خلاف کھڑا ہونے کا حوصلہ عطاکیا تھا۔
اب چالیس برس بعد پورے ملک میں عمران خان نے عوام کے دلوں میں ظالموں کے خلاف جذبہ جنون پید ا کرکے انہیں ان کے خلاف صف آرا کردیا ہے۔ لاڑکانہ میں جمعہ کے روز جو جلسہ عام ہوگا اس میں وہ تمام محنت کش، ہاری اور مزدور شرکت کریں گے جو آج بھی نئے سماج کی تشکیل و تعمیرکے خواب دیکھ رہے ہیں اور جنہوں نے اس خواب کی تعمیر کے لئے دار و رسن کو بھی گلے لگایا تھا۔ دیہی سندھ کے عوام کو وڈیروں ، پیروں اورسجادہ نشینوں نے ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت غربت اور افلاس میں قید کررکھا ہے، بلوچستان سے بھی زیادہ غربت ، محرومی اور تنگ دستی اندرون سندھ میں پائی جاتی ہے اورا بھی تک ان کے سماجی ومعاشی حالات کو بہتر بنانے کے لئے کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوا ؛ حالانکہ ماضی میں لاڑکانہ سے چار وزیراعظم منتخب ہوکر آئے مگر ان کے منشور 
میں دیہی سندھ کے سدھار کا کوئی عملی نقشہ موجود نہیں تھا۔ سندھ کے بعض پڑھے لکھے سندھیوں کا یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ سندھ کا سب سے بڑا دشمن خود سندھی ہے جو گمراہ کن عادات و اطوار میںبھٹک کر اپنے حالات کو بہتر بنانے سے قاصرنظر آرہا ہے۔ سندھ کے کمیونسٹ عناصر کا صرف ایک ہی کام ہے یعنی اپنے مخالفین کو بُرا بھلا کہنا اور موقع ملنے پر وڈیروں کی اوطاق میں جاکر ان کی تعریف کرنا! سندھ کے قوم پرست طبقے کی بھی کم و بیش یہی حالت ہے، وہ اردو بولنے والوں کے خلاف محاذ بناکر اپنی محرومی کی بھڑاس نکالتے رہتے ہیں جبکہ جعلی اشرفیہ کے سامنے سجدہ کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ اس پس منظر میں عمران خان اندرون سندھ کے دورے پر آرہے ہیں ، خیال ہے کہ ایم کیو ایم اپنے انداز میں ان کا اندرون سندھ سواگت کرے گی کیونکہ ایم کیوایم اور پی پی پی کے درمیان ماضی کی مفاہمت اور شراکت اقتدار کا سورج غروب ہوچکا ہے۔ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی میں اب یہ احساس جاگزیں ہوچکا ہے کہ پی پی پی کے پانچ سالہ دور میں انہیں اقتدار کے ثمرات تو ملے تھے، لیکن ان کی سیاسی ساکھ کو بہت زیادہ نقصان پہنچا۔ اب ایم کیو ایم بدلتے ہوئے نئے سماجی رویوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے عوام کی حمایت میںایک بار پھر ہراول دستے کا کردار ادا کررہی ہے اور شہری سندھ کے عوام تیزی سے اس کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں